بیسویں پارے کے شروع میں اللہ تعالیٰ استفہامی انداز میں اپنی جلالت و قدرت کو بیان کرتے ہوئے فرماتا ہے کہ آسمانوں اور زمینوں کو کس نے پیدا کیا‘ آسمان سے بارش برسا کر بارونق باغات کس نے اگائے‘ زمین کو کس نے مقامِ قرار بنایا اور اس کے بیچ دریا جاری کیے اور لنگر کی صورت میں مضبوط پہاڑ گاڑ دیے‘ مبتلائے مصیبت کی فریاد کوکون سنتا ہے اور اس کے دکھوں کا مداوا کون کرتا ہے‘ خشکی اور سمندر کی ظلمتوں میں راہ کون دکھاتا ہے‘ بارش کی نوید بنا کر ٹھنڈی ہوائیں کون چلاتا ہے‘ ابتداً مخلوق کو کون پیدا کرتا ہے اور دوبارہ کون زندہ کرے گا‘ زمین و آسمان کی مخلوق کو روزی کون دیتا ہے؟ یہ سارے سوالات اٹھانے کے بعد اللہ عزوجل انسان کی عقلِ سلیم سے سوال کرتا ہے کہ کیا اللہ معبودِ برحق کے سوا یہ سب کام کرنے والا کوئی اور ہے اور اس سوال کو قرآن بار بار دہراتا ہے تاکہ عقل کے اندھے انسانوں کا ضمیر جاگ اٹھے اور وہ حق تبارک و تعالیٰ کی جلالتِ قدرت کو تسلیم کر لیں۔ اس مقام پر بھی قرآنِ مجید فرماتا ہے کہ اے انسان! زمین پر چل پھر کر دیکھ لو باغی قومیں کس انجام سے دوچار ہوئیں۔ یہ بھی فرمایا کہ آسمانوں اور زمینوں میں جو کچھ بھی مستور ہے‘ سب لوحِ محفوظ میں لکھا ہوا ہے۔ آیت 80 میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا ''بے شک آپ مُردوں کو نہیں سناتے اور نہ ہی بہروں کو (اپنی) پکار سناتے ہیں‘ جب وہ پیٹھ پھیر کر جا رہے ہوں‘‘۔
سورۃ القصص: سورۃ القصص کے شروع میں ایک بار پھر موسیٰ علیہ السلام اور فرعون کا ذکر ہے‘ یہاں اس مرحلے کا بیان ہے کہ جب موسیٰ علیہ السلام اللہ کی تدبیر سے فرعون کے دربار میں پہنچے۔ فرعون نے اپنی زوجہ (آسیہ) کے کہنے پر انہیں اپنا بیٹا بنا لیا اور اپنی غیر محسوس تدبیر کے ذریعے انہیں ان کی والدہ سے ملا دیا۔ خدا کی شان موسیٰ علیہ السلام فرعون کے محل میں اپنی والدہ کے دودھ پر پرورش پانے لگے‘ پھرجب وہ جوانی کی عمر کو پہنچے تو ایک مظلوم کے بچاؤ کیلئے اُنہوں نے ظالم کو مکا مارا اور وہ ہلاک ہو گیا۔ موسیٰ علیہ السلام نے اس قتلِ سہو پر اللہ سے معافی مانگی تو اللہ تعالیٰ نے انہیں معاف کر دیا۔ آیت20 میں بتایا کہ شہر کے دور والے کنارے سے ایک شخص دوڑتا ہوا آیا اور اُس نے کہا ''فرعون کے لوگ آپ کے قتل کا مشورہ کر رہے ہیں‘ میں آپ کا خیرخواہ ہوں‘ آپ یہاں سے نکل جائیے‘‘۔ موسیٰ علیہ السلام وہاں سے مَدین کی طرف روانہ ہو گئے اور اللہ کی حکمت سے مدین بستی کے پیغمبر حضرت شعیب علیہ السلام تک رسائی ہوئی۔ شعیب علیہ السلام نے موسیٰ علیہ السلام سے کہا: میں اپنی دو بیٹیوں میں سے ایک کا آپ کے ساتھ اس شرط پر نکاح کردوں گا کہ آپ آٹھ سال تک اجرت پر میرا کام کریں اور اگر آپ دس سال پورے کر دیں تو یہ آپ کی طرف سے احسان ہو گا۔ موسیٰ علیہ السلام نے یہ پیشکش قبول کر لی۔ آیت 29 میں فرمایا کہ جب مقررہ میعاد پوری ہو گئی تو موسیٰ علیہ السلام اپنی اہلیہ کو لے کر مصرکی طرف روانہ ہوئے۔ اس سفر کے دوران آگ کی تلاش میں اُن کے کوہِ طور پر جانے‘ مبارک سرزمین پر اللہ تعالیٰ سے ہمکلام ہونے کا ذکر ہے۔ وہاں آپ علیہ السلام کو نبوت عطا ہوئی‘ عصا اور یَدِ بیضا کے معجزے عطا ہوئے اور ہارون علیہ السلام کو رسالت کے مشن میں ان کی درخواست پر ان کا مددگار بنایا گیا۔ آیت 38 سے اللہ تعالیٰ نے اُن سے اپنی نصرت کا وعدہ فرمایا۔ آیت57 سے کفارِ مکہ نے رسول اللہﷺ سے کہا: ''اگر ہم آپ کے ساتھ ہدایت کی پیروی کریں تو ہم اپنے ملک سے اُچک لیے جائیں گے‘‘ یعنی وہ فوائد سے محروم ہو جائیں گے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ''کیا ہم نے ان کو اپنے حرم میں آباد نہیں کیا‘ جو امن والا ہے‘ اُس کی طرف ہمارے دیے ہوئے ہر قسم کے پھل لائے جاتے ہیں‘ لیکن ان میں سے (اکثر لوگ) نہیں جانتے‘ یعنی اسلام کی برکت سے دنیاوی نعمتیں چھن نہیں جائیں گی بلکہ ان میں اضافہ ہو گا۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ہم نے بہت سی ان بستیوں کو ہلاک کر دیا‘ جن کے رہنے والے اپنی خوشحالی پر اتراتے تھے‘ یعنی ماضی کی خوشحال سرکش قوموں کے کھنڈرات نشانِ عبرت ہیں۔ ان آیات میں یہ بھی بتایا گیا کہ بستیوں والوں کو اُس وقت تک ہلاک نہیں کیا جاتا جب تک کہ رسول بھیج کر اُن پر اتمامِ حجت نہیں کر دیا جاتا۔ آیت 76 سے قارون کا ذکر ہے یہ قومِ موسیٰ کا ایک سرکش شخص تھا اور اللہ تعالیٰ نے اپنی حکمت سے اُسے اتنے خزانے عطا کیے تھے کہ ایک طاقتور جماعت تھی‘ جو اُس کی چابیوں کو اٹھا نہ پاتی۔ اُس کی قوم نے اُس سے کہا ''اتراؤ نہیں‘ بے شک اللہ تعالیٰ اترانے والوں کو پسند نہیں فرماتا‘‘۔ اس نعمتِ دولت کے بدلے میں آخرت کو تلاش کرو اور جس طرح اللہ نے تم پر احسان کیا ہے‘ تم بھی لوگوں کے ساتھ احسان کرو اور زمین میں فساد برپا نہ کرو‘ یعنی مال کو اللہ کی راہ میں خرچ کرو۔ اُس نے کہا: یہ مال مجھے میرے علم کی وجہ سے دیا گیا ہے‘ یعنی اُس نے اللہ کا شکر ادا کرنے کے بجائے اپنے علم اور مہارت پر ناز کیا۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: اس سے پہلی قوموں میں اس سے بھی زیادہ طاقتور اور بڑے مالداروں کو ہلاک کر دیا گیا۔ آیت21 میںفرمایا: (اُس کی سرکشی کی سزا کے طور پر) ہم نے اُسے اور اُس کے گھر کو زمین میں دھنسا دیا تھا‘ پھر اللہ کے مقابل اُس کا کوئی مددگار نہ تھا۔ قرآن نے بتایا کہ اُس کے کَرّوفر کو دیکھ کر جو لوگ اُس جیسا دولت مند ہونے کی تمنا کر رہے تھے‘ اُس کے انجام کو دیکھ کر انہوں نے کہا کہ: ہم بھول گئے تھے کہ اللہ اپنے بندوں میں سے جس کیلئے چاہتا ہے رزق کشادہ کرتا ہے اور جس کیلئے چاہتا ہے تنگ فرما دیتا ہے (یعنی کوئی یہ نہ سمجھے کہ دولت و طاقتِ دنیا ہرصورت میں اللہ تعالیٰ کے ہاں مقبولیت کی دلیل ہے)۔ اُنہوں نے کہا: (اُس جیسی دولت کا نہ ہونا ہمارے حق میں اچھا ثابت ہوا) اگر اللہ ہم پر احسان نہ فرماتا تو ہم بھی دھنسا دیے جاتے۔ آیت 83 میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا ''یہ آخرت کا گھر ہم اُن کے لیے مقدر کرتے ہیں‘ جو زمین میں نہ تو تکبر کرتے ہیں اور نہ ہی فساد‘ اچھا انجام صرف پرہیز گاروں کے لیے ہوتا ہے‘‘۔ اگلی آیت کا مفہوم ہے کہ ہر ایک اپنے اچھے یا برے اعمال کی جزا یا سزا پائے گا۔
سورۃ العنکبوت: اس سورت کے شروع میں قرآنِ مجید نے متوجہ کیا کہ قطعی نجات کیلئے صرف ایمان کا دعویٰ کافی نہیں ہے بلکہ آزمائش بھی ہو سکتی ہے‘ جیسا کہ پچھلی امتوں کے لوگوں کو کڑی آزمائش سے گزرنا پڑا اور ابتلا سے گزرنے کے بعد ہی سچے مومن اور جھوٹے کا فرق واضح ہوتا ہے۔ آیت 8 میں اللہ تعالیٰ نے حکم فرمایا کہ اپنے ماں باپ کے ساتھ نیک سلوک کرو‘ اور اگر وہ تمہیں شرک پر مائل کرنا چاہیں تو گناہ کے کاموں میں ماں باپ کی اطاعت واجب نہیں ہے۔ حدیث میں بھی ہے کہ کسی بھی ایسے مسئلے میں مخلوق (خواہ وہ کوئی بھی ہو) کی اطاعت لازم نہیں ہے‘ جس میں اللہ تعالیٰ کی نافرمانی لازم آتی ہو۔ آیت 14 سے ایک بار پھر حضرت نوح علیہ السلام کی ساڑھے نو سو سالہ تبلیغی زندگی اور اُن کی قوم پر عذاب کا ذکر ہوا۔ آیت 16سے حضرت ابراہیم علیہ السلام اور ان کی قوم کا ذکر ہے۔ ابراہیم علیہ السلام نے قوم کو متوجہ کیا کہ اللہ کو چھوڑکر بے بس بتوں کی عبادت نہ کرو‘ صرف اللہ وحدہٗ لاشریک کی عبادت کرو۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام کی دعوت کو سن کر قوم نے کہا: اسے قتل کر دو یا جلا ڈالو‘ تو اللہ نے اُنہیں آگ سے بچا لیا۔ آیت 26 سے حضرت لوط‘ حضرت اسحاق اور حضرت یعقوب علیہما السلام کا ذکر ہے کہ ہم نے انہیں نبوت اور کتاب عطا کی۔ لوط علیہ السلام کی قوم کی انتہائی سرکشی کا ذکرہے کہ وہ غیر فطری طریق سے اپنی جنسی خواہش کو پورا کرتے اور ڈاکے ڈالتے اور انتہا یہ ہے کہ کھلے بندوں بے حیائی کے کام کرتے تھے اور لوط علیہ السلام سے نزولِ عذاب کا مطالبہ کرتے تھے یعنی یہ اُن کی سرکشی کی انتہا تھی۔ اِن آیات میں بتایا کہ بالآخر اللہ تعالیٰ نے لوط علیہ السلام اور اُن کے اہل کو بچا لیا اور قوم کے ساتھ قوم کی برائیوں کو پسند کرنے والی ان کی بیوی سمیت ساری بستی کو ہلاک کر دیا۔ پھر مدین کی سرزمین پر حضرت شعیب علیہ السلام کی قوم کی سرکشی کا ذکر ہوا‘ اللہ تعالیٰ نے نبی کی تکذیب کے جرم میں ان کو بھی تباہ و برباد کر دیا۔ قرآن مجید نے اہلِ مکہ کو مخاطب کرکے بیان کیا: تم اپنے تجارتی سفر کے دوران شیطان کے بہکاوے میں آنے والے عاد و ثمود کی بستیوں سے بخوبی آگاہ ہو چکے ہو‘ یہ لوگ سمجھدار ہونے کے باوجود شیطان کے نرغے میں آکر راہِ راست سے ہٹ گئے۔ آیت 41 میں فرمایا کہ جو لوگ اللہ کو چھوڑ کر باطل معبودوں کو اپنا مددگار بناتے ہیں‘ اُن کے عقائد کے بودے پن کی مثال مکڑی کے جالے جیسی ہے اور سب سے کمزور گھر مکڑی کا گھر ہے۔ آخر میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ ہم حق کو ثابت کرنے کیلئے لوگوں کیلئے مثالیں بیان کرتے ہیں‘ لیکن صرف اہلِ عقل و خرد ہی اِن سے نصیحت حاصل کرتے ہیں۔
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved