پاکستان میں سیاسی عدم استحکام عروج پر ہے۔ صدرِ مملکت نے قومی اسمبلی اور سینیٹ سے پاس کیا گیا سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر بل2023ء نظرثانی کے لیے واپس پارلیمنٹ کو بھیج دیا ہے۔ صدرِ مملکت نے یہ بل آئین کے آرٹیکل 75کے تحت پارلیمنٹ کو واپس بھیجا ہے۔ صدرِ مملکت کے مطابق بادی النظر میں یہ بل پارلیمنٹ کے اختیارات سے باہر ہے۔ بل قانونی طور پر مصنوعی اور ناکافی ہونے کی بنا پر عدالت میں چیلنج کیا جا سکتا ہے لہٰذا بل کی درستگی کے بارے میں جانچ پڑتال پوری کرنے اور دوبارہ غور کرنے کیلئے واپس کرنا مناسب ہے۔ اب یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ صدرِ مملکت کی جانب سے بل واپس بھیجنے سے اس کی اہمیت ختم ہو جائے گی یا ایک مخصوص مدت کے بعد یہ خود بخود قانون کا حصہ بن جائے گا۔ قانونی ماہرین کے مطابق اعتراضات کے باوجود بھی ایک مخصوص مدت کے بعد یہ بل خود بخود قانون کا حصہ بن جائے گا۔ دوسری طرف چیف جسٹس آف پاکستان کی برطرفی کے لیے سپریم جوڈیشل کونسل میں درخواست دائر کردی گئی ہے۔ درخواست میں موقف اپنایا گیا ہے کہ چیف جسٹس مس کنڈکٹ کے مرتکب قرار پائے ہیں‘ اس لیے انہیں فوری طور پر عہدے سے برطرف کیا جائے۔ جس کے بعد یہ سوال بھی اٹھایا جا رہا ہے کہ ان اقدامات سے سپریم کورٹ کے پنجاب میں انتخابات کروانے کے فیصلے پر کوئی اثر پڑ سکتا ہے یا نہیں۔ میرے مطابق جسٹس اطہر من اللہ کا تفصیلی فیصلہ سامنے آنے کے بعد انتخابات سے متعلق سپریم کورٹ کے فیصلے میں ابہام پیدا ہوئے ہیں اور انتخابات منعقد کروانا شاید اتنا آسان نہیں رہ گیا جتنا سمجھا جا رہا تھا۔ عدلیہ اور حکومت کے درمیان جاری تنازعات کیا رُخ اختیار کرتے ہیں‘ اس بارے میں کچھ بھی مکمل یقین سے نہیں کہا جا سکتا۔ آئیے اب ایک نظر معیشت پر ڈالتے ہیں۔
آئی ایم ایف ڈیل کے لیے سعودی عرب پاکستان کو 2 ارب ڈالرز دے گا‘ اس کی تصدیق آئی ایم ایف کر چکا ہے تاہم متحدہ عرب امارات سے فنڈنگ کا اب بھی انتظار ہے اور حکومت کی ایک ارب ڈالر کے اضافی ڈیپازٹس پر نظریں مرکوز ہیں۔ آئی ایم ایف نے پاکستانی حکام کو آگاہ کر دیا ہے کہ انہیں سعودی عرب سے دو ارب ڈالرز کے حوالے سے یقین دہانی موصول ہوگئی ہے اور آئی ایم ایف اس یقین دہانی سے مطمئن بھی ہے۔ توقع ہے کہ سعودی حکام اس ضمن میں وزیراعظم شہباز شریف کے دورۂ سعودی عرب کے موقع پر باضابطہ اعلان کریں گے۔ کچھ عرصہ قبل سعودی عرب میں پاکستانی سفیر نے کہا تھا کہ مشکل حالات میں سعودی عرب نے ہمیشہ پاکستان کی مدد کی ہے اور ان شاء اللہ جلد اچھی خبر سامنے آئے گی۔ سعودی عرب سے تو اچھی خبر آ گئی ہے لیکن آئی ایم کی شرائط میں دوست ممالک سے فنڈز کی تصدیق کے علاوہ پٹرولیم مصنوعات اور بجلی پر سبسڈی کو ختم کرنا بھی شامل ہے۔ آئی ایم ایف معاہدے کی بحالی کے لیے سرکار کو سستا پٹرول تجویز ختم کرنا ہوگی جبکہ حکومت نے تاحال اس حوالے سے کوئی باضابطہ حکمت عملی واضح نہیں کی ہے۔ وزارتِ پٹرولیم نے وزیراعظم آفس کے ساتھ مشاورت کے بعد اعلان کیا تھا کہ موٹر سائیکل سواروں اور 800سی سی تک کی کاروں کیلئے فیول سبسڈی دی جائے گی۔ ماضی میں وزیر خزانہ شوکت ترین کے دور میں بھی ایسی سکیموں پر غور کیا گیا تھا حتیٰ کہ سابق وزیر خزانہ مفتاح اسماعیل نے بھی بجٹ میں 48ارب مختص کرکے سستا پٹرول سکیم شروع کرنے کی باتیں کی تھیں لیکن اس پر عمل نہیں ہوا۔ توقع ہے کہ وزیر خزانہ اسحاق ڈار آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک حکام کے ساتھ آئندہ مذاکرات میں یہ سکیم زیر بحث لائیں گے لیکن یہ دیکھنا ابھی باقی ہے کہ پاکستان اور آئی ایم ایف کے درمیان توسیعی پروگرام کے حوالے سے مذاکرات کس طرح آگے بڑھتے ہیں جبکہ یہ توسیعی پروگرام 30جون 2023ء کو ختم ہو رہا ہے۔ امکان ہے کہ پروگرام کو تین سے 6ماہ کیلئے آگے بڑھایا جائے گا۔ وزیر خزانہ اگلے ہفتے میں دورۂ امریکہ کا ارادہ رکھتے تھے جہاں آئی ایم ایف سے ملاقات کے امکانات تھے لیکن فی الحال یہ دورہ ملتوی کر دیا گیا ہے اور وزیر خزانہ کے بجائے سینئر بیوروکریٹ اس دورے پر جا سکتے ہیں‘ جس کا مطلب یہ ہے کہ آئی ایم ایف قسط کی بحالی میں ابھی وقت ہے۔
آئی ایم ایف کے علاوہ ورلڈ بینک بھی پاکستان کے سامنے مزید قرض اور امداد کے لیے کچھ شرائط اور تجاویز رکھ رہا ہے۔ ورلڈ بینک کے مطابق حکومت پاکستان کے لیے
اخراجات کم کرنا وقت کی اہم ضرورت ہے۔ پاکستان 'پائیدار شرح نمو‘ معاشی ریفارمز کے ذریعے ہی حاصل کر سکتا ہے۔ دہری وزارتوں اور محکموں کو برقرار رکھنے کے علاوہ صوبائی نوعیت کے منصوبوں کو وفاق کے تحت وسائل سے مکمل کرنے سے سالانہ 800ارب روپے کا نقصان ہورہا ہے۔ صوبائی نوعیت کے منصوبے پبلک سیکٹر ڈویلپمنٹ پروگرام سے مکمل کیے جارہے ہیں جو وفاقی بجٹ سے مختص ہے۔ ایک اندازے کے مطابق مذکورہ نقصان جی ڈی پی کا ایک فیصد ہے۔ اٹھارہویں آئینی ترمیم کے تحت اختیارات کی صوبوں کو منتقلی کے بعد بھی سالانہ بنیادوں پر نقصانات کا تخمینہ 320ارب روپے لگایا گیا ہے۔ ایچ ای سی کے پروگرام جاری رکھنے سے سالانہ 70ارب اور صوبائی نوعیت کے منصوبے پی ایس ڈی پی کے تحت مکمل کرنے سے سالانہ 315ارب کے نقصانات کا تخمینہ ہے۔ اٹھارہویں آئینی ترمیم کے باوجود اکثر ایسے اخراجات جو صوبائی نوعیت کے ہوتے ہیں‘ وہ بھی وفاق برداشت کرتا ہے۔ کفایت شعاری سے حکومتی سٹاف اور آپریشنل لاگت کم کرنا وقت کی ضرورت ہے۔ اعلیٰ اور درمیانے درجے کی بھرتیاں اور اجرتیں منجمد کی جانی چاہئیں اور نچلی سطح پر ضرورت کے مطابق میانہ روی سے اجرتیں بڑھائی جائیں اور اصلاحات سے پنشن اخراجات کم کیے جائیں۔ یہ تجاویز ملکی معاشی مسائل کو رفتہ رفتہ حل کرنے میں مددگار ثابت ہو سکتی ہیں۔
آئی ایم ایف کو فنانشل گارنٹی دینے کے علاوہ سعودی فنڈ برائے ترقی پاکستان میں بجلی کی فراہمی میں مدد کے لیے مہمند ہائیڈرو الیکٹرک ڈیم پروجیکٹ کو 24کروڑ ڈالر سے زائد مالیت کی معاونت فراہم کرے گا۔ اس حوالے سے سعودی فنڈ برائے ترقی نے مہمند ہائیڈرو الیکٹرک ڈیم منصوبے کی
مالی معاونت کے لیے قرض فراہمی کے معاہدے پر دستخط کیے ہیں۔یہ منصوبہ پاکستان کی توانائی کی ضروریات کو پورا کرنے کیساتھ ساتھ زراعت کے لیے پانی کی فراہمی میں اضافے اور سیلاب کے خطرات کو کم کرنے میں اہم کردار ادا کر سکتا ہے۔ اس منصوبے کے باعث علاقے میں روزگار کے وسیع مواقع بھی پیدا ہو ں ہیں‘ جس سے غربت میں کمی بھی آسکتی ہے جس کی بدولت خطے کی سماجی و اقتصادی ترقی کی راہ ہموار ہونے کے امکانات بڑھ سکتے ہیں۔ سعودی فنڈ برائے ترقی پاکستان کی قابلِ تجدید توانائی پیدا کرنے کی صلاحیت کو بہتر بنانے کا ارادہ رکھتا ہے۔ مہمند ڈیم کی تکمیل سے 800میگا واٹ بجلی پیدا کرنے کے علاوہ تقریباً 6ملین کیوبک میٹر پانی کو ذخیرہ کیا جا سکتا ہے۔ یہ منصوبہ پانی کے ذخیرے اور زرعی اجناس کی پیداوار کو بہتر بنانے اور تقریباً سات ہزار ہیکٹر سے زائد نئی زرعی اراضی کو سیراب کرنے میں معاون ثابت ہو سکتا ہے۔ یہ پراجیکٹ سعودی عرب کی حکومت کی طرف سے سعودی فنڈ برائے ترقی کے ذریعے اپنے آغاز سے لے کر اب تک اہم اور اقتصادی منصوبوں کی مالی معاونت کی توسیع سمجھا جا رہا ہے جس کا مقصد برادر اسلامی جمہوریہ پاکستان کی سماجی اور اقتصادی ترقی کے لیے معاونت فراہم کرنا ہے۔ میں یہاں یہ ذکر کرنا بھی ضروری سمجھتا ہوں کہ سعودی فنڈ برائے ترقی 2019ء سے 2023ء کے درمیان پاکستانی معیشت کی معاونت کے لیے توانائی کے منصوبوں میں پانچ ارب چالیس کروڑ امریکی ڈالر سے زائد کی رقم فراہم کر چکا ہے اور امید ہے کہ یہ تعاون مستقبل میں بھی جاری رہے گا۔ بشرطیکہ کے معاشی اصلاحات درست سمت میں جاری رہیں۔
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved