فی زمانہ بہت سی باتوں کا بڑا چرچا ہے یا یوں کہیے کہ وہ ٹرینڈ کا درجہ رکھتی ہیں۔ معاشی اور معاشرتی معاملات میں بہت کچھ ایسا ہے جو ہمارے لیے اب ناگزیر حیثیت کا حامل ہوچکا ہے یعنی ہم صرفِ نظر کرنے کی پوزیشن میں ہیں ہی نہیں۔ ٹائم مینجمنٹ کا بھی کچھ ایسا ہی معاملہ ہے۔ شخصیت کے ارتقا سے متعلق موضوعات پر لکھنے اور بولنے والے اس بات پر بہت زور دیتے ہیں کہ انسان سب سے زیادہ اہمیت وقت کو دے اور اُسے ڈھنگ سے بروئے کار لانے پر غیر معمولی توجہ مرکوز کرے۔ ٹائم مینجمنٹ یعنی وقت کا نظم و نسق۔ کیا واقعی ایسا ہے؟ کیا واقعی ہم وقت کو manage کرتے ہیں؟ کیا واقعی ہم وقت کو اِس طور بروئے کار لاتے ہیں کہ وہ ہمارے لیے زیادہ سے زیادہ سُود مند ثابت ہو؟
وقت کا نظم و نسق محض دھوکا ہے۔ ہمارا ذہن اپنے آپ کو دھوکا دے رہا ہوتا ہے۔ وقت وہ اٹل حقیقت ہے جو اس بات سے یکسر بے نیاز ہے کہ اُسے اچھی یا بُری طرح گزارا جائے۔ وقت کا کام ہے گزرنا۔ وہ ہر حال میں گزر جاتا ہے۔ وقت کا نظم و نسق محض ہمارے تصور کا معاملہ ہے، خود وقت کو اِس سے کچھ فرق نہیں پڑتا! جب ہم یہ کہتے ہیں کہ ہم نے وقت کو مینج کرنا سیکھ لیا ہے تو دراصل ہم یہ کہہ رہے ہوتے ہیں کہ ہم نے اپنے آپ کو اس حد تک مینج کرلیا ہے کہ وقت کا ممکنہ بہترین استعمال ہمارے بس کا معاملہ ہوگیا ہے۔
ہر دور کے انسان نے چاہا ہے کہ وقت ضائع نہ ہو۔ لاکھ کوشش کے باوجود وقت ضائع ہوتا ہی ہے۔ اور وقت کا ضیاع انسان کو شدید ذہنی الجھن سے دوچار کرتا ہے۔ اگر حالات ایسے ہوں کہ وقت کا ضیاع روکنا ممکن نہ ہو تو اور بات ہے۔ ایسی حالت میں دل زیادہ نہیں دُکھتا، ذہن زیادہ نہیں الجھتا۔ ہاں‘ اپنی کوتاہی سے وقت ضائع ہو تو انسان شدید ذہنی الجھن محسوس کرتا ہے۔ معاملات ایسا رُخ اختیار کریں کہ انسان وقت کا ضیاع نہ روک پائے تو تھوڑا بہت رو دھوکر دل کو قرار آ ہی جاتا ہے کہ چلیے‘ وقت کا ضیاع ہمارے اپنے ہاتھوں تو واقع نہیں ہوا۔ کوئی بہت بڑی مصیبت آن پڑے تو انسان ایک خاص حد تک ہی دل گیر رہتا ہے۔ یہ سوچنے سے دل کو سُکون ملتا ہے کہ بگاڑ اپنے ہاتھوں پیدا نہیں ہوا تھا۔ ہاں‘ اپنی کوتاہی سے تھوڑا سا بھی وقت ضائع ہو تو دل کی دُکھن کچھ اور ہوتی ہے۔ ایسے میں پچھتاوے کا احساس انسان کو اندر ہی اندر الجھاتا رہتا ہے اور یوں مزید وقت ضائع ہوتا ہے۔
دُنیوی زندگی میں وقت واحد معاملہ ہے جو قطعی اور حتمی ہے یعنی اِس کے کسی بھی پہلو سے چشم پوشی نہیں برتی جاسکتی اور مفر بھی ممکن نہیں۔ وقت کو نظر انداز کرنے کی گنجائش نہیں۔ اگر کوئی ایسا کرتا ہے تو دنیا جلد دیکھ لیتی ہے کہ اُس نے اپنا ہی نقصان کیا ہے۔ انسان کو دستیاب وسائل میں وقت واحد آئٹم ہے جس کی کمی پوری نہیں کی جاسکتی۔ جو وقت ہمیں قدرت کی طرف سے عطا کیا گیا ہے اُس میں کسی بھی اعتبار سے، کسی بھی پہلو سے اضافہ ممکن نہیں۔ ہم چاہیں یا نہ چاہیں، اپنے وقت کا کوٹہ بڑھا نہیں سکتے۔ اگر کسی کے پاس کروڑوں روپے ہوں اور وہ اُن سے محروم ہو جائے تو اِس بات کا امکان موجود رہتا ہے کہ وہ کل کو پھر کروڑوں کا حامل و مالک ہوسکتا ہے۔ دوسرے بہت سے وسائل کے معاملے میں بھی ایسا ہی ہوسکتا ہے۔ شہرت کو داغ لگ جائے تو دھویا جاسکتا ہے۔ عزت ہاتھ سے جاتی رہے تو کل کو واپس لائی جاسکتی ہے۔ وقت کا معاملہ یہ ہے کہ ایک بار گیا تو گیا۔ گیا وقت پھر ہاتھ آتا نہیں۔ انسان صرف سوچتا ہی رہ جاتا ہے۔ وقت کے ضیاع پر زیادہ دل گیر ہونے سے مزید وقت ضائع ہوتا ہے۔ اچھا ہے کہ گزرے ہوئے وقت کو بھول کر اُس وقت کے بارے میں سوچا جائے جو ابھی آپ کی دسترس میں ہے۔
ہر عہد کے انسان نے وقت کو قابو میں کرنے کے نام پر جو کچھ بھی کیا وہ دراصل اپنے آپ کو قابو میں رکھنے کی کوشش کے سوا کچھ نہ تھا۔ آج بھی ایسا ہی ہے۔ آج وقت کا معاملہ غیر معمولی اہمیت اور شدت اختیار کرگیا ہے۔ یوں تو ہر دور میں وقت ہی سب کچھ تھا مگر تب وقت کے ضیاع کی صورت میں بھی تلافی کی تھوڑی بہت گنجائش پیدا ہو ہی جاتی تھی۔ اب ایسا نہیں ہے۔ آج کی دنیا وقت کی شدید ترین کمی سے دوچار ہے۔ کوئی کتنی ہی کوشش کرے، ضائع ہو جانے والے وقت کی تلافی ممکن نہیں ہو پاتی۔ جو وقت ہاتھ سے جاچکا ہے وہ کبھی واپس نہیں آنے گا اور اُس وقت کو ڈھنگ سے بروئے کار لانے کی صورت میں جو کچھ بھی حاصل ہوسکتا تھا اُس کا حصول بھی اب ممکن نہیں بنایا جاسکتا۔ اگر کوئی بھرپور محنت کے ذریعے بہت کچھ حاصل کرے اور یہ سمجھے کہ اُس نے وقت کے ضیاع کی تلافی کرلی ہے تو یہ محض مغالطہ ہے، اور کچھ نہیں، ع
دل کے بہلانے کو غالبؔ! یہ خیال اچھا ہے
ہم ایک ایسی دنیا میں جی رہے ہیں جس میں ہر چیز کی فراوانی ہے، سوائے وقت کے۔ آپ جتنا چاہیں کما سکتے ہیں۔ جتنا چاہیں خرچ کرسکتے ہیں۔ اچھی خاصی دولت ہاتھ سے جاتی رہے تب بھی واپس آسکتی ہے۔ ہر شعبے میں پڑھنے اور سمجھنے کو اتنا کچھ ہے کہ انسان صرف سوچتا ہی رہ جاتا ہے کہ سائبر سپیس میں اپنے آپ کو کس طور زندہ رکھے۔ ڈھائی تین عشروں پہلے تک دنیا اُسی ماڈل کے ساتھ جی رہی تھی جو کم و بیش تین صدیوں سے رُو بہ عمل تھا۔ وقت کے بہترین استعمال کے حوالے سے ذہنیت پروان نہیں چڑھی تھی۔ بہت سے فضول معاملات میں، کسی شعوری کوشش یا خواہش کے بغیر، اچھا خاصا وقت ضائع ہو جاتا تھا۔ انسان محض دیکھتا رہ جاتا تھا اور وقت ہاتھوں سے نکل جاتا تھا۔ ایسا اس لیے ہوتا تھا کہ وسائل کم تھے اور انسان کے لیے بہت سے فضول میں معاملات میں وقت کا ضیاع روکنا ممکن نہ تھا۔ پس ماندہ اور ترقی پذیر معاشروں میں آج بھی ایسا ہی ہے۔ اب اِسی بات کو لیجیے کہ ترقی یافتہ معاشروں نے جدید ترین ٹیکنالوجی کی مدد سے یہ ممکن بنالیا ہے کہ انسان گھر بیٹھے کام کرے اور دفتر جانے اور گھر واپس آنے کی یومیہ مشقت سے محفوظ رہے۔ پاکستان جیسے معاشرے اِس منزل سے آج بھی بہت دور ہیں۔
آج کے انسان کو وقت کے ضیاع سے بچنے میں اچھی خاصی مشقت کرنا پڑتی ہے۔ کامیاب زندگی یقینی بنانے کے لیے بہت چھوٹی عمر سے سکھانا پڑتا ہے کہ وقت ہی سب کچھ ہے۔ وقت کا ضیاع روکنے کے لیے اپنے آپ کو manage کرنے کا فن سیکھنا ہی پڑتا ہے۔ بچوں کو اس معاملے میں اچھی طرح تیار کیا جائے تو عنفوانِ شباب کی منزل پر پہنچنے تک وہ خاصے تیار ہوچکے ہوتے ہیں۔ فی زمانہ بہت سے ادھیڑ عمر افراد اُتنا علم نہیں رکھتے جتنا اٹھارہ‘ انیس سال کا نوجوان رکھتا ہے۔ اب سیکھنے کی رفتار بہت تیز ہے اور نئی نسل اگر متوجہ ہوکر سیکھے تو بیس سے پچیس سال کی عمر اِتنا سیکھ لیتی ہے کہ گزرے ہوئے زمانوں کے لوگوں کو متعدد بار زندگی ملتی تب بھی نہ سیکھ پاتے! وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ علوم و فنون میں پختگی آتی جارہی ہے۔ اس حوالے سے مسابقت بھی غیر معمولی ہے۔ اب کسی بھی انسان کے لیے بھرپور کامیابی بچوں کا کھیل نہیں رہی۔ جدید ترین علوم و فنون میں تو یہ معاملہ قیامت ڈھانے والا ہوگیا ہے۔ تحقیق و ترقی کا شعبہ غیر معمولی رفتار کا حامل ہے۔ جب تک انسان کچھ سیکھتا ہے تب تک مزید بہت کچھ آچکا ہوتا ہے جو سیکھنا ہی ہوتا ہے۔ ہائی ٹیک اور ایسے ہی دوسرے بہت سے شعبوں میں اب مسابقت کے قابل رہنے میں پورا وجود گھسنا پڑتا ہے۔
آج کے انسان کے لیے ناگزیر ہوچکا ہے کہ اپنے آپ کو buziness entity کے روپ میں دیکھے اور اپنے آپ کو برتے بھی اُسی طور جس طور کسی کاروبار یا برانڈ کو برتا جاتا ہے۔ اِس معاملے میں وقت سب سے زیادہ اہم معاملہ ہے۔ ہر شعبے میں مسابقت کی نوعیت ایسی ہے کہ وقت کے ضیاع کا متحمل نہیں ہوا جاسکتا۔ ایسے میں وقت کا ممکنہ بہترین استعمال یقینی بنانے کے لیے لازم ہے کہ اپنے وجود کا نظم و نسق اعلیٰ ترین سطح پر رکھا جائے۔
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved