تحریر : ڈاکٹر منور صابر تاریخ اشاعت     14-04-2023

امام صاحب، بلی اور گواہی

آج کل مذہب کے حوالے سے دو باتوں کا بہت چرچا ہے‘ ایک تو الجزائر کی ایک مسجد کی وہ وڈیو ہے، جو اس وقت دنیا بھر میں وائرل ہے اور جس کی ہر جگہ بہت تعریف کی جا رہی ہے۔ اس وڈیو نے مذہب کی بنیادی اساس یعنی ہر جاندار چیز سے پیار کا عملی مظاہرہ پیش کر کے لوگوں کے دلوں کو موم کر دیا ہے۔ بات ہو رہی ہے نماز پڑھانے والے ایک الجزائری امام صاحب کے کندھوں پر بلی کے چڑھنے کی وڈیو کی۔ یہ عمل یعنی ایک بلی کا نماز پڑھاتے ہوئے امام صاحب کے کندھوں پر چڑھ جانا اور امام صاحب کا بوسہ لینا، محض اتفاق نہیں ہے۔ اس کے پیچھے کم از کم ایک سال کا حسنِ سلوک پوشیدہ ہے۔ آگے چل کر جب اس کی تفصیل بیان کی جائے گی تو آپ کو پوری بات سمجھ آ جائے گی۔ دوسری بات یہ ہے کہ آج کل مذہب کے حوالے سے ایک بات کبھی کھلے لفظوں اور کبھی اشاروں میں لوگ بیان کر رہے ہیں، وہ کچھ اس طرح ہے کہ اب مذہب کے نام پر دھندہ یعنی مال کمانے کا سلسلہ بند ہوتا نظر آ رہا ہے۔ آئیے ان دونوں باتوں کا جائزہ لیتے ہیں۔ مذہب کے نام پر دھندے سے یاد آیا‘ ماہِ رمضان میں کھانے پینے کی چیزوں بالخصوص پھلوں کی قیمتوں میں دو گنا سے بھی زیادہ اضافے کے سلسلے میں اب خاصی کمی آئی ہے۔ یہ سب انتظامیہ کی کارکردگی کی وجہ سے نہیں ہوا بلکہ لوگوں کی جانب سے پھلوں کی خرید میں کمی کے رجحان کی وجہ سے ایسا ممکن ہوا ہے۔ یہ بھی ہو سکتا ہے کہ لوگوں میں اب مہنگے پھل خریدنے کی سکت ہی نہ رہی ہو۔
بلی کی شفقت اور گواہی
ایک بلی نے امامت کرانے والے الجزائر کے ایک امام صاحب کے کندھوں پر چڑھ کر ان کا پیار بھرا بوسہ لیا۔ یہ منظر کیمرے میں قید ہو کر دنیا بھر میں وائرل ہو گیا۔ یہ محض اتفاق نہیں ہو سکتا کیونکہ بلی وہ جانور ہے جو کسی اجنبی کے قریب بھی نہیں جاتی۔ یہ سب آپ کے ساتھ ایک تجربے کی بنیاد پر شیئر کیا جا رہا ہے۔ ایک صاحب اپنے گھر میں چارپائی پر لیٹے ہوئے تھے۔ ایک چھوٹی سی بلی ان کے پاس آئی اور اپنے پچھلے پائوں زمین پر رکھ کر اگلے دونوں پنجے اٹھائے اور ایک پنجہ ان صاحب کے کندھے کے ساتھ لگا کر تھوڑا سا دبایا۔ اس طرح وہ یہ بتانا چاہتی تھی کہ اس کو بھوک لگی ہے۔ وہ صاحب اٹھے اور آدھا کپ دودھ لاکر ایک پلیٹ میں ڈال کر بلی کے سامنے رکھ دیا۔ اس بلونگڑے نے وہ دودھ پی لیا اور اس کے بعد تشکر بھری نگاہوں کے ساتھ ان صاحب کو دیکھا اور ان کے پاس ہی بیٹھ گئی۔ اگلی صبح وہ صاحب دفتر جانے کے لیے گھر سے نکلنے لگے تو وہ بلی کا بچہ ایک بار پھر سوالیہ نگاہوں کے ساتھ ان کے سامنے آن کھڑا ہوا۔ ان صاحب نے ڈبل روٹی کے چھوٹے چھوٹے ٹکڑے اس کے سامنے ڈال دیے اور دفتر چلے گئے۔جب شام کو وہ دفتر سے واپس آئے تو ڈبل روٹی کے ٹکڑے اور بکھرے ہوئے ذرات وہیں پڑے دیکھے جہاں وہ چھوڑ کر گئے تھے۔ مطلب صاف ظاہر تھا کہ بلی کے بچے نے ڈبل روٹی کے وہ ٹکڑے نہیں کھائے تھے۔ ایک اور ایسے ہی تجربے کے بعد ادراک ہوا کہ بلی روٹی کا سوکھا ٹکڑا نہیں کھاتی۔ اس لیے ان صاحب نے اگلی بار دودھ لیا اور اس میں ڈبل روٹی کے ٹکڑے بھگو کر بلی کے سامنے رکھے تو وہ فوراً انہیں کھا گئی۔ ان صاحب کے گھر کے پاس ایک ہوٹل تھا جہاں سے وہ روز اپنے لیے روٹیاں لاتے تھے۔ اب جب بھی وہ ہوٹل جاتے تو بلی کے لیے وہاں سے کچھ ہڈیاں بھی لے آتے۔ یوں وہ بلی اس گھر کے ایک فرد کی حیثیت اختیار کر گئی۔ مشاہدے کے ساتھ ساتھ یہ بھی پتا چلا کہ بلی قضائے حاجت کے بعد اس پر مٹی بھی ڈالتی ہے۔ تقریباً دو ماہ کا عرصہ بیت گیا‘ وہ بلی ان صاحب کے ساتھ اتنی مانوس ہو گئی تھی کہ وہ جہاں بھی بیٹھے ہوتے‘ وہ بھی ان کے پاس آکر بیٹھ جاتی۔ مزید کچھ عرصہ اسی طرح گزر گیا، پھر وہ بلی ان صاحب کے کندھوں پر چڑھ کر بھی بیٹھ جاتی۔ کبھی کبھی وہ ان کے پائوں کی ایڑی پر پیار سے ہلکا سا کاٹ بھی لیتی‘ بالکل اسی طرح جیسے کوئی بچہ پہلی دفعہ دانت نکالنے پر انگلی پر 'دندی‘ کاٹتا ہے۔ اب اس بلی کو اس گھر میں ایک سال سے زیادہ ہو چلا تھا۔ وہ ہر روز گھر کے گیٹ پر بیٹھ کر مالک کا انتظار کرتی۔ سردیاں آتیں تو وہ گھر کے کسی کمرے میں گھس کر‘ کسی صوفے یا بستر پر اور بعض اوقات ان صاحب کے بستر میں پائنتی کی طرف لیٹ کر رات گزار دیتی اور صبح ہوتے ہی دروازہ کھول کر باہر نکل جاتی۔ یہ بات واضح رہے کہ اس پورے عرصے میں ایک بار بھی ایسا نہیں ہوا کہ بلی نے گھر میں کسی قسم کا کوئی گند ڈالا ہو۔ یہ بلی کے شعور اور اس کی وابستگی کا صرف ایک پہلو ہے۔ اس جانور کو خدا نے کتنا شعور یا کتنی عقل دی ہے‘ یہ تفصیلات جان کر انسان دنگ رہ جاتا ہے۔
یہ بلی جب بالغ ہوئی تو اس نے اسی گھر کے اندر پڑے ایک خراب گیزر میں دو بچے دیے۔ اب اس کی توجہ اپنے بچوں پر ہو گئی۔ وہ صاحب بچوں کے تھوڑا بڑا ہونے پر جب ان کو دودھ یا گوشت کے ٹکڑے ڈالتے تو وہ بلی خود کھانے کے بجائے بچوں کے پاس ایک حفاظتی حصار بنا کر یا ان کی محافظ بن کر بیٹھ جاتی۔ ہر طرف نگاہ رکھتی کہ کوئی اور بلی یا پرندہ اس کے بچوں کا کھانا نہ اٹھا کر لے جائے۔ وقت گزرتا گیا اور وہ بچے چھ ماہ میں ہی بڑے ہو گئے۔ بچوں کے بڑے ہونے پر ان صاحب نے جو مشاہدہ کیا‘ اس نے انہیں ہلا کر رکھ دیا۔ ہوا یہ کہ چونکہ اس بلی کے بچے بھی اُسی گھر میں پل بڑھ رہے تھے، لہٰذا وہ بلی اس گھر کو چھوڑ کر چلی گئی۔ اس پر ان صاحب کو تعجب بھری تشویش لاحق ہوئی‘ ایک دن گھر سے باہر جا کر دیکھا تو وہ گھر کے باہر بیٹھی ہوئی تھی۔ ان صاحب نے اسے پچکارنے کے لیے میائوں میائوں کی آواز بھی نکالی مگر بلی گھر آنے پر تیار نہ ہوئی۔ اب ان صاحب نے اس بلی کو وہیں پر کھانے کے لیے کچھ دے دیا۔
قارئین کرام آپ کو اندازہ ہو گیا ہو گا کہ میں اپنا ذاتی تجربہ بیان کر رہا ہوں۔ چونکہ بلی گھر آنے کو تیار نہ تھی‘ اس لیے میں ہر روز یونیورسٹی کے کلب سے کچھ ہڈیاں لے کر آتا۔ جب میں گھر واپس آتا تو وہ میرے ساتھ چلتی لیکن گھر میں نہیں آتی تھی۔ جس کی واحد وجہ یہ تھی کہ اس گھر میں اس کے دو بچے رہ رہے تھے۔ یہ قصہ یہیں پر ختم نہیں ہوتا۔ قریب سال‘ سوا سال بعد وہ بلی دوبارہ ماں بننے والی ہوئی تو واپس گھر میں آ گئی۔ اس نے دوبارہ دو بچے دیے۔ اس کے پہلے دو بچے‘ جو اب تک مکمل جوان ہو چکے تھے‘ اب کی بار وہ گھر چھوڑ گئے۔ اس کا صاف مطلب یہ تھا کہ وہ نئے بچوں کے آنے پر گھر کا حصہ نہیں رہنا چاہتے تھے۔ اب پھر پہلے والی روٹین شروع ہو گئی۔ بلی کے ساتھ ساتھ اس کے دونوں بچے بھی گھر کے باہر ہی آس پاس کہیں گھوم پھر رہے ہوتے۔ ان کے کھانے کے لیے میں کلب سے ہڈیاں باقاعدگی سے لاتا۔ کلب کے ملازموں کو بھی اس صورت حال کا علم ہو چکا تھا۔ وہ گوشت صاف کرنے کے عمل کے دوران باقاعدگی سے ہڈیاں علیحدہ کر تے جاتے اور کسی دن میرے نہ جانے پر وہ خود ہی میرے گھر آکر ہڈیاں پھینک دیتے تھے۔
اس ساری تفصیل کو بیان کرنے کا مقصد یہ ہے کہ جو بلی ان محترم امام صاحب کے کندھوں پر چڑھ کر بیٹھی تھی اور ان کا بوسہ لے رہی تھی‘ یہ محض اتفاق نہیں ہے۔ اس کے پیچھے امام صاحب کا کم از کم ایک سال تک بلی کو کھانا دینے کا وہ حسنِ سلوک پوشیدہ ہے جو وہ اس کے ساتھ روا رکھتے آئے ہیں۔ وگرنہ بلی کسی بھی صورت ان سے اس قدر انسیت کا مظاہرہ نہ کرتی۔
مذہب کے نام پر چلنے والی دکانیں بند
مشرقِ وسطیٰ میں امریکہ کی جگہ چین کے بڑھتے ہوئے اثر و رسوخ کے بعد یہ یقین ہو چلا ہے کہ دنیا بھر‘ بالخصوس بہت سارے مسلم ممالک میں مذہب و دین کے نام پر چلنے والی دکانیں اور دھندے بند ہونے والے ہیں۔ مختصراً یہ کہ امریکہ کی پالیسیوں کی بدولت بہت سی چیزوں کو مذہبیت کا لبادہ پہنایا گیا تھا، اب چونکہ امریکہ کی اپنی حاکمیت خطرے میں ہے لہٰذا یہ دھندے بھی بند ہونے کو ہیں۔ اب کس کس کا دھندہ بند ہو گا‘ اس کا اندازہ آپ خود لگا لیں۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved