قومی تاریخ میں پہلی بار کابینہ نے صوبائی اسمبلی کے قبل از وقت انتخابات کرانے کے عدالتی حکم کو تسلیم کرنے سے انکار کر کے سوموٹو کیس کے چار‘ تین کے تناسب سے خارج ہونے کا مؤقف اپنا کر اس معاملے میں موجود ابہام کو دور کرنے کی خاطر تمام ججز پر مشتمل فل کورٹ تشکیل دینے کا مطالبہ کیا۔ گزشتہ جمعرات کو قومی اسمبلی کے اجلاس کے دوران بلوچستان سے تعلق رکھنے والے رکن اسمبلی خالد مگسی نے عدالتی فیصلے کے استراد کی قرار داد پیش کی جس پر رولنگ دیتے ہوئے سپیکر نے کہا: مقننہ کی اکثریت نے تین رکنی بینچ کا فیصلہ مسترد کرکے کابینہ کی طرف سے فل کورٹ بنانے کے مطالبہ کی توثیق کر دی۔ عدالتی حکم میں کہا گیا تھا کہ حکومت ہچکچاہٹ کے باوجود دو صوبوں میں انتخابات ہونے چاہئیں کیونکہ ملک معاشی بحران اور اپوزیشن کے سیاسی چیلنج سے نبرد آزما ہے۔ عدالت نے پنجاب میں ووٹنگ کے لیے 14 مئی کی تاریخ دی؛ تاہم تکنیکی مسائل کے پیش نظرخیبرپختونخوا اسمبلی کے الیکشن کو التوا میں رکھ لیا۔
حکومت اور عدلیہ میں اختلافات اس وقت کھل کر سامنے آئے جب گزشتہ ہفتے پارلیمنٹ نے چیف جسٹس کے انتظامی اختیارات کو ریگولیٹ کرنے کیلئے ''پریکٹس اینڈ پروسیجربل‘‘ متعارف کرایا۔ اس بل پر بحث کے دوران وزیر اعظم شہباز شریف نے کہا: آئین کی مجموعی سکیم کو بروئے کار لا کر صاف‘ شفاف اور منصفانہ الیکشن کرانے کیلئے ملک بھر میں نگران حکومتوں کا ہونا آئینی تقاضا ہے، جسے اگر نظرانداز کیا تو منصفانہ انتخابات کا انعقاد ممکن نہیں ہو گا، جس سے بحران مزید بڑھے گا۔ قبل ازیں عمران خان نے صوبائی حکومتوں کو اس امید پر تحلیل کیا تھا کہ وہ پی ڈی ایم حکومت کو ملک بھر میں قبل از وقت انتخابات کرانے پر مجبور کر دیں گے لیکن خلافِ توقع شہبازشریف کی زیر قیادت وفاقی حکومت نے قومی اسمبلی کو تحلیل کرنے سے انکار کر دیا۔ ملک میں تاریخی طور پر قومی و صوبائی اسمبلیوں کے انتخابات ایک ساتھ ہوئے ہیں، اس لیے جب سپریم کورٹ کے دو ججز نے ممکنہ انتخابی تاخیر سے بچنے کیلئے چیف جسٹس کو سو موٹونوٹس لینے کی سفارش کی تو چیف جسٹس آف پاکستان نے نو رکنی لارجر بینچ تشکیل دے کر سماعت شروع کی‘ ابتداً اُن دو ججز نے بینچ میں شمولیت سے معذرت کر لی جنہوں نے چیف جسٹس کو سوموٹو لینے کا نوٹ لکھا تھا۔ سات رکنی بینچ میں سے مزید دو ججز نے سوموٹو نوٹس پر اعتراضات اٹھائے اور اپنے اختلافی نوٹ کے ساتھ بینچ سے علیحدہ ہو گئے۔ معزز جج صاحبان کا موقف تھا کہ یہ معاملہ لاہور اور پشاور ہائیکورٹس میں پہلے ہی زیرِ سماعت ہے‘ لہٰذا اس سوموٹو کو ہائی کورٹس کے دائرۂ اختیار میں غیرضروری مداخلت قرار دے کر مسترد کر دیا؛ تاہم جب 22 مارچ کو کیس کا فیصلہ آیا تو پانچ میں سے تین ججز نے الیکشن کرانے اور دو نے سوموٹو نوٹس رد کرنے کا فیصلہ دیا۔ حکومت اس فیصلے کو لے کر ابہام کا شکار رہی‘ اسی دوران الیکشن کمیشن نے جب امنِ عامہ کی دگرگوں حالت، وسائل کی قلت اور آئین کی مجموعی سکیم کا سہارا لے کر پنجاب میں انتخاب ملتوی کیا تو معاملہ دوبارہ سپریم کورٹ میں جا پہنچا۔ 27 مارچ کو دوبارہ شروع ہونے والی سماعت یکم مارچ کے مقدمے کا تسلسل تھی، اب حکومت نے پچھلے فیصلے کے ابہام کو دور کرنے کیلئے فل کورٹ کی تشکیل کا مطالبہ کیا مگر یہ درخواست رد ہو گئی اور چیف جسٹس نے پانچ رکنی بینچ تشکیل دیا جو پہلے چار اور پھر بالآخر تین رکنی رہ گیا اور اس نے 14 مئی کو الیکشن کرانے کا فیصلہ سنایا جس سے سپریم کورٹ اور پارلیمنٹ آمنے سامنے آ کھڑے ہوئے۔
گزشتہ ڈیڑھ دہائی سے اس نئے رجحان کو''عدالتی فعالیت‘‘ کے طور پہ بیان کیا گیا۔ اگرچہ وکلا برادری آرٹیکل (3)184 کی تفہیم پر منقسم ہے اس لیے وسیع پیمانے پر قبول شدہ تعریف کی عدم موجودگی کے باعث عرفان قادر جیسے سینئر وکیل اس رجحان کو قانون سازی کرنے کا محرک قرار دیتے ہیں۔ شاید اسی لیے عدالتی فعالیت کو عدلیہ کی طرف سے اپنی طاقت کے دائرۂ کار کو بڑھانے کے مقصد کے تحت قانون سازی اور انتظامی امور میں مداخلت کے طور پر دیکھا جا رہا ہے۔ پاکستان میں جوڈیشل ایکٹوازم 2007ء کی وکلاء تحریک کی کوکھ سے نمودار ہوا، جس کا آغاز اس وقت کے چیف جسٹس افتخار چودھری کی بحالی کے بعد ہوا، جنہیں پرویز مشرف کی آمرانہ حکومت نے برطرف کر دیا تھا، مگر بعد میں معاملات نے اُس وقت خرابی کا رخ اختیار کرلیا جب چیف جسٹس افتخار چودھری نے بیک جنبشِ قلم اُن 100 سے زائد ججوں کو برطرف کر دیا جنہوں نے نومبر 2007ء کی ایمرجنسی میں چیف جسٹس کی اپنے عہدے سے برطرفی کے بعد مشرف حکومت کے پی سی او کے تحت حلف اٹھایا تھا۔ اس اقدام سے عدالتی صفوں میں ابھرنے والے ہر قسم کے اختلاف کو دبانے کا پیغام ملا اور یہی رجحان کچھ مخفی عزائم کو آگے بڑھانے میں جمہوری عمل کیلئے سدِ راہ بنتا گیا۔
1973ء کے آئین میں آرٹیکل 209 کے تحت عدالتِ عالیہ کے کسی جج کو برطرف کرنے کا قانونی طریقہ کار سپریم جوڈیشل کونسل میں ریفرنس جمع کرانے سے شروع ہوتا ہے، جہاں اس امر کا تعین کیا جاتا ہے، آیا یہ جج کی برطرفی کیلئے مس کنڈکٹ کا کافی مواد یا اس کی ذہنی صلاحیت میں کسی کمی کا ثبوت ہے؟ اگرچہ جوڈیشل ایکٹوازم کے حامیوں کا استدلال ہے کہ یہ محض ملک میں قانون کی حکمرانی کو برقرار رکھنے کی کوشش تھی؛ تاہم ملک کے موجودہ حالات میں یہ سوال بجا طور پر اٹھایا جا رہا ہے کہ آئینی بالادستی کی تمام بحثیں عدلیہ کیلئے اپنے دائرۂ اختیار کو وسیع کرنے کا ایک ذریعہ ہیں؟ تاہم جس طرح جسٹس اطہر من اللہ نے اپنے تفصیلی فیصلے میں کہا ''ہم اپنے تاریک ماضی کو مٹا تو نہیں سکتے مگر عدالتی غیر جانبداری کے ذریعے اب بھی عوام کا اعتماد حاصل کرسکتے ہیں‘‘۔ اگر عدلیہ اپنے ازخود اختیارات کا رخ سیاسی طور پر چارج شدہ مقدمات سے ان مقدمات کی طرف موڑ دے جن سے بنیادی انسانی حقوق کا تحفظ اور حقیقی سماجی و قانونی مسائل حل ہوتے ہیں تو اصلاحِ احوال ممکن ہے۔ لب لباب یہ ہے کہ عدالتوں کو آئینی سوالات کا فیصلہ صرف آخری حربے کے طور پر کرنا چاہئے، یعنی اگر ایک قانون کی دو تاویلیں ممکن ہوں، ایک تاویل آئینی پہلو لیتی ہو تو دوسرے کو ترجیح دی جائے۔ گویا عدالتی دانش ججز کو آئین کے مفہوم کے بارے میں اپنے خیالات کو نافذ کرنے میں محتاط رہنے کا مشورہ دیتی ہے جس طرح قانوی برادری آرٹیکل 63A کی تشریح کو موجودہ سیاسی بحران کا محرک بتا رہی ہے۔
حالیہ برسوں میں عدالتی استحقاق کی توسیع کو سمجھنے کیلئے ضروری ہے کہ پہلے ملک کی عدالت عظمیٰ کی جانب سے استعمال کیے جانیوالے از خود اختیار کا فہم حاصل کیا جائے۔ سوموٹو پاورسپریم کورٹ کے دائرۂ اختیار سے متعلق ہے لیکن اس کے استعمال کیلئے آئین میں دو شرطیں عائد کی گئیں؛ اول‘ دائر کردہ پٹیشن کا تعلق عوامی اہمیت کے حامل معاملات سے ہو، دوم‘ اس کے ذریعے بنیادی حقوق کی خلاف ورزی سے نمٹنے کی کوشش کی جائے۔ ہمارے قانونی نظام میں تاحال ازخود اختیارات کے استعمال کیلئے واضح طریقہ کار یا رولز موجود نہیں جن کی تدوین کیلئے سابق چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ نے فل کورٹ اجلاس میں تجاویز مانگی تھیں لیکن جسٹس گلزار نے اس ذمہ داری کو فراموش کردیا۔ اب متذکرہ کیس میں جسٹس جمال مندوخیل اور جسٹس منصورعلی شاہ نے بھی اپنے اختلافی نوٹس میں توجہ اس جانب مبذول کرائی اور جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں تین رکنی بینچ نے رولز کی تشکیل تک سوموٹو کیسز کو التوا میں رکھنے کا حکم دیا۔ اگرچہ سوموٹو کی سفارش عام طور پر ناقابلِ تنسیخ انسانی حقوق کے تحفظ کے بہانے کی جاتی ہے لیکن سرکردہ قانونی ماہرین اسے اختیارات میں زیادتی بھی گردانتے ہیں۔ جسٹس رمدے جیسے فقیہ نے افتخار چودھری بنام صدرِ پاکستان کیس میں اعتراف کیا کہ ''عدالتیں اپنے دائرۂ اختیار میں کمی کے بجائے توسیع کرنے کی طرف مائل ہیں‘‘۔ اس طرح کے تفہیمی تجاوزات کی وسیع قبولیت نے از خود اختیارات کے ناقدین کو سخت رویہ اپنانے پر مجبور کیا۔ جسٹس افتخار چودھری کے عروج پر عدلیہ نے آزادانہ طور پر ایسے معمولی مسائل سے نمٹنا شروع کر دیا تھا جس میں یہ طے کرنا بھی شامل تھا کہ حکومت کو سٹریٹ فوڈ کی قیمتوں کے تعین کی اجازت ہونی چاہئے یا سیلولر سروس فراہم کرنے والوں کو موبائل سروسز پر ٹیکس عائد کرنے کا حق دیا جائے؟ کچھ اسی طرح کے تجاوزات کو سابق چیف جسٹس ثاقب نثار نے بھی عام کیا جنہوں نے طے کیا کہ یہ عدلیہ کا حق ہے کہ وہ ملک میں پانی کی قلت کے مسئلے سے یکطرفہ طور پر نمٹے۔
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved