قومیں بمباری سے تباہ نہیں ہوتیں‘1945ء میں ہیروشیما اور ناگاساکی پر ایٹم بم گرانے والوں کے گمان میں بھی نہ ہوگا کہ بے گوروکفن لاشوں کے انبار سے اٹھنے والی قوم سپر طاقتوں میں سپرہٹ ہو جائے گی۔ جاپانیوں نے تو موت کو بھی مات دے کر وہ زندگی پائی ہے کہ ساری جمع تفریق دھری کی دھری رہ گئی۔ یہ تھیوری روز بروز زور پکڑتی جا رہی ہے کہ قوموں کو بمباری کے بجائے دیمک سے برباد کیا جا سکتا ہے۔ خواص کا ضمیر مار دو اور عوام کی مت مار دو‘نہ شور شرابہ نہ خون خرابہ۔ یہ دیمک غیرتِ قومی سے لیکر اَنا اور خودداری سمیت نجانے کیا کچھ چاٹ جاتی ہے۔ مملکتِ خداداد کو کیس سٹڈی کے طور پر لیا جائے تو اس تھیوری کو برابر تقویت ملتی ہے کہ ہمارے لیے تو بس دیمک ہی بہت ہے۔
ایک طرف ایٹم بم جیسی قیامت کے بعد اٹھنے والے ناقابلِ تسخیرجاپانی‘ دوسری طرف سقوطِ ڈھاکہ جیسے سانحہ کو محض واقعہ سمجھ کر فراموش کردینے والی قوم آج بھی 1971ء کا ایکشن ری پلے چلا رہی ہے۔ جاپانی ایٹم بم کو منہ چڑا رہے ہیں اور ہم زندہ حقیقتوں سے مسلسل منہ چھپا رہے ہیں۔ اقتدار کا چسکا ہو یا ہوسِ زر‘ خواص کا ضمیر مارنے والوں نے کسی کے پلے کچھ نہیں چھوڑا‘ انسانی تاریخ کی دلخراش تقسیم کے نتیجے میں حاصل ہونے والے ملک کا نصف صرف 24سال میں گنوا ڈالا اور بچے کھچے ملک کا جو حشر جاری ہے اس کی دردناک داستان سنانے کے لیے ایسے درجنوں کالم بھی ناکافی ہیں۔ کہیں ادھورے سچ ہیں تو کہیں اپنے اپنے سچ ہیں‘ جھوٹ اور سچ کے اس گورکھ دھندے میں کیسے کیسے تلخ حقائق اور منہ چڑاتی تاریخ کے باوجود کس قدر شاداں اور مطمئن ہیں۔ مملکتِ خداداد کے کرتے دھرتوں نے ضرورت مندوں اور سہولت کاروں کی ایسی کھیپ تیار کر لی ہے جو صرف دیمک سے ہی مطلوبہ نتائج فراہم کرنے کے لیے ہمہ وقت تیار رہتے ہیں۔ پتھر کے زمانے میں پہنچانے کی دھمکیاں ہوں یا ڈو مور کے مطالبے ہر دور میں سبھی مطالبے پورے اور احکامات برابر بجا لائے جاتے رہے ہیں۔
ویسے بھی شوقِ حکمرانی کے ماروں کو اقتدار کی ایسی لت پڑ چکی ہے کہ باپ کی جگہ بیٹا اور دادا کی جگہ پوتا ملک و قوم سے اپنا خراج وصول کیے چلا جا رہا ہے۔ نسل در نسل لوٹنے اور برباد کرنے والے ماضی اور حال کے بعد اب مستقبل برباد کرنے کے درپے ہیں۔ پون صدی بیت چکی ہے اقلیت اکثریت کو غلام بنائے وہ مینڈیٹ انجوائے کر رہی ہے جو اکثریت نے اسے کبھی دیا ہی نہیں۔ نہ سمت کا تعین کیا ہے نہ منزل کا پتا‘ من مانی ہی طرزِ حکمرانی بن جائے تو آئین میں پیوند اور قوانین میں نقب کیسے نہ لگیں؟دوسری طرف عوام شخصیت پرستی کی مہلک بیماری میں اس طرح گِھر چکے ہیں کہ کہیں اپنے اپنے بت کی پرستش جاری ہے تو کہیں طواف‘ عوام اپنے محبوب قائدین کی نیت اور ارادوں سے بے خبر ہیں تو کہیں سب کچھ جانتے بوجھتے اندھی تقلید میں اس قدر اندھے ہو چکے ہیں کہ انہیں کچھ سجھائی نہیں دے رہا کہ رہبر کون ہے‘ راہزن کون۔ آزمائے ہوؤں کو پھر آزمانے جا رہے ہیں‘ لٹیروں کے ہاتھوں پھر لٹنے جا رہے ہیں‘ سیاست کو تجارت بنانے والے پھر منڈی لگائے ہوئے ہیں۔ خواب فروش تعبیر سے محروم سہانے خواب دکھانے پھر آگئے ہیں‘ دھوکا منڈی لگ چکی ہے‘ جھانسوں اور دھوکوں کے سودے سجائے جا چکے ہیں۔ صفر کارکردگی اور نامعلوم اہلیت کے باوجود ایک بار پھر ووٹ کے طلبگار ہیں۔ عوام ہر بار کی طرح لٹنے‘ مٹنے اور برباد ہونے کو پھر تیار ہیں۔ یوں لگتا ہے کہ عوام کو ان سے ڈسے جانے کی لت پڑ چکی ہے۔ ایسے میں چند دعائیہ سطریں (جو پہلے بھی کسی کالم میں پیش کر چکا ہوں) اس لیے دہرا رہا ہوں کہ یہ کل بھی حسب ِحال تھیں اور آئندہ بھی حسب ِحال رہیں گی۔
اے ربِ کائنات!
عادل بھی تو ہے
اور بلاتاخیر عدل بھی تو تجھ سے ہی منسوب ہے
تیری اس صفت کا اطلاق وقت کی اہم ضرورت بن چکا ہے
احتساب تو سزا اور جزا کے عمل کا نام ہے
اس عمل کو بھی انہوں نے آلودہ کرڈالا ہے
اپنی نیتوں سے‘ اپنے ارادوں سے
صاف نظر آتا ہے
یہ کیا کرسکتے ہیں
عوام کو بدحالی کے ابھی کتنے گڑھوں میں گرنا ہے؟
ذلت‘ دھتکار اور پھٹکار کے کتنے دور ابھی باقی ہیں؟
میرے مالک! یہ تو ہی بہتر جانتا ہے
ان کی نیتِ بد سے شروع ہونے والا کارِبد
کہاں ختم ہوگا...کب ختم ہوگا؟
کیا عوام کو اس طرزِ حکمرانی
اس گلے سڑے اور فرسودہ نظام سے
کبھی نجات مل بھی پائے گی؟
ضمانتوں پررہا‘ سرکاری وسائل پر موجیں مارتے حکمران
کیا ان سے رہائی مل سکے گی؟
کیا یہ عوام بھی کبھی ضمانت حاصل کر پائیں گے؟
اے ربِ کعبہ!
عوام کی سیاہ بختی کو خوش بختی میں بدل دے
عوام کو ان کے چنگل سے رہائی دلوا دے
تیرے خزانے میں کیا کمی ہے؟
تازہ ترین منظرنامہ بھی ماضی کے ادوار کا تسلسل لگتا ہے۔ ماضی کا آسیب آج بھی حال کو بُری طرح جکڑے ہوئے ہے۔ عدالتِ عظمیٰ کے فیصلے کے خلاف قومی اسمبلی میں قرار داد منظور ہو چکی ہے‘ چیف جسٹس عمر عطا بندیال کو آج انہی حالات کا سامنا ہے جیسا 26 سال پہلے چیف جسٹس سجاد علی شاہ کو تھا۔ سپریم کورٹ بھی وہی ہے‘ شریف برادران اور ان کے حواری بھی وہی ہیں لیکن لشکر کشی کے بجائے اس بار ایوان میں قرارداد سمیت زبان سے شعلے اور کردار کشی کی جارہی ہے۔ وجۂ تنازع تختِ پنجاب کے انتخابات ہیں‘ خدا خیر کرے میرے آشیانے کی‘ہم تو اس خوف سے غیر جانبدار انتخابات کی دعا بھی نہیں مانگتے کہ مملکتِ خداداد کے واحد شفاف انتخابات کے نتیجے میں ملک دولخت ہو گیا تھا۔ شاید اسی ڈر سے ہنرمندانِ ریاست و سیاست نے شفاف اور غیر جانبدار انتخابات کا خیال ہی دل سے نکال دیا ہے۔
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved