تحریر : ڈاکٹر صوفیہ یوسف تاریخ اشاعت     14-04-2023

عید فسح‘ ایسٹر‘ ماہِ رمضان اور بیت المقدس

اس سال یہودیوں کی عید فسح‘ عیسائیوں کا ایسٹر اور مسلمانوں کا مقدس مہینہ رمضان ایک ساتھ آنے سے امید تو یہ تھی کہ تینوں مذاہب کے پیروکاروں میں عبادت و خوشیوں کے دن مشترک ہونے کی وجہ سے اکیسویں صدی کا انسان محبت و امن کی عالمی مثالیں قائم کرے گا لیکن اس کے برعکس سرزمینِ بیت المقدس پر تشدد کے واقعات میں اضافہ ہوا ہے۔ یہودیوں کا مذہبی تہوار عید فسح (Passover) 5اپریل سے 13اپریل کے درمیان منایا جاتا ہے۔ اس تہوار کو منانے کے لیے اسرائیل اور دنیا بھر سے یہودی یروشلم آتے ہیں‘ اسی طرح دنیا بھر کے عیسائی بھی ایسٹر کا تہوار منانے کے لیے یروشلم اور بیت اللحم آتے ہیں اور مسلمان رمضان کے مہینے میں مسجد اقصی میں عبادت میں مشغول رہنا چاہتے ہیں۔ تینوں مذاہب کے لوگوں کا اپنی عبادت گاہوں میں جانے کا بنیادی مقصد روحانی تسکین اور دل کا سکون حاصل کرنا ہے لیکن اسرائیلی فورسز نے ماہِ رمضان میں مسلمانوں کی مسجد اقصیٰ میں عبادت تو دور کی بات‘ اس میں ان کے داخلے پر ہی پابندی لگادی۔ جس کے ردِعمل میں شام‘ جنوبی لبنان اور غزہ سے فلسطینی حریت پسند گروپوں نے اسرائیل پر راکٹ داغے جنہیں اسرائیل کے فضائی دفاعی نظام نے فضا میں ہی تباہ کر دیا۔ مسجد اقصیٰ میں غیرمسلح نمازیوں کے خلاف پولیس کا وحشیانہ تشدد فرد کی آزادی اور بغیر کسی رکاوٹ کے عبادت کرنے کے حق کی خلاف ورزی ہے۔ عبادت گزاروں پر مسجد میں کیے جانے والے تشدد کے وڈیو کلپس عالمی ضمیر کو جھنجھوڑ رہے ہیں۔
خطے میں حالیہ کشیدگی میں اضافہ اسرائیلی وزیراعظم بنیامین نیتن یاہو کی حکومت کے قلیل مدتی مفادات کے حصول کی شعوری کوشش قرار دی جا سکتی ہے کیونکہ وہ اپنی عدالتی اصلاحات کے خلاف مظاہروں پر سے توجہ ہٹانے کے لیے اس کشیدگی کو مزید ہوا دے رہے ہیں۔ اسرائیل نے یہ الزام لگاتے ہوئے کہ گولان کی پہاڑیوں پر شام کی جانب سے راکٹ داغے گئے ہیں‘ (گولان کی پہاڑیوں پر 1967ء کی جنگ کے دوران اسرائیل نے قبضہ کر لیا تھا اور 1981ء میں 12سو کلو میٹر رقبہ اپنے اندر ضم کر لیا) شام پر زمینی اور فضائی حملے کیے۔ یہ حملے یروشلم میں کشیدگی کے دوران بڑھتے ہوئے تشدد اور مسجد اقصیٰ میں اسرائیلی پولیس کے نمازیوں پر تشدد کے بعد ہوئے ہیں۔ اسرائیل اور فلسطینیوں کے درمیان تشدد بڑھنے سے مغربی کنارے کے علاقوں میں اسرائیلی فوج کے چھاپوں میں اضافہ ہوا ہے۔ جنوری سے اب تک 90سے زیادہ فلسطینی اسرائیلی فورسز کی فائرنگ سے ہلاک ہو چکے ہیں۔ اسرائیلی جنگی طیاروں نے غزہ اور جنوبی لبنان میں فلسطینی پناہ گزین کیمپوں پر بھی حملے کیے۔ مقبوضہ مغربی کنارے اور غزہ کی پٹی سے فلسطینیوں کے لیے اسرائیل میں داخلے پر پابندی ہے۔
پچھلے3مہینوں میں اسرائیل شام پر 10فضائی حملے کر چکا ہے۔ شمالی شام میں آنے والے مہلک زلزلوں کے بعد سے امدادی سامان کی ترسیل حلب کے ہوائی اڈے سے کی جارہی تھی‘ اس ہوائی اڈے کو اسرائیل کی بمباری سے شدید نقصان پہنچا اور اسے بند کردیا گیا ہے۔ اس صورتحال پر عالمی ادارے اور عالمی برادی خاموش ہے۔ دمشق‘ حمص اور حلب پر اسرائیل کے حملوں سے شامی عوام کی مشکلات میں مزید اضافہ ہوا ہے جو تباہ کن زلزلے اور خانہ جنگی کے بعد سے مشکل حالات کا سامنا کررہے ہیں۔ اسرائیل شام کے ہوائی اڈوں پر حملے کرنے کا جواز یہ دیتا ہے کہ ایران کی جانب سیا اسرائیل مخالف ملیشیاؤں کو اسلحہ پہنچانے کے لیے فضائی سپلائی لائنوں کا استعمال کیا جاتا ہے۔ 2013ء میں اسرائیلی طیارے نے شام سے حزب اللہ کے جنگجوئوں کے لیے ہتھیار لے جانے والے قافلے کو نشانہ بنایا تھا۔ حزب اللہ کے ٹھکانوں پر اسرائیل نے لبنان کے علاوہ عراق میں بھی حملے کیے۔ حزب اللہ مشرقِ وسطیٰ میں سب سے طاقتور غیرریاستی تنظیم ہے جسے تقریباً 40سال قبل لبنان کی وادی بیکا میں تشکیل دیا گیا‘ یہ لبنان میں اسرائیل کی جارحیت کو روکنے کے لیے بنائی گئی تھی۔ اسرائیل اور حزب اللہ کے درمیان جاری شیڈو جنگ کے علاوہ 2006ء میں جنگ ہو چکی ہے‘ جس میں حزب اللہ نے اسرائیل کو کافی نقصان پہنچایا تھا۔
اس سارے منظرنامے کو مستقبل میں مزید متاثر کرنے والے اقدام میں اول چین کی ثالثی سے سعودی عرب اور ایران کے درمیان ہونے والا معاہدہ ہے‘ جس سے خطے کے ان دو بڑے ملکوں کے درمیان تعلقات میں بہتری آنا شروع ہوگئی ہے‘ دوم شام کے صدر بشار الاسد کے دورۂ متحدہ عرب امارات نے شام کے دیگر ہمسایہ ممالک سے تعلقات میں بہتری کا عندیہ دیا ہے۔ یہ وہ واقعات ہیں جن سے امریکہ اور مغرب تو حیرت زدہ ہیں ہی لیکن اسرائیل کی جھنجھلاہٹ اس کے لبنان‘ شام‘ مقبوضہ مغربی کنارے‘ غزہ اور مسجد اقصیٰ میں نمازیوں پر حملوں سے عیاں ہے۔
سعودیہ‘ ایران معاہدے نے اسرائیل کو پریشان اور پورے مشرقِ وسطیٰ کو ہلا کر رکھ دیا ہے۔ ایران یہ جانتے ہوئے کہ اس نے اسرائیل کو سیاسی طور پر ایک دھچکا پہنچایا ہے‘ وہ اب شام میں اپنے ڈیٹرنس کو بہتر بنائے گا۔ یمن کے متحارب گروپ اور سعودی عرب کے درمیان مذاکرات سے بھی ایران کے دیگر عرب ممالک کے ساتھ تعلقات میں بہتری آئے گی۔ اسرائیل اس صورتحال کو اپنے مفادات کے برعکس دیکھتا ہے۔ ہمیشہ کی طرح اس بار بھی فلسطینیوں پر یلغار جاری ہے۔ ایک طرف مسجد اقصیٰ میں اسرائیلی فورسز اور یہودی آبادکاروں نے مل کر فلسطینی عبادت گزاروں پر حملہ کرکے انہیں زخمی اور مسجد سے باہر نکال دیا تو دوسری طرف مقبوضہ مغربی کنارے‘ غزہ اور جنوبی لبنان پر بمباری کرتے ہوئے تمام عالمی قوانین کو پیروں تلے کچل ڈالا ہے۔ تیسری جانب شام میں حلب‘ حمص اور دمشق پر زمینی اور فضائی حملوں سے شام کی خود مختاری کی خلاف ورزی کی۔ اسرائیل کی موجودہ حکومت میں شامل انتہائی دائیں بازو کے عناصر فلسطینیوں سے عناد رکھتے ہیں اور حریت پسندوں کو طاقت سے کچلنا چاہتے ہیں۔ اس لیے جب تمام تر ریاستی دہشت گردی کے بعد اسرائیلی وزیراعظم نے رمضان کے اختتام تک یروشلم کے مقدس مقام جسے یہودی ماؤنٹ ٹیمپل کہتے ہیں‘ کے دورے پر جانے والے یہودیوں اور سیاحوں پر پابندی لگانے کا اعلان کیا تو ان کی کابینہ نے اس پابندی کی مخالفت کی۔ ہمیشہ کی طرح اس بار بھی اسرائیل نواز مغربی میڈیا نے فلسطینیوں کو ہی کٹہرے میں کھڑا کیا ہے۔ جو اپنی زمین‘ اپنے گھر اور اپنی عزت بچانے کے لیے اسرائیل کے مہلک ترین ہتھیاروں کا مقابلہ پتھروں اور احتجاجوں سے کررہے ہیں۔
غزہ کی پٹی دنیا کی سب سے بڑی اوپن ایئر جیل میں تبدیل ہو چکی ہے۔ جہاں 20لاکھ سے زیادہ فلسطینیوں کی زندگی بے حال ہے۔ پچھلے ہفتے لبنان کے کم ازکم تین علاقوں کو اسرئیلی فورسز نے نشانہ بنایا۔ جنوبی لبنان میں اقوام متحدہ کی امن فوج (UNIFIL) نے صورتحال کو انتہائی سنگین قرار دیتے ہوئے فریقین سے تحمل سے کام لینے پر زور دیا ہے۔ سلامتی کونسل نے بھی بحران پر بات چیت کے لیے بند کمرے کا اجلاس منعقد کیا لیکن اس کا کوئی بیانیہ جاری نہیں کیا گیا۔ شام‘ فلسطین اور لبنان پر اسرائیلی جارحیت کے باوجود عالمی برادری اسے مسلسل نظر انداز کرتی آئی ہے۔ عالمی غصہ کہاں ہے؟ پابندیوں کے مطالبات کہاں ہیں؟ انٹرنیشنل کرمنل کورٹ کیوں خاموش ہے؟ یہ وہ دوغلی پالیسیاں ہیں جو عالمی امن کے قیام کی راہ میں بڑی رکاوٹ ہیں۔ اسرائیل کو امریکہ کی حمایت حاصل نہ ہو اور درج بالا عالمی ادارے اسرائیل کو تمام تر عالمی قوانین کی پاسداری کر نے کے لیے پابندکریں تو نہ صرف فلسطینیوں پر ظلم و جبر بند ہوگا بلکہ دو ریاستی منصوبے کی مخالفت ختم ہونے کے ساتھ لبنان‘ شام‘ اردون و عراق پر غیر اعلانیہ حملے بند اور پورے خطے میں امن قائم ہو سکتا ہے۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved