سپریم کورٹ کے فیصلے کے بعد یوں لگتا ہے کہ بحران شدت اختیار کرگیا ہے۔ مختلف حلقوں کی طرف سے اس بات کا خدشہ ظاہر کیا جارہا تھا کہ آنے والے دنوں میں چیف جسٹس آف پاکستان ایک سیاسی حلقے کی تنقید کی زد میں آئیں گے‘سو اب اس منصوبے پر عمل ہوتا نظرآرہا ہے۔اس کی شروعات وفاقی کابینہ نے سپریم کورٹ کے فیصلے کو مسترد کرکے کردی ‘ پھر قومی اسمبلی میں حکومت کی اتحادی جماعت بلوچستان عوامی پارٹی کے پارلیمانی لیڈر خالد مگسی کی پیش کئی ہوئی قرار داد جس میں سپریم کورٹ کے تین رکنی بینچ کے فیصلے کو ماننے سے انکار کیا گیا۔حکومت کی جانب سے چیف جسٹس آف پاکستان کے استعفیٰ کا مطالبہ بھی اسی سلسلے کی کڑی ہے۔علاوہ ازیں قومی سلامتی کمیٹی کے اجلاس کے بعد وفاقی وزیر اطلاعات مریم اورنگزیب نے پریس کانفرنس کی اور یہ کہا کہ چیف جسٹس متنازع ہوچکے ہیں ‘ لہٰذا اُنہیں مستعفی ہوجانا چاہیے۔ اسی طرح مسلم لیگ (ن) کی رہنما مریم نواز کے ٹوئٹس‘ جن میں چیف جسٹس آف پاکستان پر تنقید کی گئی اور استعفیٰ کا مطالبہ کیا گیا۔ حکومت کی جانب سے اس قسم کی باتیں کی تو جارہی ہیں لیکن عدالتی رموز کو سمجھنے والے تجزیہ کاروں کے مطابق چیف جسٹس نے تمام تر دباؤ کے باوجود وہ فیصلہ دیا اور ایسے میں اگروہ اپنا عہدہ چھوڑتے ہیں تو یہ تصور کیاجائے گا کہ انہیں اپنے فیصلے پر پچھتاوا ہے ‘اس لیے اس بات کے امکانات نہ ہونے کی حد تک کم نظر آتے ہیں۔ اس سارے معاملے میں اہم بات یہ ہے کہ ازخود نوٹس پر اعتراض کرنے والے ججز ایک کے بعد ایک اپنا اختلافی نوٹ جاری کرتے رہے ‘آخر میں اطہر من اللہ نے بھی اختلافی نوٹ جاری کر دیا جس میں ان کا کہنا تھا کہ از خود نوٹس چار تین سے مسترد ہوا اور ازخود نوٹس کی کارروائی نے عدالت کو غیر ضروری سیاسی تنازعات سے دوچار کر دیا ہے۔جسٹس اطہر من اللہ کا یہ بھی کہنا ہے کہ وہ نہ بینچ سے الگ ہوئے نہ ہی اپنے مختصرنوٹ میں انہوں نے ایسی کوئی وجوہات دی ہیں۔ جسٹس اطہر من اللہ کے اس اختلافی نوٹ کے بعد حکومت کو مزید کھل کر کھیلنے کا موقع مل گیا ہے یہی وجہ ہے کہ حکومت چیف جسٹس آف پاکستان پر تنقید کر رہی ہے۔
ملکی حالات اس قدر کشیدہ ہوچکے ہیں کہ ریاستی ستون ہی آپس میں الجھتے دکھائی دے رہے ہیں‘ جس کے باعث ایک نہایت خطرناک کھیل شروع ہوچکا ہے۔ شاید اسی لیے ایمرجنسی لگائے جانے کی باتیں بھی کی جارہی ہیں۔ واقفانِ حال کے مطابق معیشت اور سکیورٹی صورتحال کو بنیاد بنا کر آئین کے آرٹیکل 232 کے تحت ملک میں ایمرجنسی لگائی جا سکتی ہے۔جبکہ حکومتی ناقدین کا کہنا ہے کہ جمعہ کے روز اس لیے قومی سلامتی کمیٹی کا اجلاس بلایا گیااور اس اجلاس کا مقصد حکومت کا عسکری قیادت کیساتھ انتخابات کے حوالے سے تبادلۂ خیال کرنا اور ان کا عندیہ معلوم کرنا تھا۔ قومی سلامتی کے اجلاس میں انتخابات اور ان کے اخراجات پر بھی بات ہوئی اور ظاہر ہے یہ حساب کتاب حکومت کی جانب سے لگائے گئے ہوں گے۔الیکشن میں سکیورٹی دینے کے حوالے سے پاک فوج نے اس لیے معذرت کی تھی کہ دہشتگردی کی لہر کے پیش نظر الیکشن میں سکیورٹی مہیا کرنا ممکن نہیں‘لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ فوج انتخابات نہیں چاہتی۔عسکری اداروں نے صرف اپنی پوزیشن بتائی ہے‘انتخابات تو پی ڈی ایم جماعتوں نے لڑنے ہیں‘ لیکن ظاہر ہے حکومت الیکشن کروانا نہیں چاہتی۔ بظاہر اس حوالے سے ابھی تک طاقتور حلقوں کی جانب سے حکومت پر کوئی دباؤ نظر نہیںآتا کہ وہ انتخابات کروائے‘ یعنی ادارے اس معاملے سے خود کو الگ رکھے ہوئے ہیں۔
قومی اسمبلی سے سپریم کورٹ کے فیصلے کے خلاف قرار داد ہو یا کابینہ کا سپریم کورٹ کے فیصلے کے خلاف کھڑے ہونا‘ یہ اس بات کا پتہ دیتا ہے کہ حکومت اپنے مؤقف سے پیچھے ہٹنے کو تیار نہیں اور نہ ہی کوئی اسے زبردستی اپنے مؤقف سے پیچھے ہٹنے کو کہہ رہا ہے۔ عسکری اداروں کے پاس‘ اگر وہ نیوٹرل نہ ہوں تو‘ دو آپشن ہوسکتے ہیں‘ ایک یہ کہ وہ حکومت کے الیکشن التوا کے فیصلے اور سپریم کورٹ کے فیصلے کو نہ ماننے کے فیصلے کی حمایت کریں‘ دوسری صورت میں وہ حکومت کو اپوزیشن کے ساتھ مل بیٹھ کر مسئلے کا حل نکالنے کا کہیں تاکہ جلد سے جلد الیکشن کی طرف جایا جائے اور ملک کو اس دلدل سے نکالا جائے۔ بظاہر ابھی تک سکیورٹی اداروں کا کردار اس حوالے سے خاموش نظرآتا ہے‘ شاید وہ اپنے آپ کو فاصلے پر رکھ کر سیاستدانوں کی غلطیوں کے بوجھ سے خود کو بچاناچاہتے ہیں۔ کچھ سیاسی حلقوں کے مطابق عمران خان نے اداروں کو تضحیک کا نشانہ بنایا اور اپنے لیے گنجائش کم کی۔ واقفانِ حال یہ بھی کہتے ہیں کہ قومی سلامتی کمیٹی کے اجلاس سے ایک دن پہلے علی امین گنڈا پور کی گرفتاری بھی ایک اشارہ ہے کہ ریاست عمران خان کے کسی مطالبے کو پورا کرنے کو تیار نہیں‘ لیکن حیران کن بات یہ ہے کہ عمران خان حکومت کے ساتھ مذاکرات کرنے کو تیار ہیں‘ بلکہ ان کی جانب سے الیکشن کی مدت میں ترمیم کیلئے لچک دکھانا بھی بعید از قیاس نہیں کیونکہ تحریک انصاف یہ بات اچھی طرح سے جانتی ہے کہ یہ حکومت شاید اکتوبر میں بھی الیکشن کروانے کے موڈ میں نہیں۔ اس لیے تحریک انصاف نے درمیان کا راستہ نکالنے کی کوشش کی ہے تاکہ ملک میں انتخابات ہوں۔ کپتان اور ان کی ٹیم کیلئے سب سے نفع بخش موقع الیکشن ہی ہیں‘ لیکن حکومت انتخابات پر تیار نظر نہیں آتی۔ عمران خان نے ایک لچک اور بھی دکھائی جب اُنہوں نے ابھی اپنے تازہ بیان میں کہا ہے کہ حکومت ہمیں فوج سے لڑانا چاہتی ہے۔ عمران خان کے مؤقف میں تبدیلی اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ عمران خان سمجھ چکے ہیں کہ اگر انہیں نئے الیکشن چاہئیں تو انہیں محاذآرائی کا راستہ چھوڑنا ہو گا‘لیکن عمران خان کا مسئلہ یہ ہے کہ وہ ایک دن بھی اپنی بات پر قائم نہیں رہ سکتے۔ہوسکتا ہے کہ وہ اگلے ہی روز پھر سے اداروں پر تنقید شروع کردیں۔ تحریک انصاف کے رویے میں لچک کی ایک وجہ یہ بھی ہو سکتی ہے کہ تحریک انصاف کو پتہ ہے کہ اس وقت حکومت سپریم کورٹ کے فیصلے کو تسلیم کرنے سے انکاری ہے اور مزاحمت کا راستہ اختیار کئے ہوئے ہے۔ اگر الیکشن کمیشن 11 اپریل کو سپریم کورٹ میں جاکر یہ کہہ دیتا ہے کہ ہمیں 21 ارب روپے وزارت خزانہ نے ٹرانسفر نہیں کیے اور یہ کہہ دیں گے کہ ہمارے پاس وسائل نہیں ہم الیکشن نہیں کرواسکتے تو اس کے بعد سپریم کورٹ کیا کرے گی؟کیا سپریم کورٹ چیف الیکشن کمشنر پر توہین عدالت لگائے گی؟ اس لیے تحریک انصاف کی قیادت کوئی راستہ نکالنا چاہتی ہے کہ کسی طریقے سے 14 مئی کو الیکشن ہوجائے۔ میں سمجھتا ہوں کے سیاسی کشیدگی اپنی حدوں کو پہنچ گئی ہے کہ کوئی بھی اپنا اَنا کا بت توڑنے کو تیار نہیں۔پیپلزپارٹی بھی کہہ چکی ہے کہ وہ انتخابات میں تاخیر کو برداشت نہیں کرے گی یعنی سیاسی تقسیم کا اثر ہمیں حکمران اتحادی جماعتوں میں بھی نظر آرہا ہے۔یہ سب سپریم کورٹ کے فیصلے کے سائیڈ ایفکٹس ہیں۔ تنازعات اور سیاسی تقسیم کی آگ ملک کو لپیٹ میں لئے ہوئے ہے اور اس آگ کو صرف مذاکرات کے پانی سے بجھایا جاسکتا ہے۔
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved