تقریباً دو تہائی رمضان المبارک گزر چکا !
کیا مناسب نہ ہو گا کہ ہم میں سے ہر شخص‘ کچھ دیر کے لیے‘ عمران خان‘ شہبازشریف اور ججوں سے توجہ ہٹا کر اپنے اوپر مرکوز کرے۔ عمران خان‘ شہباز شریف اور ججوں نے اپنے کیے کا یقینا حساب دینا ہے مگر ہم یہ بھول جاتے ہیں کہ حساب ہم میں سے ہر ایک کو دینا ہے۔ یہ جو ریاضت ہم کر رہے ہیں‘ یہ جو پندرہ گھنٹوں کی بھوک پیاس برداشت کر رہے ہیں‘کیا اس کا کچھ حاصل حصول بھی ہے؟ یا یہ محض ہمارا زعم ہے کہ ہم روزہ دار ہیں! کہیں ایسا تو نہیں کہ ہم سوت کات کر اسے خود ہی ٹکڑے ٹکڑے کر رہے ہیں! یہ جو افطار پر انواع و اقسام کے مشروبات اور ماکولات کے ڈھیر ہمارے سامنے لگ جاتے ہیں ‘ کیا روزے کا حاصل یہی کچھ ہے؟ یہ جو چار چار‘ پانچ پانچ ہزار فی کس کے افطار ڈنرکلبوں اور ہوٹلوں میں کھائے جا رہے ہیں‘ کیا دن بھر کی برداشت اسی کے لیے تھی؟ درست کہ یہ سب حلال طعام ہے مگر کیا یہ روا بھی ہے ؟ کیا یہ مبنی بر انصاف بھی ہے؟ کہیں یہ اسراف تو نہیں؟ اور ذرا دل پر ہاتھ رکھ کر سوچیے کہ ایک بھرپور افطار کے بعد کیا ڈنر کی ضرورت ہے؟ کیا آپ نے اپنے گھر برتن مانجھنے والی کے بچوں کو عید کی تیاری کے لیے کچھ دیا ہے؟ کیا آپ جب اپنے بچوں‘ پوتوں اور نواسیوں کے لیے عید کے ملبوسات خرید رہے تھے تو کیا اپنے ملازم‘ اپنی گلی کے چوکیدار‘ اپنے مفلس پڑوسی‘ اپنے راستے میں چھلیاں بیچنے والے بوڑھے اور آپ جس بینک میں جاتے ہیں اس کے گارڈ کے بارے میں بھی سوچ رہے تھے؟آپ سے عمران اور شہباز کے اعمال کے بارے میں تو یقینا نہیں پوچھا جائے گا مگر ان سب مستحقین کے بارے میں ضرور پوچھا جائے گا۔ اگر آپ یہ سمجھ رہے ہیں کہ ایک مرغن اور بھرپور سحری کے بعد دن بھر کا روزہ رکھ کر‘ اور تین آدمیوں کی خوراک افطار میں کھا کر‘ اور تراویح کے دوران خلل ڈالنے والے ڈکاروں کے بعد آپ اپنے فرض سے سبکدوش ہو چکے ہیں تو آپ احمقوں کی جنت میں بس رہے ہیں! اگر اسلام صرف یہی کچھ ہوتا تو سیدنا علی مرتضیٰ کرم اللہ وجہ عید کے دن جَو کی روٹی نہ کھاتے! اور اقبال اس جَو کی روٹی کو نہ یاد کرتے:
کہ جہاں میں نان شعیر پر ہے مدارِ قوّتِ حیدری
بیس روزے گزر چکے! کیا اس دوران آپ نے صلہ رحمی کا حق ادا کیا؟ اپنے ناراض اقربا کو راضی کیا؟ یا آپ اس گھمنڈ میں ہیں کہ میں کیوں معافی مانگوں؟ میری تو غلطی ہی نہیں تھی! اگر آپ کی غلطی نہیں بھی تھی ‘ اگر زیادتی آپ کے رشتہ داروں کی بھی تھی تو آپ نے اپنا فرض کیوں نہ ادا کیا؟ آپ نے جا کر انہیں یہ کیوں نہ کہا کہ زندگی کا کچھ بھروسا نہیں! اس لیے آئیے ‘ قطع تعلقی اور قطع کلامی کو ‘ اللہ اور رسول کی رضا کی خاطر ختم کرتے ہیں! کیا آپ نے اپنے ماں باپ کی ضروریات کو پورا کیا ہے؟ ان کا میڈیکل چیک اَپ؟ ان کی ادویات ؟ ان کا لباس؟ ان کا بستر ؟ انہیں وقت کتنا دیتے ہیں ؟ اگر ان سے آپ غافل ہیں تو اس بھوک اور اس پیاس کا آپ کو رمق بھر بھی فائدہ نہیں! آپ سوت کات کر اسے ٹکڑے ٹکڑے کر رہے ہیں!
کیا آپ کا رزق ‘ رزقِ حلال ہے؟ آپ اپنے کام پر کس وقت جاتے ہیں؟ آپ کا اپنے آجر کے ساتھ‘ نجی شعبہ ہے یا حکومت ‘ ایک معاہدہ ہوا ہے جس کی رُو سے آپ کے اوقاتِ کار متعین ہیں! آپ اپنی طرف سے انہیں تبدیل نہیں کر سکتے! اگر آپ ایک گھنٹہ‘ یا دو گھنٹے‘ تاخیر سے پہنچتے ہیں اور وقت سے پہلے اُٹھ آتے ہیں تو آپ اپنے رزق کو مشکوک اور اپنے معاملات کو مخدوش کر رہے ہیں؟ اگر سائل منتظر ہیں اور آپ نماز کو طول دے رہے ہیں تو یہ رویّہ بہت خطرناک ہے! آپ کے لیے خطر ناک ہے ! سائلین کے لیے نہیں!! آپ روزے کی حالت میں دروغ گوئی سے اجتناب کر رہے ہیں؟ یا وہی ''دے مار ساڑھے چار ‘‘ والا جھوٹ کا طومار ہے؟ کہیں آپ کا پڑوسی آپ کی وجہ سے کرب میں تو نہیں؟ کہیں آپ نے کسی کی زمین ‘ کسی کی جائیداد‘ کسی کے کھیت‘ کسی کی دکان پر قبضہ تو نہیں کر رکھا؟ اگر ایسا ہے تو فوراً سے پیشتر اپنے آپ کو اس زیاں کار‘ پوزیشن سے ہٹا لیں! کہیں گاڑی یا مکان فروخت کرتے وقت آپ کوئی نقص چھپا تو نہیں رہے؟ اگر آپ کو کسی بد بخت نے یہ مشورہ دیا ہے کہ فلاں مستری سے گاڑی کا میٹر پیچھے کروا لو تو اس نے آپ کو آگ میں دھکیلنے کی منحوس کوشش کی ہے! اس کی باتوں میں نہ آئیے۔ خریدنے والے کو خوبیوں کے ساتھ خامیاں بھی بتائیے۔ مکان کی دیواروں میں جو کریک پڑے ہوئے ہیں‘ انہیں صرف فروخت کرنے کی خاطر عارضی طور پر چھپایا ہے یا بنیاد یا چھت میں جو نقائص ہیں وہ مشتری کے علم میں نہیں لا رہے اور آپ روزے سے بھی ہیں تو آپ احمق ہیں! اگر آپ تاجر ہیں تو بہت بڑے امتحان میں ہیں ! آپ کم تول رہے ہیں یا شے کا نقص چھپا رہے ہیں تو اپنے پاؤں پر کلہاڑی مار رہے ہیں! اگر آپ نے دکان کے سامنے فٹ پاتھ پر یا سڑک کے ایک حصے پر قبضہ کیا ہوا ہے تو افطار سے پہلے ہی یہ قبضہ ختم کر دیجیے۔ کسی گاہک سے وعدہ کیا ہوا ہے مال پہنچانے کا یا کوئی ملبوس تیار کرنے کا تو اس وعدے کو ہلکا نہ لیجیے۔ یہ ایک خطرناک معاملہ ہے۔ وعدے کو پورا کیجیے!
افسوس! ہم دوسرے کے مکھن میں بال تلاش کرتے ہیں مگر اپنی آنکھ میں پڑے اُس بال کو نہیں دیکھتے جو کسی ایسے جانور کا ہے جس کا نام لینا بھی معیوب سمجھا جاتا ہے! ہم یہ چاہتے ہیں کہ ہم دوسروں کی اصلاح کریں مگر اس زعم میں بھی ہیں کہ ہم خود دوسروں سے بہتر ہیں! ہمیں کسی اصلاح‘ کسی تبدیلی‘ کسی سرزنش‘ کسی جھٹکے‘ کسی تنبیہ ‘ کسی وارننگ کی ضرورت نہیں ! کچھ لوگ ''کلر بلائنڈ ‘‘ ( کور رنگ) ہوتے ہیں۔ انہیں رنگ نہیں نظر آتے! ہمیں اپنی غلطیاں اور اپنے گناہ نہیں نظر آتے! میں بھی اس مرض کا شکار ہوں اور آپ بھی! ہمیں علاج کی ضرورت ہے! اور علاج ایک ہی ہے! اپنی اَنا کو لگام دے کر‘ اپنی غلطیوں کا اعتراف !
روزہ صرف سحری‘ افطار اور تراویح کا نام نہیں ہے ! معاملہ اتنا ہی سادہ ہوتا تو یہ نہ فرمایا جاتا کہ روزہ میرے لیے ہے اور میں ہی اس کا اجر دوں گا! یہ پیٹ کا معاملہ نہیں‘ یہ دل اور دماغ کا مسئلہ ہے! اور وہ قصہ تو آپ نے سنا ہی ہو گا کہ کسی مغربی ملک کے غیر مسلم باشندے نے‘ کسی مسلمان سے پوچھا کہ روزہ کیا ہے ؟ مسلمان نے تفصیل سے بتایا کہ سحری کیا ہے اور افطار و تراویح کیا ہے۔ ساتھ ہی یہ بھی وضاحت کی کہ روزے کی حالت میں مسلمان جھوٹ نہیں بولتا‘ عہد شکنی نہیں کرتا! دھوکا نہیں دیتا! ماپ تول میں کمی نہیں کرتا! اپنے فرائض نیک نیتی اور دیانت داری سے ادا کرتا ہے! وقت کی پابندی کرتا ہے۔ کسی کو تکلیف نہیں دیتا۔ وہ شخص ہنسا۔ کہنے لگا آپ مسلمان تو فائدے میں رہے! صرف ایک مہینہ !! ہم تو یہ سب کچھ سارا سال کرتے ہیں!! صائب سے منسوب شعر ایک بار پھر یاد آگیا؛
سبحہ بر کف‘ توبہ بر لب‘ دل پُر از شوقِ گناہ
معصیت را خندہ می آید ز استغفار ما
ہاتھ میں تسبیح ہے‘ زبان پر توبہ مگر دل میں گناہ کا شوق انگڑائیاں لے رہا ہے! ہمارے استغفار پر خود گناہوں کو ہنسی آرہی ہے!
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved