میں نے چار سال اکنامکس پڑھی، جب اس میں معیشت کا تذکرہ آتا تھا میں بہت غور سے لیکچر سن کر پوائنٹس بنا لیتی تھی لیکن جب حساب کتاب، ریاضی اور شماریات کا حصہ آتا تھا تو مجھے اونگھ آنے لگتی تھی۔ اعداد و شمار کو سمجھنا کوئی آسان بات نہیں ہے۔ ہماری استاد لندن سکول آف اکنامکس سے فارغ التحصیل تھیں، وہ بہت خوش مزاج اور بہترین شخصیت کی مالک تھیں۔ وہ ہماری بوریت کو جانچ لیتیں اور پھر خشک قسم کے مضامین، قواعد و ضوابط اور فارمولے کچھ اس طرح سے پڑھاتیں کہ ہمیں سمجھ آ جاتے اور کلاس کا ماحول بھی اچھا ہو جاتا۔ ہم ان کو اکثر کہتے کہ میم! ایک بات بتائیں، یہ کالج کی سب سے بوسیدہ کلاس ہی اکنامکس کے طالب علموں کو کیوں دی گئی ہے؟ دراصل ہماری کلاس پرانی لائبریری میں ہوا کرتی تھی، جو کالج کا سب سے قدیمی بلاک تھا، شاید یہ اُس وقت بنا تھا جب اسلام آباد تعمیر ہو رہا تھا۔ اونچی چھت اور بڑی بڑی کھڑکیاں! ہم میم سے کہتے تھے کہ ایسا لگتا ہے کہ کلاس کسی کھنڈر میں ہو رہی ہے۔ وہ ہنستی ہوئی کہتی تھیں کہ اکانومی کسی کی ترجیح نہیں ہے، جیسے یہ بھوت بنگلہ جیسی پرانی کلاس اکانومی کے طلبہ کے حصے میں آئی ہے، اسی طرح کا حال ملکی معیشت کا ہے۔ وہ ہمیں معیشت، روپے کی قدر، افراطِ زر اور بجٹ خسارے کے بارے میں پڑھاتی تھیں۔ وہ بتاتیں کہ کس طرح پاکستان قرضوں کے بوجھ تلے دبا ہوا ہے اور روپے کی ناقدری سے معیشت کو کتنا نقصان ہو تا ہے۔
میکرو اکنامکس میرا پسندیدہ مضمون تھا۔ اس وقت پروفیسر شہناز کی باتیں کم ہی سمجھ آتی تھیں، ہم خود بھی اس وقت طالبعلم تھے لیکن جب عملی زندگی میں قدم رکھا تو سمجھ آیا کہ پاکستان اقتصادی طور پر تباہی کے راستے پر گامزن ہے۔ ملکی معیشت کا بالکل وہی حال تھا جوکالج کی اس قدیم لائبریری کا تھا، وہ پورا بلاک خالی ہو چکا تھا اور لائبریری نیو بلاک میں شفٹ ہو گئی تھی۔ مناسب دیکھ بھال نہ ہونے سے پیڑوں کی شاخیں کھڑکیوں سے اندر آ چکی تھیں۔ ہر طرف دھول‘ مٹی کا راج تھا۔ بہت سے پنکھے چلتے ہی نہیں تھے۔ فرنیچر بھی پرانا تھا۔ کالج کا باقی بلاک نیا تھا، وہ صاف ستھرا اور جدید سہولتوں سے لیس تھا؛ تاہم صرف معاشیات اور شماریات پڑھنے والوں کے ساتھ یہ امتیازی سلوک ہو رہا تھا۔ بعد میں ہم نے ایڈمن میں درخواست دی تو ہماری کلاسز بھی نئے بلاک میں شفٹ کر دی گئیں۔ مگر پاکستان کی معیشت ابھی تک کسی نئے بلاک میں نہیں جا سکی۔
زندگی میں کچھ تصورات بلاوجہ راسخ ہو جاتے ہیں، جیسے ملکی معیشت سے متعلق میرا اُس قدیم لائبریری کے کھنڈر والا تصور۔ یقینا کسی دور میں اُس بلاک نے بھی عروج دیکھا ہو گا، وہاں کچھ کچھ ماضی کی عظمت کی نشانیاں بھی تھیں، پھر جالے، دھول مٹی، ٹوٹا ہوا فرنیچر اور عجب پُراسرار ماحول اس بلاک کی شناخت بن گیا۔ پاکستان میں بھی اشرافیہ نے ملکی وسائل کو اپنے مفاد ات کے حق میں موڑ کر بہت مال بنایا اور نتیجتاً ملک ویران ہوتا چلا گیا۔ ان کے بچے دودھ پینے کی عمر میں اربوں کے کاروبار کے مالک بن گئے، ان کے محلات اور فارم ہائوسز دنیا بھر میں پھیلتے چلے گئے اور ایک ایٹمی ملک پر قرضے چڑھتے رہے، یہاں تک کہ نوبت ڈیفالٹ تک آ پہنچی ہے کہ کب معیشت کا پہیہ مستقل جام ہو جائے۔ ہر دور میں ہم یہ سنتے رہے ہیں کہ قرض اتارو، ملک سنوارو۔ ہمیشہ ہمیں بتایا گیا کہ ملک ایک نازک دور سے گزر رہا ہے۔ یہ نازک دور کبھی اشرافیہ پر کیوں نہیں آتا؟ وہ تو ہمیشہ پھلتی پھولتی ہی دکھائی دیتی ہے۔ بس عوام ہی ہیں جو غریب سے غریب تر ہو رہے ہیں۔ یہ ملک کی معیشت ہی ہے جو تباہ ہو رہی ہے۔ اس کو ٹھیک کرنے کے دعوے دار تو مزید امیر ہو رہے ہیں۔ ایک زمانے میں ایک بڑی گاڑی، ایک گن مین اور ایک گولڈن گھڑی اشرافیہ کی علامت ہوتی تھی لیکن اب چالیس لاکھ کی گھڑی، 5 کروڑ کی گاڑی اور قوم کے پیسوں پر آگے پیچھے دوڑتی پروٹوکول والی گاڑیاں اشرافیہ کی پہچان ہیں۔ ان کے سڑکوں پر اترتے ہی عوام کے لیے سڑکیں بند کر دی جاتی ہیں کہ یہاں سے بادشاہ سلامت، شہزادے اور شہزادیاں اپنے لشکروں کے ساتھ گزرنے والے ہیں۔ جب وہ گزر جاتے ہیں تو پھر ہی غریب عوام کو اجازت ملتی ہے کہ وہ اپنی منزل کی طرف روانہ ہو سکیں۔ غریب مزید غریب ہوتے گئے اور امیر، امیر تر ہوتے چلے گئے۔ اب یہ حالات ہیں کہ پیسے کی کمی کا شور کرکے قومی دن نہیں منائے جاتے، عوام کو ریلیف نہیں دیا جاتا اور یہ بھی کہا جاتا ہے کہ پیسے نہیں ہیں، قومی خزانہ خالی ہے، ایسے میں الیکشن بھی نہیں ہو سکتے۔ اگر اتنی ہی لاچارگی ہے، اتنی ہی بے بسی ہے تو پھر یہ حکومت ہی چھوڑ دیں۔ اتنے مشکل حالات میں وزرا اور مشیروں کی فوج ظفر موج کیوں رکھی ہوئی ہے؟
جب پنجاب میں عوام کو مارا پیٹا جا رہا تھا تو نگران حکومت پنجاب کی ثقافت کا دن منا رہی تھی۔ اشرافیہ کی اپنی الگ ہی دنیا ہے۔ لوگ آٹے جیسی بنیادی چیز کے حصول کے لیے لائنوں میں لگ کر مر رہے ہیں اور اشرافیہ مختلف میلوں کا انعقاد کر رہی ہے۔ عوام کی دنیا شاید اشرافیہ کی دنیا سے بہت الگ، بہت دور ہے۔ عوام اس وقت مہنگائی اور غربت کی چکی میں پس رہے ہیں مگر ان کی کوئی شنوائی نہیں۔ روپے کی قدر مسلسل گرتی جا رہی ہے، مہنگائی عروج پر پہنچ چکی ہے اور ہر روز نت نئے ریکارڈ قائم کر رہی ہے، لوگوں کی قوتِ خرید کم ترین سطح پر آ گئی ہے کیونکہ ان کی آمدن نہیں بڑھ رہی۔ ایک ڈالر اب تین سو روپے کا ہونے کو ہے، اس سے مہنگائی کا نیا طوفان آئے گا۔ کچھ لوگ شاید روٹی کھانے سے بھی جائیں، کچھ لوگ اپنے بچوں کو باہر پڑھنے کے لیے نہیں بھیج سکتے، اپنا علاج کرانے باہر نہیں جا سکتے، یہاں تک کہ غیر ملکی ادویات بھی نہیں خرید سکتے کیونکہ ڈالر خریدنا اب متوسط طبقے کے اختیار میں نہیں رہا۔ غریب تو روپیہ بھی نہیں حاصل کر سکتا، ڈالر تو بہت دور کی بات ہے۔ پاکستان میں اس وقت روپے کی تنزلی جاری ہے اور ڈالر اونچی پرواز میں مگن ہے۔ پی ڈی ایم حکومت مہنگائی ختم کرنے کے دعوے کے ساتھ آئی تھی، کہا گیا تھا کہ ملکی معیشت کو چھ ماہ میں ٹھیک کر دیں گے، ایک سال ہو گیا ہے اس حکومت کو، کوئی ایک بھی وعدہ ایفا نہیں ہوا اور دعوے بھی سب دھرے کے دھرے رہ گئے ہیں۔ جب پی ڈی ایم اتحاد حکومت میں آیا تھا تو فخریہ طور پر کہا گیا تھا کہ ڈالر نیچے گیا ہے اور روپیہ مستحکم ہوا ہے۔ مگر اب کوئی کچھ بولتا ہی نہیں۔ 24 جنوری کو ڈالر 231 روپے پر تھا۔ 26 اور 27 جنوری کو مجموعی طور پر 31 اعشاریہ 71 روپے کا اضافہ ہوا اور یکدم ڈالر 262 روپے کی بلند ترین سطح پر پہنچ گیا۔ اب یہ ٹرپل سنچری کرنے کو ہے، ایسے میں سب چپ کیوں ہیں؟ اس حکومت کے دامن میں کیا ہے؟ روپے کی ناقدری، انسانی حقوق کی پامالی اور آئین کی بے توقیری؟ روپے کی ناقدری ملکی معیشت کو ناقابلِ تلافی نقصان پہنچا رہی ہے۔ مریضوں کو ضروری ادویات نہیں مل رہیں، ہسپتالوں میں دوائوں کی کمی کی وجہ سے آپریشنز تک نہیں ہو رہے۔ اب تو انٹرنیشنل میڈیا بھی پاکستان میں ادویات کی کمی کے ایشو کو ہائی لائٹ کر رہا ہے۔
ڈالر کے مہنگا ہونے اور روپے کی قدر کم ہونے کے بہت سے مضمرات ہوتے ہیں۔ امپورٹڈ اشیا مہنگی ہو جاتی ہیں، برآمدات اور درآمدات کا توازن بگڑ جاتا ہے، مہنگائی مزید زیادہ ہو جاتی ہے، ترسیلاتِ زر میں کمی ہو جاتی ہے اور تجارتی خسارہ بڑھ جاتا ہے۔ اب آئندہ مالی سال کا بجٹ بھی خسارے میں ہو گا اور ملک پر قرضوں کا حجم مزید بڑھ جائے گا۔ ڈالر مہنگا ہونے سے مارکیٹ سے ڈالر غائب ہو جاتا ہے۔ جن لوگوں کو بیرونِ ملک سفر کے لیے ڈالر چاہیے ہوتے ہیں ان کو بھی ڈالر نہیں مل رہے۔ کوئی ڈیلر سو ڈالر دے رہا ہے تو کوئی پچاس۔ مسافروں کو اس وجہ سے شدید پریشانی کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ پاکستانی معیشت کا انحصار امپورٹڈ چیزوں پر ہے، جیسے ہی ڈالر کی قیمت اوپر جاتی ہے ان چیزوں کی قیمتیں بڑھ جاتی ہیں۔
جو لوگ پاکستان میں سرمایہ کاری کر رہے ہیں، متزلزل معیشت کی وجہ سے ان کا اعتماد ختم ہو جاتا ہے۔ جب تک ملک میں طویل مدت تک کرنسی استحکام نہیں ہو گا، سرمایہ کار سرمایہ کاری کرنے سے گھبراتے رہیں گے۔ سیاسی عدم استحکام نے روپے کی قدر کو کم کرنے میں اپنا بھرپور کردار ادا کیا ہے، اس سے معیشت کو بھی نقصان پہنچ رہا ہے۔ ڈالر کی قیمت میں اضافے کی وجہ سے بیرونِ ملک ادائیگیوں میں مزید مشکلات سامنے آئیں گی۔ اسحاق ڈار صاحب نے بہت بڑے بڑے دعوے کیے تھے کہ وہ معیشت کو ٹھیک کر دیں گے، ڈالر کو 200 روپے پر لے آئیں گے، مگر ڈالر تین سو روپے پر پہنچ چکا ہے۔ اس وقت ان پر شدید تنقید ہو رہی ہے؛ تاہم حکومت کو تنقید سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔ یہ ''نئی حکومت‘‘ بھی ایک سال پرانی ہو گئی ہے مگر کچھ نہیں بدلا۔ گزشتہ روز جب انٹربینک میں کاروبار کا اختتام ہوا تو ڈالر ایک روپے 81 پیسے سستا ہوا، دس ایرپل کو یہ شرح بلند ترین تھی، اب دیکھتے ہیں کہ آئندہ آنے والے دنوں میں یہ کم ہو گا یا زیادہ‘ عوام بس یہی کر سکتے ہیں کہ پیوستہ رہ شجر سے امیدِ بہار رکھ۔
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved