تحریر : نسیم احمد باجوہ تاریخ اشاعت     12-04-2023

عقل و دانش بالمقابل توہم پرستی

آج کا کالم لکھنے کا سارا کریڈٹ BBCکی ٹی وی نشریات سے شہرت پانے والےBamber Gascoine کو جاتا ہے۔ اُس نے ایک مختصر مگر جامع کتاب لکھی جس کا نام'' The Great Moghuls‘‘ رکھا۔ پاکستان سے آنے والی تشویشناک اور مضطرب کردینے والی خبروں سے دھیان ہٹانے کیلئے سوچا کہ صدیوں پرانی تاریخ کی کتابیں پڑھوں۔ پہلے پڑھ چکا ہوں تو دوبارہ پڑھوں۔ مندرجہ بالا کتاب کے صفحہ نمبر 34‘ 35 تک پہنچا تو رک گیا کیونکہ ان صفحات پر دوسرے مغل بادشاہ (ہمایوں) کی ضعیف الاعتقادی اور توہم پرستی کا تفصیلی ذکر ہے۔ مصنف دوسرے مغل بادشاہ کے بارے میں لکھتا ہے کہ ہمایوں اپنے ذہین باپ کے برعکس قابلِ رحم حد تک وہمی تھا۔ وہ اپنے محل یا کسی بھی عمارت میں داخل ہوتا تو پہلے اپنا دایاں پائوں اندر رکھتا۔ اگر وہ کسی شخص کو بایاں قدم پہلے اندر رکھتے ہوئے دیکھتا تو اسے باہر نکل جانے اور اپنا دایاں قدم پہلے رکھ کر اندر داخل ہونے کا حکم دیتا۔ ہمایوں نے اپنے درباری انتظامات کو ستاروں کی گردش کے حساب سے مرتب کر رکھا تھا۔ اس نے محکمانہ تقسیم بھی چار عناصر کے حساب سے کی۔ زمین کا محکمہ زراعت اور تعمیرات کا ذمہ دار تھا۔ پانی کا محکمہ آبپاشی اور تہہ خانوں میں شراب کے مٹکوں کی حفاظت کا انتظام دیکھتا تھا۔ آگ کا محکمہ فوج اور عسکری امور کے لیے اور ہوا کا محکمہ متفرق امور مثلاً شاہی دستر خوان‘ شاہی ملبوسات اور شاہی سواری کا ذمہ دار تھا۔ ہفتے کے ساتوں روز کیے جانے والے سرکاری کاموں اور شاہی ملبوسات کا مخصوص رنگ بھی ستاروں کی گردش کے پیش نظر منتخب کیا جاتا تھا۔ اتوار کو بادشاہ زرد رنگ کے جوتے پہنتا اور سرکاری امور کی طرف توجہ دیتا۔ سوموار کو سبز لباس اور مصروفیات‘ عیش و عشرت کے علاوہ نہ ہوتیں۔ منگل کو سرخ لباس پہن کر مقدمات کا فیصلہ کرتا۔
اس کالم کی ابتدائی سطور میں لکھا گیا تھا کہ میں مغل بادشاہوں پر لکھی گئی ایک بڑی اچھی کتاب کو دوبارہ پڑھتے پڑھتے صفحات 34‘ 35 پر رک گیا اور آگے نہ بڑھ سکا۔ وجہ یہ تھی کہ ان صفحات پر لکھی گئی سطور میرے لیے ایک لمحۂ فکریہ کا باعث بنیں۔ پانچ سو سال گزر گئے‘ بیل گاڑیوں پر بیٹھنے والے لوگ اب زمین پر کاروں اور ٹرینوں میں اور فضا میں ہوائی جہاز سے سفر کرتے ہیں۔ ذرا چاروں طرف نظر دوڑائیں۔ بجلی اور بجلی سے چلنے والے درجنوں آلات۔ ٹیلی فون‘ ٹیلی وژن‘ موبائل فون سے لے کر دیگر سینکڑوں ایجادات۔ پاکستان میں رہنے والے ان تمام جدید ایجادات سے اسی طرح مستفید ہوتے ہیں جس طرح یورپ اور امریکہ میں رہنے والے مگر ہمارے اور ان کے درمیان ہمالیہ پہاڑ جتنا جو بڑا فرق ہے‘ وہ سوچ کا ہے۔ وہ اس دورِ جدید میں ہر قسم کے وہم سے پاک صاف ہیں لیکن دوسری طرف نظر لگ جانے سے لے کر شاید ہی کوئی ایسا وہم ہو جو آج ہماری سوچ کا حصہ نہ ہو۔ آج بھی ہمارے عوام کی اکثریت یہ پختہ یقین رکھتی ہے کہ ان کے لیے کوئی نام یا پتھر باعثِ برکت ہے یا ستارے ان کی زندگی کو متاثر کرتے ہیں یا ان کی تاریخ پیدائش نے ان کا کسی ستارے سے دائمی رشتہ قائم کر دیا ہے یا وہ ماہر فلکیات کی خدمات حاصل کرکے معلوم کر سکتے ہیں کہ اُن کے لیے کون سا مہینہ‘ ہفتہ یا دن مبارک یا منحوس رہے گا۔ ہر وہ شخص جو توہم پرست ہے‘ عقل و خرد کا دشمن ہے‘ فہم و فراست سے عاری ہے اور درحقیقت ایک ذہنی مریض ہے۔ یورپ‘ امریکہ‘ چین‘ جاپان اور دوسرے ترقی یافتہ ممالک میں رہنے والے توہم پرستی کی دلدل سے نکل آئے ہیں اور ہم ہیں کہ صدیوں سے سر تا پا اسی دلدل میں دھنسے ہوئے ہیں۔ مجھے سمجھ نہیں آتی کہ ہمیں نجات ملے گی تو کیونکر؟ اب تو میری یہ غلط فہمی بھی دور ہو گئی ہے کہ میرے جو اہلِ وطن اعلیٰ تعلیم حاصل کر لیتے ہیں‘ وہ توہم پرستی کے مرض سے صحت یاب ہو جاتے ہیں۔ کاش کہ ایسا ہی ہوتا۔ بدقسمتی سے ایسا ہر گز نہیں۔ توہم پرستی سے زیادہ ایک اور چیز خطرناک ہوتی ہے اور وہ ہے جادو ٹونے پر یقین۔ کیا یہ سچ نہیں کہ آج بھی عوام کی اکثریت کا یہ پختہ یقین ہے کہ اگر ان پر کوئی مصیبت آتی ہے یا وہ کسی نہ کسی مالی مشکل کا شکار ہوتے ہیں یا وہ سخت بیمار ہو گئے ہیں یا شوہر دوسری شادی کر کے اپنی پہلی بیوی کے لیے سوتن لانے کی کوشش میں ہے یا اولاد نافرمان ہو چکی ہے تو یہ یقینا اس وجہ سے ہے کہ کسی دشمن یا حاسد نے جادو کرکے ان کی خوش و خرم زندگی کو اجیرن بنا دیا ہے اور اب وہ صرف اس جادو کا توڑ ڈھونڈکر یا ماہر عملیات کی پیشہ ورانہ خدمات سے فائدہ اٹھا کر اس کے مداوا کی کوئی تدبیر کر سکتے ہیں ورنہ تباہی و بربادی ان کا مقدر بن کر رہے گی۔ ہمارے ملک میں اصلی ڈاکٹرکم ہیں اور اتائیوں اور جعلی ڈاکٹروں کی تعداد کہیں زیادہ ہے۔ یہی حال درویشوں اور جعلی پیروں کا ہے۔ ہماری سرزمین اس لحاظ سے بڑی خوش قسمت ہے کہ یہاں گزرے ایک ہزار سال میں راولپنڈی‘ لاہور‘ پاک پتن‘ شور کوٹ‘ مٹھن کوٹ اور شرقپور سے لے کر شاہ عبدالطیف کے بھٹ تک اتنے بڑے بزرگ اور عظیم روحانی رہنما گزرے ہیں۔
ستاروں کو اپنی قسمت کا مالک بنانے والوں کو تو ایک طرف رکھیں۔ ذرا ان کم عقلوں کو ہمدردی کی نظر سے دیکھیں جو اپنے ہاتھ کی لکیروں سے اپنے آنے والے دنوں کا اندازہ لگانے یا پیشگی خبر حاصل کرنے کے لیے دست شناسوں کو موٹی فیس ادا کرتے ہیں۔ میرے لیے ممکن نہیں کہ ایک کالم میں توہم پرستی کے لق و دق صحرا میں بھٹکنے والے ذہنی مریضوں کی مکمل فہرست مرتب کر سکوں۔ میں ایسے افراد کیلئے ہمدردی کا جذبہ رکھتا ہوں۔ وثوق سے کہا جا سکتا ہے کہ توہم پرست افراد کی ذہنی پرورش اور نشوونما میں کوئی نہ کوئی ایسی کمی رہ گئی جس نے انہیں عقل و فہم سے دور اور توہم پرستی کے قریب کر دیا۔ اگر کوئی قصور وار ہے تو وہ مکتب ہے یا والدین اور اساتذہ۔ بڑے دکھ کی بات ہے کہ جب ہمارے ملک میں زلزلہ یا سیلاب کی صورت میں کوئی بڑی قدرتی آفت آئے تو ایک طبقہ ایسے لوگوں پر مشتمل ہے جو اسے عذاب الٰہی اور گناہگاروں کو ان کے گناہوں کی سزا قرار دیتا ہے۔ یہ لوگ ہر گز نہیں سوچتے کہ یہ قدرتی آفات غریب غربا کو ہی کیوں اپنا نشانہ بناتی ہیں؟ کالم نگار کی طرح برصغیر پاک و ہند میں رہنے والی اکثریت کے آباؤ اجداد ہندو دھرم کے پیرو کار تھے۔ وہ اپنا آبائی مذہب ترک کرکے مسلمان توہو گئے مگر اپنے ساتھ ہندو ذہن‘ سوچ اور اندازِ فکر بھی لیتے آئے۔ توہم پرستی‘ جادو اور جوتش ہندو ذہنیت کا حصہ ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ علامہ اقبال نے یہ کہا کہ جب تیرا دل صنم آشنا ہے تو تجھے نماز سے کیا حاصل ہوگا؟ ہم جانتے ہیں کہ اقبال کا اشارہ ہماری طرف تھا اور انہوں نے مروت میں اپنا نام لکھ دیا۔ اس صنم آشنائی کی آلائش کو ہمارے ذہن سے کس طرح کھرچ کر نکالا جا سکتا ہے‘ اس کا جواب خورشید ندیم دے سکتے ہیں یا جاوید غامدی صاحب یا ان کے پایہ کا کوئی اور دانشور۔ صد افسوس کہ اب ہمارے درمیان نہ قاضی جاوید ہیں اور نہ پروفیسر سی اے قادر اور نہ پروفیسر کرار حسین کہ وہ ہمیں اس کا کوئی علاج بتاتے۔ میں نے موجودہ مبلغوں اور معلموں کی تقاریر میں آج تک توہم پرستی اور جادو ٹونے کے بارے میں ایک بھی لفظ نہ سنا نہ پڑھا ہے۔ اگر اتنے بلند پایہ لوگ اتنے بڑے مسئلے سے چشم پوشی کریں تو ہم عوام کیا کریں؟ صبر شکر کرکے خاموش ہو جائیں؟
میں مندرجہ بالا سطور لکھ کر گھر سے باہر نکلا کہ دریا کے کنارے جا کر سیر کر سکوں۔ غالباًمیں نے وقت کے انتخاب میں غلطی کی‘ یہ شبھ گھڑی نہ تھی۔ ابھی چند قدم ہی چلا تھا کہ ایک کالی بلی اچانک نمودار ہوئی اور میرا راستہ کاٹ کر سڑک کی دوسری جانب دوڑ کر چلی گئی۔ میں نے اسے برا شگون سمجھا اور سیر جاری رکھنے کے بجائے قدرے فکر مند ہو کر واپس آگیا۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved