ہم ایک ایسی دنیا کا حصہ ہیں جس میں ہر پل سبھی کچھ بدل رہا ہے۔ ایک طرف ہم پر تبدیل ہونے کے لیے دباؤ بڑھ رہا ہے اور دوسری طرف ہم بھی ایسا بہت کچھ کر رہے ہیں جو دوسروں کو تبدیل ہونے پر مجبور کر رہا ہے۔ تبدیلی ناگزیر حقیقت ہے۔ اگر کوئی اس حقیقت سے انکار کرتا ہے تو کسی اور کا نہیں‘ اپنا ہی نقصان کرتا ہے۔ کل کی دنیا اور تھی، آج کی دنیا اور ہے۔ بنیادی اقدار تو وہی ہیں مگر ظاہری سطح پر بہت کچھ بدل گیا ہے۔ کل کا انسان غیر ضروری دباؤ سے آزاد تھا اور بہت حد تک اپنی مرضی سے زندگی بسر کرنے کے قابل تھا۔ آج کا انسان نہ چاہتے ہوئے بھی بہت سے ایسے معاملات میں الجھا ہوا ہے جو اُس کی صلاحیت و سکت کے ساتھ ساتھ توانائی کو بھی ضائع کرنے پر تُلے ہوئے ہیں۔ بعض کیسز میں تو یہ بھی ہو رہا ہے کہ کسی جواز کے بغیر تبدیلی کے لیے دباؤ بڑھ رہا ہے اور انسان صرف دیکھتا اور سوچتا رہ جاتا ہے کہ کرے تو کیا کرے۔ ایسی حالت میں زندگی جیسی نعمت ہاتھوں سے نکلی جاتی ہے اور ہم محض تماشا دیکھ رہے ہیں۔
آج کی دنیا میں مسابقت بھی بہت زیادہ ہے اور انہماک پر اثر انداز ہونے والے عوامل کی بھی کمی نہیں۔ کوئی کتنی ہی کوشش کر دیکھے، انہماک کو منتشر کرنے والی باتیں کہیں نہ کہیں سے وارد ہوکر منصوبوں پر پانی پھیر ہی دیتی ہیں۔ عمومی سطح پر تو یہی ہوتا ہے۔ ہاں‘ جو لوگ معاشی و معاشرتی سرگرمیوں اور رویوں کے حوالے سے غیر لچک دار اصولوں کے پابند ہوتے ہیں وہ الگ دکھائی دیتے ہیں۔ اُن کی لگن دور سے محسوس کی جاسکتی ہے۔
آج کی دنیا چونکہ بہت مختلف ہے اور زیادہ الجھی ہوئی بھی ہے اس لیے اب جینے کے آداب کچھ اور ہیں۔ کل تک بہت سے معاملات میں تھوڑی بہت تن آسانی بھی چل جاتی تھی۔ عدمِ توجہ ویسے تو ہر دور میں ناقابلِ قبول رویہ رہا ہے؛ تاہم ایک دور وہ بھی تھا جب معاملات کی رفتار سست تھی۔ تب اگر کوئی تھوڑی بہت لاپروائی کا مرتکب ہوتا تھا تو اُس کی پوری زندگی داؤ پر نہیں لگتی تھی۔ گرنے کے بعد اٹھنا زیادہ مشکل نہ تھا۔ اب بہت کچھ بدل گیا ہے۔ اب کوئی گر پڑے تو دوبارہ اپنے پیروں پر کھڑا ہونے اور سنبھلنے کے لیے ایک مدت درکار ہوتی ہے۔ ہر طرف سے پڑنے والا دباؤ اِتنا زیادہ ہے کہ معاملات آسانی سے درست نہیں ہو پاتے۔ اس کے لیے غیر معمولی عزم بھی درکار ہوتا ہے اور صبر و تحمل سے بھی کام لینا پڑتا ہے۔ سوال یہ ہے کہ جب ہر طرف سے دباؤ مرتب ہو رہا ہے، معاملات اِتنے الجھے ہوئے ہیں، معاشی اور معاشرتی رویے پیچیدہ تر ہوتے جاتے ہیں تو انسان کیا کرے؟ کسی بھی فرد کے لیے اب اپنے معاملات متوازن رکھنا مستقل مصروفیت ہے۔ ماحول میں ایسا بہت کچھ ہو
رہا ہے جو معاملات کو بگاڑنے پر تُلا رہتا ہے۔ معاشی میدان میں مسابقت بڑھ رہی ہے اور معاشرتی اُمور میں رویوں کی پیچیدگی نے ناک میں دم کر رکھا ہے۔ یہ سب کچھ ہر اُس انسان کے لیے سوہانِ روح ہے جو کچھ کرنا چاہتا ہے، کچھ بننے کا خواہش مند ہے۔ کامیاب زندگی یقینی بنانے کے بہت سے طریقے ہوسکتے ہیں۔ انسان زندگی بھر محنت کرتا ہے۔ ذہانت کا مظاہرہ بھی ناگزیر ہے۔ صبر و تحمل سے بھی کام لینا پڑتا ہے۔ متعلقہ شعبے کے معاملات کو بھی سمجھنا پڑتا ہے۔ آج کسی بھی شعبے میں مسابقت اِتنی زیادہ ہے کہ اگر کسی کو مثالی نوعیت کی کامیابی یقینی بنانی ہو تو معاملات کی درستی میں ایک زمانہ لگتا ہے۔
شخصیت کے ارتقا سے متعلق امور پر لکھنے والوں میں نپولین ہل (Napoleon Hill) کا ایک خاص مقام ہے۔ اُنہوں نے زندگی بھر لوگوں کو اعلیٰ تر زندگی کی طرف جانے کا راستہ دکھایا۔ نپولین ہل نے معروف صنعت کار اینڈریو کارنیگی کی مدد سے ایسی 500 شخصیات کے انٹرویو کیے جنہوں نے اپنے اپنے شعبے میں غیر معمولی کامیابی حاصل کی تھی۔ اِن انٹرویوز کی مدد سے اُنہوں نے 16 اصول طے کیے جو کامیابی زندگی یقینی بنانے کے لیے ناگزیر حیثیت کے حامل ہیں۔ 500 انٹرویوز پر مشتمل کتاب ''The Law of Success‘‘کے ذریعے نپولین ہل نے دنیا کو بتایا کہ مثالی کامیابی کس طور یقینی بنائی جاسکتی ہے۔ اِس ضخیم کتاب کو ''Think and Grow Rich‘‘ کے زیرِ عنوان آسان شکل میں بھی شائع کیا گیا تاکہ عام آدمی زیادہ مستفید ہو سکے۔
نپولین ہل نے شاندار کامیابی کے لیے جو 16 اصول مرتب کیے اُن میں ماسٹر مائنڈ گروپ کا اصول بھی شامل ہے۔ نپولین ہل نے خاصی تفصیل سے یہ نکتہ بیان کیا ہے کہ کسی بھی انسان کو بھرپور کامیابی یقینی بنانے کے لیے غیر معمولی صلاحیت و سکت کا حامل ہونے کے ساتھ بھرپور محنت کے لیے بھی تیار رہنا چاہیے مگر صرف اِتنا کافی نہیں۔ نپولین ہل کے نزدیک غیر معمولی اہمیت اس بات کی ہے کہ انسان ہم خیال لوگوں سے روابط رکھے، مشاورت کرے، تبادلۂ خیالات کے ذریعے اپنی مشکلات دور کرے۔ فی زمانہ کسی بھی انسان کے لیے ناگزیر ہے کہ ہم خیال افراد کے ساتھ مل کر کام کا ایسا ماحول تیار کرے جس میں ایک دوسرے سے مدد لینا ممکن ہو۔ ہم خیال گروپ آسانی سے نہیں بن پاتا۔ ہم مزاج اور ہم خیال لوگ تلاش کرنا
پڑتے ہیں۔ یہ تلاش زندگی بھر کا معاملہ ہے۔ ہم اپنے ماحول میں ہر طرح کے لوگ دیکھتے ہیں۔ دھوکا دہی عام ہے۔ لوگ عمومی سطح پر مفاد پرست ہوتے ہیں۔ ہر انسان صرف اپنے مفادات کو ذہن نشین رکھتا ہے۔ اپنے مفادات کے بارے میں سوچنے کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ دوسروں کے مفادات کو نظر انداز کردیا جائے۔ کوشش یہ ہونی چاہیے کہ اپنے فائدے میں کسی کا بلا جواز نقصان نہ ہو۔ جو محنت کرتا ہے وہ پاتا ہے۔ دوڑ میں کوئی اُس وقت جیتتا ہے جب کوئی ہارتا ہے۔ یہ مسابقت ہے، نا انصافی نہیں۔ نا انصافی اُس وقت ہوتی ہے جب ہم ڈھکے چھپے طریقے سے کسی کو نقصان پہنچائیں۔ کھلی مسابقت میں کسی نہ کسی کو تو ہارنا ہی ہوتا ہے۔
ماسٹر مائنڈ گروپ کا مطلب ہے ایسا گروہ جس میں سب ایک دوسرے کو اچھی طرح سمجھتے ہوں، کسی بدگمانی میں مبتلا نہ ہوں اور اپنے کام کا معیار بلند کرنے کے لیے مدد کے خواست گار بھی ہوں۔ ہم خیال افراد کا گروپ ایک دوسرے کو زیادہ سے زیادہ فوائد سے ہم کنار کرنے کی ذہنیت کے ساتھ کام کرتا ہے۔ ایسے میں یہ تعلق محض پروفیشنل سطح سے کہیں آگے کا ہوتا ہے۔ مشترکہ شعبے میں مل کر کام کرنے والے اچھے دوست بھی بن جاتے ہیں۔ معاشرتی معاملات میں بھی وہی لوگ زیادہ کامیاب رہتے ہیں جو ہم خیال افراد کے ساتھ چلتے ہیں۔ ہمیں ماحول میں طرح طرح کے لوگ ملتے ہیں۔ سب کو دوست نہیں بنایا جاسکتا۔ دوست بہت سوچ سمجھ کر بنانا پڑتے ہیں۔ یہ بھی زندگی بھر کا معاملہ ہے۔ بالکل اِسی طور معاشی یا پروفیشنل معاملات میں بھی کسی سے دوستی بہت سوچ سمجھ کر کرنی چاہیے۔ ہم خیال افراد کی تلاش انسان کو ہمیشہ جاری رکھنی چاہیے۔ ہم خیال اور ہم مزاج افراد کام کے حوالے سے ذہن سازی میں کلیدی کردار ادا کرتے ہیں۔ کاروباری اور پیشہ ورانہ معاملات میں ہم خیال افراد سے مشاورت بہت سی مشکلات کا ازالہ کرتی ہے۔ دنیا الجھتی ہی جارہی ہے۔ ہر شعبے میں مسابقت جان لیوا حد تک بڑھ چکی ہے۔ کسی کو آگے بڑھنا ہے تو لازم ہے کہ بھرپور محنت کرے، بہت کچھ سیکھے اور سب سے بڑھ کر یہ کہ ہم خیال افراد کی صحبت اختیار کرکے دل و دماغ کو زیادہ سے زیادہ پُرسکون رکھنے کی کوشش کرے۔
فی زمانہ ہم خیال افراد آسانی سے نہیں ملتے۔ اُنہیں تلاش کرنا پڑتا ہے۔ یہ تلاش عمر بھر کی ہے۔ انسان کو اپنے لیے کام کا ماحول سازگار بنائے رکھنے کی خاطر ایسے لوگوں سے تعلقات اُستوار رکھنے چاہئیں جو کارکردگی بہتر بنانے میں مدد دے سکتے ہوں اور ایسا کرنے میں کوئی قباحت بھی محسوس نہ کرتے ہوں۔ ہر وہ انسان آپ کے کام کا ہے جو آپ کو پیشہ ورانہ یا معاشی معاملات میں بہتر کارکردگی یقینی بنانے کی تحریک دیتا ہو۔ یہ تحریک بالواسطہ بھی ہوسکتی ہے۔ سوال یہ ہے کہ آپ کیسے لوگوں سے دوستی قائم کرتے ہیں، کن لوگوں میں اٹھتے بیٹھتے ہیں۔ یہ نکتہ نظر انداز مت کیجیے کہ دوستی اُنہی سے کی جانی چاہیے جن سے مزاج ملتا ہو اور یہ چیز معاشی معاملات کو درست رکھنے میں بھی کلیدی کردار ادا کرتی ہے۔
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved