ترکی میں آج دوسرا دن ہے۔ بارہ گھنٹوں سے زیادہ طویل سفر کے بعد پہنچے ہیں۔ جب سے سرکاری خرچ پر صحافیوں کو ساتھ نہ لے جانے کا فیصلہ ہوا ہے ، ان کی تعداد کم ہوگئی ہے، دو تین ادارے ہی اپنے صحافیوں کو اپنے خرچے پر بھیجتے ہیں تاہم اس کا اصل نقصان یہ ہوا ہے کہ اب اندر کی کوئی خبر نہیں ملتی کیونکہ وزیراعظم اور ان کی ٹیم کے ارکان کا میڈیا کے ساتھ کوئی واسطہ نہیں ہوتا ، کوئی بات چیت نہیں ہوتی۔ اس طرح پاکستان سے چین یا ترکی کا پانچ گھنٹوں کا سفر اب چودہ گھنٹوں سے کم میں طے نہیں ہوپاتا ۔ یہی کچھ چین میں ہوا تھا جو، اب ترکی میں ہوا ہے۔ ہمارے ساتھ سیکرٹری خارجہ اور وزارت خارجہ کی سرکاری ٹیم نے بھی اسی جہاز میں سفر کیا۔ ایک دو وزیر بھی ساتھ تھے۔ پنجاب حکومت کا بھی ایک سرکاری وفد ترکی پہنچا ہوا ہے۔ وزیروں ، افسروں اور سرکاری ٹیم نے لاکھوں روپے غیرملکی ائرلائن کو ادا کیے ہیں۔ یہ پیسے اپنی ائرلائن کو مل سکتے تھے اگر پہلے کی طرح ملکی جہاز میں سفر کر لیا جاتا،صحافیوں سے بھی پیسے لے لیے جاتے۔ یہ وزیراعظم نواز شریف کا دوسرا غیرملکی دورہ ہے اور پتہ نہیں ہر دفعہ ہمیں کیوں لگتا ہے کہ ہر دورے میں سارا زور پنجاب کو سدھارنے اور بہتر کرنے پر ہے۔ ہر جگہ پنجاب کے وزیراعلیٰ ، ان کی لمبی چوڑی ٹیم ،ان کے پسندیدہ افسران اور ان کے منصوبے۔ چین گئے تو بھی پنجاب اور اب ترکی میں بھی پنجاب ۔ یا تو پنجاب کے حکمران دوسرے صوبوں کے وزرائے اعلیٰ کی نسبت اپنے عوام کا زیادہ درد دل رکھتے ہیں اور کچھ بھاگ دوڑ کر رہے ہیں یا پھر دوسرے کچھ زیادہ ہی نااہل ہیں۔ وزیراعلیٰ سندھ قائم علی شاہ نے بھی وزیراعظم کے ساتھ ترکی آنا تھا لیکن وہ آخری لمحے میں وفد سے نکل گئے۔ یہ بات سمجھ میں نہیں آتی کہ خیبر پختون خوا کے وزیراعلیٰ پرویز خٹک کو نواز شریف ساتھ نہیں لاتے یا پھر وہ خود زیادہ دلچسپی نہیں رکھتے۔ پرویز خٹک کے لیے یہ بات اچھی نہیں ہے کیونکہ اس طرح وہ کنوئیں کے مینڈک بن کر رہ جائیں گے۔ چین ہو یا ترکی جو کچھ یہاں دیکھنے میں آتا ہے وہ پاکستانیوں کے لیے نئی چیز ہے۔ ان ملکوں نے جس طرح کم عرصے میں ترقی کی ہے وہ ہمارے لیے ایک مثال بن سکتی ہے۔ خیبر پختون خوا میں بیٹھے رہنے سے کچھ حاصل نہیں ہوگا ۔ دنیا بہت بدل گئی ہے اور ہم وہیں کے وہیں کھڑے ہیں۔ ترکی میں اتنی اونچی اور خوبصورت عمارتیں دیکھ کر یقین نہیں آتا کہ چند برسوں میں اس ملک کی حالت اس قدر بدل گئی ہے۔ ہمارے ہاں اسلام آباد میں ایک غیرملکی پارٹی نے تین ٹاور بنا لیے تو اسے ایک ارب روپے بھتہ کی پرچی مل چکی ہے اور سنا ہے کہ وہ دوبئی بھاگ گئے ہیں۔ ان حالات میں ہم دنیا کو کس منہ سے سرمایہ کاری کی دعوت دے سکتے ہیں۔ جو موجود ہیں‘ جو خطے کے دیگر ممالک کے مقابلے میں ہمیں ترجیح دے کر یہاں اپنا سرمایہ لگا چکے ہیں‘ انہیں کون تحفظ دے گا؟ حکمرانوں کو وقت ملے تو کبھی اس بارے میں بھی سوچ لیں۔ ہائوسنگ کے شعبے میں چین ہو یا پھر ترکی، دونوں نے یہ راز پا لیا تھا کہ جب تک لوگوں کو آپ گھر فراہم نہیں کریں گے وہ مطمئن نہیں ہوں گے۔اگر آدمی کے پاس رہنے کو ایک مناسب گھر ہو تو اندر سے غیریقینی کا دھواں چھٹنے لگتا ہے، جس سے معاشرے میں تشدد کم ہوجاتا ہے۔ ہمارے ہاں کیا ہوتا ہے۔ اسلام آباد کے کچھ سیکٹرز میں سرکاری زمین پر کم لاگت کے گھر بنائے گئے تاکہ مستحق لوگ اپنے گھروں میں رہ سکیں۔ پتہ چلا کہ سرکاری ملازمین اور دیگر لوگوں نے کم آمدن دکھا کر وہ فلیٹ لے لیے۔ کچھ عرصے بعد اچھی قیمت پر بیچ ڈالے یا پھر آج تک ہزاروں روپے ماہانہ کرایہ لے رہے ہیں ، اور خود سرکاری گھروں میں رہتے ہیں ۔کوئی اس معاشرے اور اس کی سوچ کو کیسے تبدیل کر ے ؟ انقرہ کو دیکھ کر لگتا ہے کہ ریت کے ٹیلوں پر شہر آباد کر دیا گیا ہے۔ شہر کے چاروں طرف ٹیلے ہی ٹیلے ہیں اور ترکوں نے ان ٹیلوں کو بھی خوبصورتی میں بدل دیا ہے۔ یہاں ایک ایک دو دو کنالوں پر لمبی عمارتیں اور فلیٹ کھڑے کر دیے گئے ہیں۔ انقرہ میں کسی قسم کا شور شرابہ ہے نہ گندگی۔ ہم دو دن سے حیران ہیں کہ کہیں کوڑا کرکٹ نظر نہیں آتا۔ ہر طرف اونچی اور صاف ستھری عمارتیں ملتی ہیں۔ پاکستانی سفارت خانے کے پریس افسر اکبر خان صحافیوں کو اپنے گھر لے گئے جہاں ان کی بیگم نے بہترین پاکستانی کھانے بنائے۔ عمارت کی خوبصورتی سے زیادہ وہاں کی صفائی اور سلیقے نے سب کو متاثر کیا۔ وزیراعظم کے پریس سیکرٹری محی الدین وانی سے بات ہوئی تو وہ بھی یہی کہنے لگے کہ اس طرح کی عمارتیں پاکستان میں بنیں تو کیا بات ہے۔ کہیں کسی عمارت یا دیوار پر کوئی نعرہ لکھا ہے، نہ ہی بابا بنگالی کے ا شتہارات ۔ میں نے کہا وانی صاحب یہ کام ہمارے میڈیا اور سرکاری اداروں کا تھا۔وہ لوگوں کے اندر یہ احساس پیدا کرتے کہ پاکستان ان کا اپنا ملک ہے، اسے اچھا اور صاف رکھنے سے ہی سب بہتر محسوس کریں گے۔ ٹی وی نے کبھی کوئی سوشل سروس پیغام نہیں چلایا،جبکہ بھارتی چینل پر ہر وقت ایسے پیغامات چلتے رہتے ہیں ۔ ہمارے ہاں دیواریں نعروں اور اُلٹی پُلٹی ادویات کے اشتہار ات سے اٹی رہتی ہیں اور کسی کو کوئی پروا نہیں ۔ ترکش فوج ،جو کبھی یہاں طاقت ور ستون تھی، کو سیاستدانوں نے اچھی حکومت اور دیانت دارانہ عمل سے اپنی جگہ پر واپس بھیج دیا ہے۔ پولیس اتنی مضبوط ہوگئی ہے کہ وہ جرنیلوں تک پر آنکھ رکھتی ہے کہ کون کیا کررہا ہے۔ یہاں کی حکمران سیاسی جماعت بلدیاتی اداروں کے ذریعے ترکی میں تبدیلی لائی ہے اور ہمارے ہاں پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ نواز نے مل کر بلدیاتی اداروں کا گلہ گھونٹ دیا۔ اب جو بوسیدہ بلدیاتی نظام پاکستان پر تھوپا جارہا ہے اس سے تو بہتر ہے کہ سیاسی وڈیرے ہی ضلع پر ڈی پی او اور ڈی سی او کے ساتھ مل کر حکومت کرتے رہیں ۔ ہم بیرون ملک جاتے ہیں، ایک دوسرے کو ان کی ترقی اور تمیز کی کہانیاں سناتے ہیں لیکن مجال ہے کہ کچھ سیکھ کر اپنے ملک میں وہ کام کریں۔ حیرانی ہوتی ہے ہم کہاں سے کہاں پہنچ گئے ہیں۔ پاکستانی سفارت خانہ ایک اپنا رسالہ ترکی زبان میںجاری کرتا ہے۔ اس میں ایک خبر نے ششدر کر دیا کہ آج سے پچاس سال قبل پاکستان نے ویسٹ جرمنی کو اس وقت بارہ کروڑ روپے کا ترقیاتی قرضہ یہ کہہ کر دیا تھا کہ اسے ترقی کی ضرورت ہے۔ یہ قرضہ بیس برس میں ادا ہونا تھا ۔ عشق ممنوع کے دیس سے مزید کچھ کہانیاں بعد میں کیونکہ وزیراعظم نواز شریف کو ابھی تو اس بات پر بھی سوچ بچار کرنی ہے کہ انہوں نے اس ترکی جہاز کے معاملے پر ترکوں کو کیسے قائل کرنا ہے جسے راجہ پرویز اشرف رینٹل کیس میں کراچی کی بندرگاہ پر روک لیا گیا تھا اور ان سے پیسے وصول کرائے گئے تھے ! جاتے جاتے یہ خبر بھی سن لیں سابق صدر زرداری نے ایوانِ صدر سے رخصت ہونے سے کچھ دن قبل وزارت خارجہ کو کہہ کر چینی حکومت کو درخواست بھجوائی تھی کہ وہ آخری دورہ چین کا کرنا چاہتے ہیں۔ چینی حکومت، جو ہر دفعہ انہیں ویلکم کرتی تھی، نے یہ کہہ کر معذرت کرلی کہ وہ نجی وزٹ پر آنا چاہیں تو آٹھ ستمبر کے بعد آسکتے ہیں۔ معذرت کا وہ خط چینی حکام نے وزیراعظم کے دفتر بھیج دیا تو انہیں اس خط سے پتہ چلا کہ زرداری صاحب ایوانِ صدر سے رخصت ہونے سے قبل چین جانا چاہتے تھے ! پس تحریر :میرے وہ تمام دوست جنہوں نے ترکی ڈرامے عشق ممنوعِ کی ہیروئن بیتر کے نام میرے ذریعے سلام بھجوائے تھے، ان کے لیے عرض ہے کہ یہاں تو ہر دوسری ترکش لڑکی بیتر ہی لگتی ہے کہ ترک لوگ واقعی خوبصورت ہیں !
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved