تحریر : عندلیب عباس تاریخ اشاعت     09-04-2023

لازم ہے کہ ہم بھی دیکھیں گے!

ایک ملک‘ دو دنیائیں۔ ایک طرف خوف‘ دہشت‘ تشدد اور دھمکیاں۔ دوسری طرف امید‘ عزم‘ جذبہ اور شوق۔ یہ ایک ملک میں دکھائی دینے والے تضادات ہیں۔ حکمران اپنی طاقت کے نشے میں چور ہیں۔ جن پر حکمرانی کی جارہی ہے یعنی عوام‘ وہ طاقت کے غلط استعمال کو واضح طور پر دیکھ رہے ہیں۔ کچھ کے نزدیک یہ صورتحال ہیجان خیز دکھائی دیتی ہے۔ کچھ سوچتے ہیں کہ یہ بپا ہونے والی شورش کی ابتدائی علامات ہیں۔ جو بھی ہو‘ یہ فیصلہ کن لمحات ہیں جو پہلے کبھی دیکھنے میں نہیں آئے اور یہی وہ لمحات ہیں جو اس ملک کو بنا بھی سکتے ہیں اور بگاڑ بھی۔ ایک طرف عوام کی آواز‘ سرگرمی اور انتخاب کو روکنے کے لیے طاقت کے استعمال کی کوئی انتہا نہیں‘ دوسری طرف عوام شتر مرغ کی طرح ریت میں سر دبانے کے لیے اب تیار نہیں۔ عوامی بیداری کا یہ سماں شاید پہلی مرتبہ دیکھنے میں آرہا ہے ۔
اس سے زیادہ واضح چیز اور کیا ہوگی جتنا وزیر داخلہ کا وہ بیان جس میں انہوں نے کھل کر کہا: ''یا عمران رہے گا یا ہم‘‘۔ رانا ثنا اللہ کا کہنا ہے ''اگر حکمران جماعت نے دیکھا کہ اس کی بقا خطرے میں ہے تو پھر یہ اپنے مرکزی سیاسی حریف کے خلاف ہر حد تک جائے گی اور ایسا کرتے ہوئے قانون اور آئین کی پروا نہیں کی جائے گی‘‘۔ یہ ایک بلند منصب شخص کا کوئی لگی لپٹی رکھے بغیر اعتراف ہے۔ یہ وہ شخص ہے‘ قانون نافذ کرنے والے ادارے جس کے ماتحت ہیں۔ وہ قانون کو مسخ اور جمہوریت کو پامال کرنے میں کوئی مضائقہ نہیں سمجھتے‘ اگر اس کے نتیجے میں عمران خان کو راستے سے ہٹانا ممکن ہو اور اس کی ایک مرتبہ عملی کوشش کی بھی جا چکی۔ جس طرح اس کیس پر بنی جے آئی ٹی کی شہادت کو تباہ کیا گیا‘ اس سے تصدیق ہوتی ہے کہ حکومت جے آئی ٹی کی حاصل کردہ معلومات سے خائف تھی۔ جن افراد نے وہ معلومات ختم کیں‘ انہی کی جے آئی ٹی میں تقرری مجرمانہ ملی بھگت کا ثبوت ہے۔ چنانچہ حدت نقطۂ ابال تک پہنچ چکی۔ بے تابی رنگ بدل رہی ہے لیکن شاید طاقت بھی بے دست و پا ہے‘ کیوں کہ:
1۔ کریک ڈاؤن کی حماقت: جذبہ؟ یہ کیا حماقت ہے۔ ایک ٹھیک ٹھاک پھینٹی لگائیں‘ جذبے کا بھوت اتر جائے گا اور وہ جان بچانے کے لیے بھاگ کھڑے ہوں گے۔ تحریک انصاف کی مزاحمت کچلنے کے آپریشن کے پیچھے یہی سوچ کارفرما ہے۔ رہنماؤں کو گرفتار کرکے انہیں تشدد کا نشانہ بنانا‘ عام کارکنوں اور حامیوں کو پکڑ کر مارنا‘ جیل وین میں گھسیٹ کر ڈالنا اور نامعلوم مقامات پر لے جانا۔ یہ سوشل میڈیا پر دکھائی دینے والے مناظر ہیں جو روز مرہ کا معمول ہیں۔ پھر رات کے وقت گھروں میں زبردستی داخل ہو جانا۔ گیٹ پھلانگنا‘ گھروں میں گھسنا‘ عورتوں‘ بزرگوں‘ ملازموں کو ہراساں کرنا‘ زدوکوب کرنا‘ کچھ لوگوں کوہدف بنا کر تشدد کا نشانہ بنانا۔ حد تو یہ ہے کہ جو کارکن گھر میں نہیں تھا‘ اس کے 7سالہ بیٹے کو اٹھا لیا گیا۔ تماشائیوں‘ فوٹوگرافروں‘ چیئر لیڈرز‘ کوئی بھی یا ہر وہ شخص جو عمران خان کی حمایت کرنے کی جرات کرتا ہے‘ اس کے ساتھ ایک مجرم جیسا سلوک کیا جاتا ہے۔ ہزاروں کو درحقیقت اغوا کر لیا گیا ہے کیونکہ کوئی وارنٹ نہیں‘ کوئی وجہ نہیں‘ کوئی قانون نہیں جو اس طرح لوگوں کو اندھا دھند گرفتار کرنے کی اجازت دیتا ہو۔ اس ساری کارروائی سے کیا حاصل ہوا؟ مقصد لوگوں کو ڈرانا تھا۔ مقصد مزاحمت کو کچلنا تھا۔ نتیجہ بالکل برعکس نکلا۔ اس نے لوگوں کو مزید متحرک کیا‘ انہیں مزید باور کرا دیا کہ حکومت اور اس کے سہولت کاروں کے مقاصد کیا ہیں۔ وہ جذبہ جس کے بارے میں حکومت کا کہنا تھا کہ یہ تھوڑی سے پٹائی کی مار ہے‘ اب ایک منہ زور طوفان بن چکا ہے۔
پکڑ دھکڑ کی حماقت: گھبراہٹ کے عالم میں پی ڈی ایم زبان بندی میں مصروف ہے۔ جلسے جلوسوں پر پابندی سے لے کر چینلوں کی بندش ایک مذاق بن چکی ہے۔ خان کی تحریک کے حوالے سے ایک ایک دن شہر کے لحاظ سے کوریج بند کرنے کی ہدایات بھی دی جا چکی ہیں۔ یہ حکمت عملی کوئی عقلمندی نہیں۔ پہلی بات تو یہ ہے کہ اب ہر شخص سوشل میڈیا کو ترجیح دینے لگا ہے۔ جہاں ٹی وی دستیاب نہیں وہاں بھی پیغام پہنچ رہا ہے۔ زمان پارک میں پانی پت جیسے مناظر اس بات کا ثبوت تھے کہ پولیس کو اپنے تمام وسائل کے باوجود کس طرح پیچھے ہٹنا پڑا۔ جیسے ہی ٹی وی نشریات بند ہوئیں‘ سوشل میڈیا پر ناظرین کی تعداد بڑھ گئی۔ سوشل میڈیا پر آئے روز چلنے والے ٹرینڈز حکمرانوں کو پریشان کر رہے ہیں۔ اس لیے اب پی ٹی آئی کے سوشل میڈیا چلانے والوں کے خلاف شکنجہ کسا جا رہا ہے۔ مختلف شہروں سے انہیں بغیر کسی وارنٹ اور مقدمات کے گرفتار کیا جا رہا ہے۔ یہ سوشل میڈیا پر پابندی کی حکمت عملی ہے۔ یہ مضحکہ خیز ہے۔ کوئی ایک شخص یہ ٹرینڈ نہیں چلاتا۔ ہزاروں افراد ٹرینڈ بناتے ہیں۔ اس کے لیے ٹویٹ اور ری ٹویٹ کرتے ہیں۔ ملک میں جو کچھ ہو رہا ہے‘ اس سے عوام اس قدر تنگ آچکے ہیں کہ ان کے خلاف ٹویٹ کرتے جارہے ہیں۔ اس تمام تر فضا میں حکمران بوکھلائے دکھائی دیتے ہیں۔ پولیس اور الیکشن کمیشن کی جانب سے جو مقدمات بنائے جا رہے ہیں اور جو وجوہات بتائی جا رہی ہیں‘ ان سے حکمرانوں کی نیت‘ دیانت اور اہلیت کے بارے میں منفی تاثر پیدا ہوا ہے۔ پنجاب کے ایک اعلیٰ پولیس افسر نے 8فروری کے اجلاس میں الیکشن نہ کرانے کی وجہ امن و امان کی بگڑتی ہوئی صورت حال بیان کی تھی‘ انہوں نے اپنی رپورٹ میں مختلف واقعات کا حوالہ دیا جس میں ایک دھماکہ بھی شامل تھا جس کے بارے میں انہوں نے دعویٰ کیا تھا کہ یہ 16فروری کو ہوا جبکہ رپورٹ 8فروری کو پیش کی گئی۔ ایسی احمقانہ غلطیوں نے اس جاری پکڑ دھکڑ کو تیسرے درجے کے خوفناک سرکس میں تبدیل کردیا ہے۔
3۔ اندازے کی مہان غلطی: پی ڈی ایم اور اس کے کرتا دھرتوں کے لیے یہ غلطیاں کسی سانحے سے کم نہیں۔ ایسا لگتا ہے کہ کوئی پیش گوئی پوری ہونے جارہی ہے۔ جب آپ کچھ کرنا چاہتے ہیں تو آپ ان تمام معلومات پر یقین رکھتے ہیں جو اس واقعے کی حمایت کرتی ہیں۔ اس غلط فہمی سے کہ عمران خان کی مقبولیت حکومت میں تبدیلی لانے کے لیے کافی ہے‘ یہ سوچ کہ بند کرو‘ مارو‘ تشدد کرو کی حکمت عملی مزاحمت کو دبا دے گی لیکن اس کے نتیجے میں سانحات بڑھتے جارہے ہیں۔ وہ پہلے بھی غلط تھے‘ اب بھی غلط ہیں۔ یہ احساس ان کے سوا ہر کسی کو ہو چکا ہے۔ رانا ثنااللہ کا یہ بیان کہ ''عمران خان رہیں گے یا ہم‘‘ ان کی اس غلط فہمی کا منہ بولتا ثبوت ہے کہ عمران کو مائنس کرنے سے تمام مسائل حل ہو جائیں گے۔ لاہور کے حالیہ جلسے نے ان کی غلطی پر مہر تصدیق ثبت کردی۔ لاہور ہائی کورٹ نے اجازت دے دی لیکن انتظامیہ نے لاہور آنے والی تمام سڑکیں بند کر دیں۔ مینارِ پاکستان کی طرف جانے والی تمام سڑکوں اور داخلی راستوں کو بند کردیا۔ انٹرنیٹ بند کر دیا۔ پھر بھی جلسہ شاندار کامیابی سے ہمکنار ہوا۔ عدلیہ کے بارے میں تازہ ترین اندازے کی غلطی دیکھیں۔ اس خوف سے کہ عدلیہ 90دن کے اندر انتخابات کرانے کے آئینی تقاضے کو برقرار رکھے گی‘ انہوں نے راتوں رات چیف جسٹس کے اختیارات کم کرنے کا بل پاس کر دیا۔ گوکہ صدرِ مملکت ڈاکٹر عارف علوی نے مذکورہ بل اختیارات سے باہر قرار دیتے ہوئے نظرثانی کے لیے واپس پارلیمنٹ کو بھیج دیا ہے لیکن یہ چیف جسٹس صاحب کو دھمکانے اور فیصلے پر اثر انداز ہونے کی ایک اور کوشش تھی۔ یہ ایک غلط اندازہ تھا جس کی قیمت انہیں نہ صرف اب بلکہ مستقبل میں بھی چکانی پڑے گی۔
پی ڈی ایم کی صفوں میں سراسیمگی پھیلی ہوئی ہے۔ رانا ثنا اللہ کے بیانات نے عالمی تجزیہ کاروں کو چونکا دیا لیکن یہ ذہنیت ان کی صفوں میں موجود ہے۔ اس لیے انہیں پی ٹی آئی کے ورکروں کو اٹھانا فضول ہے۔ یہ حرکتیں تو عوام کو مزید مشتعل کردیں گی اور بین الاقوامی سطح پر مذمت ہوگی۔ ارشد شریف اور ظل شاہ کے قتل کا صدمہ ابھی تک موجود ہے۔ جس دوران معیشت تباہی اور بربادی سے دوچار ہے‘ مالیاتی مسائل کے ساتھ جذباتی کرب بھی شامل ہو چکا ہے۔ اس کے نتیجے میں مشتعل جذبات کھول رہے ہیں۔ آنکھیں کھول کردیکھیں۔ ا یک چھ سالہ لڑکا مینارِ پاکستان میں سٹیج پر کھڑے ہوکر عوام سے کہہ رہا تھا کہ وہ کسی صورت دبائو اور جبر کے سامنے سر نہ جھکائیں بلکہ آخری دم تک آزادی کے لیے جدوجہد کریں۔ نئی نسل نے روایتی حکمران اشرافیہ کی قسمت پر مہر ثبت کردی ہے۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved