''تاریخ کے پیغمبر پر تو سب ہی ایمان لے آتے ہیں‘ اصل آزمائش وقت کے پیغمبر پر ایمان لانا ہے‘‘۔
مد ت ہو گئی جب پہلی بار استاذِ گرامی جاوید احمد صاحب غامدی سے یہ بات سنی۔ حالات شب و روز اس کی تذکیر کرتے ہیں۔ واقعہ یہ ہے کہ تاریخ جب کسی نبی کی صداقت پر مہرِ تصدیق ثبت کر دے‘ اس کے بعد ایمان لانا کوئی کمال نہیں۔ نبوت ایک سچائی ہے۔ دیگر صداقتوں کا معاملہ بھی یہی ہے۔ ایک سچائی یا حکمت کی کوئی بات کسی لمحے آپ کے دروازے پر دستک دیتی ہے اور اس کو خوش آمدید کہنے کے بجائے آپ اپنے کواڑ بند رکھتے ہیں۔ مدتوں بعد جب زمانہ اس سچائی کو قبول کر لیتا ہے تو آپ بھی مان لیتے ہیں۔ اسے بصیرت نہیں‘ تاریخ کا جبر کہتے ہیں۔ تاریخی صداقتوں کے سامنے سب کا سر نگوں ہوتا ہے کہ اس کے بغیر کوئی چارہ نہیں ہوتا۔ کمال تو یہ ہے کہ آپ ایک سچائی کو اس وقت پہچان لیں جب وہ آپ کی دہلیز تک چل کر آئی تھی۔
تاریخ کا جبر کیا ہے؟ وقت کسی حقیقت کو اس طرح مشہود کر دے کہ اس کا انکار عقلاً محال ہو جائے۔ اس کا سچ ہونا آپ کے انکار یا اقرار سے بے نیاز ہو جائے۔ چند دن پہلے مسلم لیگ (ن) کے صدر شہباز شریف صاحب نے ملک کے سب سے محترم ایوان میں ذوالفقار علی بھٹو کی پھانسی کو عدالتی قتل قرار دیا۔ ان کی موت کو شہادت کہا۔ چوالیس سال بعد ایک سچائی کا اعتراف تاریخ کے اسی جبر کا بیان ہے۔
جب جنرل ضیاالحق صاحب نے بھٹو صاحب کو تختہ دار پر لٹکانے کا فیصلہ کیا تو وہ جانتے تھے کہ اتنا بڑا قدم اہلِ سیاست اور اہلِ صحافت کی تائید کے بغیرنہیں اٹھایا جا سکتا۔ ان دونوں طبقات میں ایسے لوگ کم نہیں تھے جو بھٹو صاحب کے ستم رسیدہ تھے۔ ان کے دلوں میں ان کے لیے کوئی جگہ نہیں تھی۔ ضیا الحق صاحب کو ان کی اعلانیہ یا خاموش تائید میسر آ گئی۔ قومی اتحاد کی سب جماعتوں نے اس معاملے میں ان کا ساتھ دینے کا فیصلہ کیا۔ یوں ضیا الحق صاحب یہ اقدام کر گزرے۔
کسی قابلِ ذکر سیاسی جماعت نے اس پر کوئی احتجاج نہیں کیا۔ کسی نے مٹھائی بانٹی اور کسی نے اسے عبرت کا واقعہ قرار دیا۔ حکومت نے بھٹو صاحب کی بیوی اور بیٹی کو ان کی تدفین میں شریک نہ ہونے دیا۔ رات کی تاریکی میں انہیں گڑھی خدا بخش کے قبرستان میں دفن کر دیا گیا۔ انسانی حقوق کی اس برہنہ پامالی پر کوئی صدائے احتجاج بلند نہ ہوئی۔ اہلِ سیاست و صحافت نے خاموش رہ کر ایک ڈکٹیٹر کو اپنی تائید سے نوازا۔
عدالت کا فیصلہ نافذ ہو گیا مگر تاریخ کا فیصلہ اس کے برخلاف آیا۔ معاملہ جب تاریخ کے سپرد ہوجائے تو پھر فیصلے کا حق بھی تاریخ ہی کے پاس ہوتا ہے۔ تاریخ نے اپنا فیصلہ سنا دیا۔ آج اس پر کم و بیش اجماع ہے کہ بھٹو صاحب کے ساتھ عدالتی ایوانوں میں ناانصافی ہوئی۔ آج وہ قوتیں بھی اس کا برملا اظہار کرنے پر مجبور ہیں جو اس نا انصافی میں کل ضیاالحق صاحب کے ساتھ کھڑی تھیں۔ اسی کا نام تاریخی جبر ہے۔
بصیرت کیا ہے؟ یہ حقائق کے بر وقت اعتراف کی صلاحیت ہے‘ اس سے قبل کہ تاریخی جبر کسی کو اس اعتراف پر مجبور کردے۔ ان حقائق کا تعلق سماج کے ہر شعبے سے ہوتا ہے۔ یہ مذہب‘ سیاست‘ معاشرت اور معیشت سمیت ہر باب میں ہمارے قائم کردہ خیالات سے الجھتے ہیں۔ کبھی ان کی تائید کرتے ہیں اور کبھی ان کے بارے میں سوال اٹھا دیتے ہیں۔ اہلِ بصیرت اپنے خیالات پر نگاہ رکھتے ہیں اور ساتھ ہی ان حقائق پر بھی۔ وہ ان میں مسلسل مطابقت تلاش کرتے ہیں۔ انہیں بروقت اندازہ ہو جاتا ہے کہ اب کس خیال کو تبدیل کیے بغیر چارہ نہیں۔ انہیں یہ بھی معلوم ہو جاتا ہے کہ وہ تاریخ کی درست سمت میں کھڑے ہیں یا غلط سمت میں۔ مذہب میں اسی صلاحیت کے اظہار کو اجتہاد کہتے ہیں۔
اس بات کا تعلق ایک فرد یا جماعت کے تصورِ حیات سے بھی ہے۔ وہ زندگی کو کس گہرائی کے ساتھ دیکھتے ہیں۔ یہاں پھر مجھے جاوید صاحب ہی کی ایک بات یاد آتی ہے: 'یہ آپ کا اپنا انتخاب ہے کہ آپ تاریخ میں جینا چاہتے ہیں یا اپنے عہد میں‘۔ جو لوگ اپنے عہد میں جینے کو ترجیح دیتے ہیں انہیں اس بات سے کم ہی غرض ہوتی ہے کہ تاریخ ان کے بارے میں کیا حکم صادر کرتی ہے۔ وہ سامنے کے مفاد پر نظر رکھتے اور اپنا لائحہ عمل متعین کرتے ہیں۔ جنہوں نے بھٹو صاحب کی پھانسی کے معاملے میں ضیا صاحب کا ساتھ دیا‘ ممکن ہے ان کے پیشِ نظرکوئی وقتی فائدہ ہو۔ یا وہ اپنے جذبۂ انتقام کو تسکین پہنچانا چاہتے ہوں۔ وجہ جو بھی رہی‘ جنہیں مہلت ملی‘ انہیں وقت کی عدالت میں اعتراف کرنا پڑا کہ وہ تاریخ کی غلط سمت میں کھڑے تھے۔
بصیرت کا یہ امتحان سب انسانوں کو ہر دور میں پیش آتا ہے بالخصوص ان لوگوں کو جو معاشرے کے بناؤ اور بگاڑ میں کوئی کردار ادا کرنے کے قابل ہوتے ہیں۔ یا تو انہیں تاریخ کے جبر کا سامنا کرتے ہوئے اپنی غلطیوں کا اعتراف کرنا پڑتا ہے یا پھر وہ میر جعفر کی طرح ایک قابلِ نفرت علامت بن جاتے ہیں۔ آج کسی کو میر جعفر کہا جائے تو وہ اسے گالی سمجھتا ہے۔ کوئی چاہے تو اسے تاریخ کا انتقام بھی کہہ سکتا ہے۔
ہمارے اداروں اور قومی قیادت کو ایک بار پھر تاریخ کے جبر کا سامنا ہے۔ آج جو فیصلے کیے جائیں گے‘ وہ تاریخ کی عدالت میں بھی پیش ہوں گے۔ تاریخ بھی اپنا فیصلہ لکھے گی اور دنیا کی کوئی طاقت اس کے قلم پر اثر انداز ہو سکتی نہ اسے روک سکتی ہے۔ تاریخ کسی کو میر جعفر قرار دے گی اور کسی کو سراج الدولہ۔ کسی کا نام جسٹس منیر اور جسٹس ثاقب نثار کی فہرست میں لکھے گی اور کسی کو جسٹس کارنیلیئس کے ساتھ شمار کرے گی۔ کوئی ظالم قرار پائے گا اور کوئی مظلوم۔ یہ یاد رہے کہ تاریخ کے فیصلے سطحی ہوتے ہیں نہ جذباتی۔
بصیرت کے ساتھ یہ اخلاقیات کا بھی امتحان ہے۔ مسلمان کے سامنے تو آخرت کی زندگی ہے جو کبھی ختم ہونے والی نہیں۔ اس کی سوچ کا یہ ایک اضافی زاویہ ہے جو تاریخ سے بھی ماورا ہے۔ اسے صرف اس سوال کا سامنا نہیں کہ وہ تاریخ میں کیسے یاد رکھا جائے گا۔ اسے یہ بھی سوچنا ہے کہ مرنے کے بعد اس کے ساتھ کیا ہوگا؟ گویا مسلمان اہلِ حل و عقد کے لیے سہ گونہ امتحان ہے: ان کا تاریخی شعور‘ سماجی تعارف اور اخروی انجام‘ تینوں معرضِ امتحان میں ہیں۔ جن قوموں کی قیادت ان تینوں کے شعور سے تہی دامن ہو‘ ان کا انجام ظاہر و باہر ہے۔ ان کے بارے میں سب سے بڑی شہادت خود تاریخ کی ہے۔
قیادت کی بصیرت مگر اچانک بروئے کار نہیں آتی۔ قوموں کی تعمیر کا عمل عشروں میں مکمل ہوتا ہے۔ بصیرت اور اخلاقی شعور بروئے کار نہ آئیں تو تعلیم و تربیت کا کام تاریخ اپنے ہاتھ میں لے لیتی ہے۔ اس کی تربیت کا انداز مگر مختلف ہے۔ مشاہدہ یہ ہے کہ فرد کی اخلاقی اور فکری تربیت اگر درست نہج پر نہ کی گئی ہو تو یہ ممکن نہیں ہوتا کہ وہ عمر کی چھٹی یا ساتویں دہائی میں درست فیصلے کرنے لگے۔ اسے کوئی بات تاریخی جبر ہی سے منوائی جا سکتی ہے۔ اس کام میں بعض اوقات چوالیس برس صرف ہو جاتے ہیں۔ اس دوران میں اتنا پانی پلوں کے نیچے سے بہہ جاتا ہے کہ ماضی کے فیصلوں کی تلافی ممکن نہیں رہتی۔ وقت کے پیغمبر کے انکار کی ایک قیمت ہے جو چکانا پڑتی ہے۔
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved