فرمایا کہ ’’جب کوئی شخص بیمار ہو تو اس کی عیادت کو جائو اور اس سے اپنے لیے دعا کا کہو کیونکہ جب کوئی شخص بیمار ہوتا ہے تو اس کا دل گدازہو جاتا ہے ،نرم پڑ جاتا ہے اور گداز ونرم دلوں کی دعا بارگاہِ خداوندی میں جلد قبول ہوتی ہے۔‘‘ ایسے ہی فرد یا معاشرہ جب کسی کرب یا تکلیف کے دور سے گزر رہا ہوتا ہے تو مردِ ناداں پر کلامِ نرم ونازک کے اثرات مثبت پڑنے کے امکانات زیادہ ہوتے ہیں۔ کیا یہ ممکن ہے کہ ہم بھی اس ابتری کے عالم میں کچھ غور و فکر کر سکیں؟پچھلے چند دنوں میں جس طرح میڈیا نے اخلاقیات کی تنزلی کی تکلیف دہ تصویر معاشرے کے سامنے رکھی اور معاشرہ اپنا ہی چہرہ دیکھ کر سہم گیا تو کیا صرف بین اور سیاپوں پر ہی اکتفا کر کے بیٹھ جائے گا یا مسخ شدہ خدوخال کی بہتری پر بھی کچھ توجہ دے گا؟ انفرادی وقومی سطح پر اپنی نحوستوں سے نجات کے لیے کچھ عملی اقدامات بھی کرے گا۔ مرض اور معاملے کو مختلف پہلوئوں سے دیکھنے اور سمجھنے کی کوشش کرے گا یا ریٹنگ ریٹنگ کھیلتے میڈیا کی خاموشی کے بعد خود بھی تھک کر سو جائے گا؟ جیسے برسوں سے سویا ہوا ہے۔ بھارت جہاں آرٹ اور کلچر پر کسی قسم کی کوئی پابندی نہیں، موسیقی، فلم، رقص میں مہارت کے ساتھ ساتھ کہنے اور بات کرنے کی آزادی انتہائوں کو چھو رہی ہے اُس بھارت کے دارالخلافے دہلی کو دنیا آج ’’ریپ کیپٹل‘‘ کا نام کیوں دے رہی ہے؟ اسی طرح آزادی اور امارت کے عروج کو انجوائے کرنے و الے تقریباً 30کروڑ نفوس کے ملک امریکہ میں خود امریکن جسٹس اینڈ کرائم کے ایک ادارے کے سروے کے مطابق تقریباً ہر ایک سے دو منٹ کے درمیان ریپ کا کیس سامنے آتا ہے، یوں ہر سال تقریباً سوا دو لاکھ کے قریب ریپ کیسز رپورٹ ہوتے ہیں اور ان سوا دو لاکھ رپورٹ ہونے والے ریپ کیسز کے علاوہ جن کیسز کا اندراج نہیں کروایا جاتا وہ تعداد ان سوا دو لاکھ کے علاوہ ہے ۔یوں پچھلے دس سالوںمیں امریکہ میں پچیس لاکھ کے قریب لوگ، مرد ،عورتیں ،بچے ریپ کا شکار ہوئے۔ سو امریکہ اور بھارت جو سماجی و معاشی لحاظ سے پاکستان سے مختلف ممالک ہیں اور امریکہ کی سماجیات اور معاشیات تو پاکستان سے انتہائی مختلف ہے لیکن وہاں بھی اس قسم کے جرائم کی شرح اتنی اونچی کیوںہے ۔؟ ہمارے ملک میں اس قسم کے جنسی جرائم کی جڑیں کن عوامل، کن محرومیوں ،کن رویوں سے پھوٹتی ہیں؟ کیا ہم غور کریں گے اس پر ؟ افسوس ہمارے پاس نہ اتنا وقت ہے ،نہ دماغ ،نہ سرمایہ کہ سنجیدگی سے ماہر ین نفسیات ، علماء اوردانشوروں کی سطح پر ریسرچ بورڈز کے ذریعے اپنے مرض کو جاننے کی کوشش کریں۔ ہم تو یہ بھی نہیں جانتے کہ معاشرے کس کس پہلو سے اپنے نظام کی خرابیوں کا جائزہ لے کر خود کو سدھارنے کی کوشش کیا کرتے ہیں۔ کسی واقعے پر سیاستدان صرف دکھاوے کے لیے مظلوموں کے ساتھ تصویریں ہی نہیں کھنچوایا کرتے یا میڈیا ریٹنگ کی دوڑ میں رسوائی کا تاج سر پہ سجائے صرف مظلوم کی عزت وزخم بیچ کر مال ہی نہیں بنایا کرتا بلکہ دردمندی سے معاشروں کو اور خود کو، اپنے لوگوں کو محفوظ بنانے کیلئے سنجیدہ مباحث کا آغاز بھی کیا کرتا ہے۔ جو اعدادوشمار امریکن ڈیپارٹمنٹ کے سروے کے حوالے سے اوپر پیش کیے گئے، وہی آگے چل کر بتاتے ہیں کہ پچھلے سالوں میں امریکہ میں ریپ کے کیسز میں اتنی تعداد میں رپورٹ ہونے کے باوجود تقریباً 60 فیصد تک کمی آئی ہے… کیا ہم جاننے اور سمجھنے کی کوشش کریں گے کہ امریکہ میں جنسی جرائم کی شرح میں 60 فیصد تک کمی کیسے لائی گئی۔؟؟؟ شاید کبھی نہیں کہ ہم کہیں بھی جائیں ،کسی بھی ملک میں جائیں صرف اور صرف معاشیات کی بات کرتے ہیں۔اخلاقیات، کرداراوراقدارجیسے رویے اور الفاظ ہماری سیاسیہ واشرافیہ کب کی دفن کر چکی ہے کہ ان کے بقول اس قسم کی چیزوں سے سیاسی مقاصد کے حصول میں ناکامی مقدر ہوا کرتی ہے ۔ مکہ کے بجائے میکیاولی سے راہنمائی کا یہی انجام ہوا کرتا ہے ۔ سو اپنی سیاسیہ واشرافیہ کو تو چھوڑ دیں ،کیا ہم آپ، عام لوگ مستقبل میں اپنی کلیوں اور پھولوں کو مہکنے، بڑھنے ،پھلنے ،پھولنے کی پوری آزادی فراہم کرنے کی خاطر یہ سمجھنے کی کوشش کریں گے کہ بنیادی جینیاتی درندگی جو شاید بے شمار انسانوں میں قدرت کی طرف سے پائی جاتی ہے ،کے علاوہ وہ کون کون سے عوامل ہیں جو انسان کو بے قابو کر کے درندگی پر مجبور کر دیتے ہیں۔؟؟؟ کیاہم جاننے کی کوشش کریں گے کہ مجموعی طور پر معاشرے میں بکھری غربت سے لے کر تعلیم کی کمی ، معاشی دبائو کے باعث شادیاں نہ ہونے کی وجہ سے جنسی بھوک کی بے چینی سے لے کر ماں باپ کے کم تعلیم یافتہ ہونے کے باعث بچوں کی اخلاقی تربیت کے فقدان، گلی گلی کُھلے ہوئے انٹرنیٹ کیفیز میں فحش مواد کی خصوصاً انتہائی کمسن بچوں تک رسائی اور اس کے ان کے اذہان اور شخصیت پر تباہ کن اثرات، قانون کی عملداری نہ ہونے کے باعث سزا کے حوالے سے بے خوفی، کچھ بھی کر کے رشوت یا سفارش یا تعلقات کی بنیاد پر بچ نکلنے کا یقین، اور سیاسیہ واشرافیہ کی ہر قانون کو قدموں تلے روندنے کے رویے اور خبروں کے عام آدمی کی نفسیات پر پڑنے والے اثرات، جس کے باعث اخلاقی قدروں کو اپنی اپنی سطح پر پیروں کی جوتی سمجھنا جیسے رویوں کی پیدائش سے لے کر صحت مند تفریحی سرگرمیوں کے فقدان تک دیگر کتنے ہی عوامل ہیں جو معاشرے کے اندر کے حیوان کو کچھ بھی کر گزرنے کی ہلا شیری دیتے ہیں۔اس میں یقینا مذہبی حلقوں کی ذمے داری کا بھی ذکر آئے گا جو فقط سیاست میں الجھ کر فرد کی روحانی واخلاقی تربیت کو تج بیٹھے ہیں۔ مزید یہ کہ سخت ترین وعبرتناک سزائوں پر عمل در آمد کے ساتھ ساتھ اور کن کن پہلوئوں پر توجہ دے کر، اصلاح کر کے خود کو اور اپنی نسلوں کی عزتوں اور زندگیوں کو محفوظ بنایا جا سکتا ہے… کیا ہم یہ سب جاننے اور سمجھنے کی کوشش کریں گے؟؟؟ بار بار ہدایت آئی ہے ’’اور تم غور کیوں نہیں کرتے۔‘‘تو کیا ہم غور کریں گے؟؟؟ سنجیدگی سے اگر غور نہیں کریں گے اور غوروفکر کے نتیجے میں عملی اقدامات نہیں کریں گے ،قوانین نہیں بنائیں گے تو درندوں کی تعداد یونہی بڑھتی جائے گی۔ امریکہ جیسے ممالک جہاں جنسی جرائم کو 50,60 فیصد تک نیچے لے آئے ہیں ،ہمارا معاشرہ شاید100فیصد تک اوپر لے جائے۔
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved