سیاسی و آئینی بحران اب تصادم میں تبدیل ہوتا دکھائی دے رہا ہے‘ پارلیمنٹ کے اِن کیمرہ اجلاس میں سپہ سالار جنرل عاصم منیر نے حالات کی نزاکت کو دیکھتے ہوئے شاید اسی لیے کہا ہے کہ نئے اور پرانے پاکستان کی بحث کو چھوڑ کر اب ''ہمارے پاکستان‘‘ کی بات کرنی چاہئے۔ موجودہ جمہوری سیٹ اپ پر اطمینان کے اظہار کیلئے آرمی چیف کے یہ الفاظ کافی ہیں کہ عوام کے منتخب نمائندے منزل کا تعین کریں‘ پاک فوج پاکستان کی ترقی اور کامیابی کے سفر میں ان کا بھرپور ساتھ دے گی۔ قومی سلامتی کے اِن کیمرہ اجلاس کی خاص بات یہ ہے کہ نئے آپریشن کے بجائے ہول آف نیشنل اپروچ کے الفاظ استعمال کیے گئے ہیں۔ مطلب یہ کہ نئے نام کے ساتھ آپریشن شروع کرنے کے بجائے انٹیلی جنس بیسڈ ٹارگٹڈ آپریشن ہو گا۔ ہمارے قارئین یاد کر سکیں تو ہم نے اپنے گزشتہ کالم میں دہشتگردی کے خلاف ہونیوالے آپریشنز کی تفصیل لکھتے ہوئے تجویز دی تھی کہ ٹارگٹڈ آپریشن ہی مسئلے کا اصل ہے۔ جمہوریت کے اندر تمام مسائل کا حل موجود ہے مگر اس صورت میں جب اہلِ سیاست ایوان کے اندر بیٹھ کر مسائل کا حل نکالیں‘ تحریک عدم اعتماد کے بعد خان صاحب نے مسلسل یہ تاثر دیا کہ وہ حریف جماعتوں کیساتھ بیٹھنے کیلئے تیار نہیں ‘ انہوں نے جو طرزِ سیاست اپنایا اس سے انہیں بظاہر کوئی فائدہ نہ ہو سکا‘ البتہ ملک سیاسی‘ معاشی اور آئینی بحران کا شکار ہو گیا۔ اس وقت صورتحال یہ ہے کہ طویل مذاکرات اور کڑی شرائط کو پورا کرنے کے بعد پاکستان آئی ایم ایف پیکیج کے حصول کے قریب ہے کیونکہ عالمی مالیاتی ادارے نے دوست ممالک سے تین ارب ڈالر کی فنانسنگ کی ضمانت مانگی تھی‘ دو ارب ڈالر سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات نے ایک ارب ڈالر دینے کی تصدیق کر دی ہے۔ اس یقین دہانی کے بعد آئی ایم ایف پیکیج کا حصول ممکن ہو پائے گا۔غالب امکان ہے آئی ایم ایف پیکیج کے بعد معاشی حالات میں بہتری آئے گی مگر دوسری طرف ملک میں سیاسی انارکی کم ہونے کا نام نہیں لے رہی ہے۔اربابِ حل و عقد نے اپنی روش نہ بدلی تو ہم کبھی بھی مسائل کے گرداب سے نہیں نکل پائیں گے۔
چیئرمین تحریک انصاف عمران خان لچک کا مظاہرہ کرنے کیلئے تیار نہیں ۔نوے روز میں الیکشن کے انعقاد کو وہ تمام مسائل کا حل سمجھ رہے ہیں‘ اس کے علاوہ آئین میں کیا لکھا ہے وہ اس پر بات کرنے کو تیار ہیں اور نہ سمجھنے کیلئے آمادہ ہیں۔ خان صاحب کو ایسی اسٹیبلشمنٹ چاہئے جو ان کیساتھ کھڑی ہو۔ پچھلے کچھ عرصہ سے مقتدر قوتیں سیاسی معاملات سے غیر جانبدار ہوئی ہیں تو خان صاحب کو یہ ہضم نہیں ہو رہا۔ وہ تواتر سے اسٹیبلشمنٹ کی حمایت حاصل کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ انتخابات کا انعقاد قومی نوعیت کا مسئلہ ہے‘ ریاست کے وسائل و مسائل کو نظر انداز کر کے الیکشن کا کوئی فائدہ نہیں۔خان صاحب مگر یہ بات سمجھنے سے قاصر ہیں۔انہوں نے عدالتوں سے رجوع کیا‘ اعلیٰ عدلیہ نے انتخابات کے معاملے پر ازخود نوٹس لیا‘ چودہ مئی کو پنجاب میں انتخابات کرانے کا فیصلہ موجود ہے‘ چونکہ فنڈز حکومت نے مہیا کرنے ہیں اس لئے جب تک فنڈز کی فراہمی یقینی نہیں بن جاتی الیکشن کا انعقاد عملی طور پر مشکل رہے گا۔ پارلیمنٹ نے مشترکہ طور پر فنڈز اجرا کے مطالبے کو مسترد کر دیا ہے۔ سپریم کورٹ کے تین رکنی بینچ نے گورنر سٹیٹ بینک کو حکم صادر کیا ہے کہ وہ الیکشن کمیشن کو براہِ راست 21 ارب روپے کے فنڈز جاری کرے۔ سٹیٹ بینک حکام نے عدالت کو بتایا کہ پیر تک فنڈز منتقل کیے جا سکتے ہیں‘ اس پر حکم دیا گیا کہ فوری منتقل کیے جائیں تاکہ الیکشن کمیشن انتخابی عمل کیلئے استعمال کر سکے‘ لیکن 17 اپریل تک سٹیٹ بینک کو مہلت مل گئی ہے۔ وزیر داخلہ رانا ثنا اللہ کہتے ہیں کہ اگر الیکشن کمیشن کو فنڈز پہنچ بھی گئے تو کوئی فائدہ نہیں ہو گا‘ ان کا اشارہ شاید اس طرف ہے کہ جب الیکشن کا انعقاد نہیں ہو گا تو الیکشن کمیشن فنڈز کو کہاں خرچ کرے گا۔اس سے قبل سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر بل کی منظوری کے خلاف عدالتِ عظمیٰ کے آٹھ رکنی بینچ نے مذکورہ ایکٹ پر عملدرآمد سے روک دیا ہے۔ سپریم کورٹ کے جج صاحبان نے فیصلے میں قرار دیا ہے کہ سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ عدلیہ کی آزادی اور اندرونی معاملات میں مداخلت ہے۔ فیصلے میں کہا گیا ہے کہ صدرِ مملکت ایکٹ پر دستخط کریں یا نہ کریں‘ دونوں صورتوں میں یہ تاحکم ثانی نافذ العمل نہیں ہو گا۔ سپریم کورٹ فیصلے کے ردِعمل میں اتحادی جماعتوں نے مشترکہ بیان میں سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر بل پر عمل روکنے کو مسترد کیا۔ اتحادی جماعتوں کا مؤقف ہے کہ قانون سازی پارلیمنٹ کا استحقاق ہے‘ مقننہ سے یہ حق چھینا نہیں جا سکتا۔ سپریم کورٹ کے معزز جج صاحبان نے جس ایکٹ پر شدید ردِعمل دیا ہے‘ یہ بہت پرانا مطالبہ ہے جو 12 اکتوبر 2019ء کو لاہور میں منعقدہ آل پاکستان وکلا کنونشن میں منظور کردہ قرار داد کی صورت سامنے آیا تھا‘ یہی وجہ ہے کہ پاکستان بار کونسل کے رہنماؤں نے کہا ہے کہ وکلا برادری سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر بل کو نافذ کرنے سے روکنے کی کوشش کے خلاف مزاحمت کرے گی۔ یوں دیکھا جائے تو چیف جسٹس آف پاکستان کے اختیارات میں اصلاحات کا مطالبہ نیا نہیں ‘ نہ ہی یہ اتحادی حکومت کا مطالبہ ہے ‘ہاں دیرینہ مطالبے پر عمل کی کوشش اب ہو رہی ہے۔ سپریم کورٹ کے آٹھ رکنی بینچ کے حکم نامے کے خلاف قومی اسمبلی میں ایک قرار داد منظور کی گئی‘ جس میں کہا گیا کہ یہ ایوان پارلیمان کے قانون سازی کا مسلمہ دستوری اختیار سلب کرنے کی سپریم کورٹ کی کوشش کو مسترد کرتا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ آئین میں ریاست کے اختیارات مقننہ‘ انتظامیہ اور عدلیہ میں منقسم ہیں‘ کوئی ادارہ دوسرے کے امور میں مداخلت کا مجاز نہیں مگر مقننہ کو شکوہ ہے کہ اس کے معاملات میں مداخلت کی جا رہی ہے۔ مقننہ اور عدلیہ کا ایک دوسرے سے شکوہ دیرینہ معاملہ ہے‘ تاہم اس بار مختلف یہ ہے کہ دونوں جانب سے قانون کی بالادستی کا دعویٰ کیا جا رہا ہے۔ سپریم کورٹ کے ججز آئین کے محافظ ہیں‘ مگرانہیں برادرز ججز کی حمایت حاصل نہیں جبکہ دوسری طرف حکومتی سیاسی جماعتیں یکساں مؤقف کی حامل ہیں‘ اس دوران سابق صدر آصف زرداری کا انٹرویو بہت اہمیت رکھتا ہے‘ اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ سیاسی جماعتیں اپنے مؤقف سے پیچھے ہٹنے کیلئے تیار نہیں بھلے انہیں اس کی سیاسی قیمت ہی کیوں نہ چکانی پڑے۔ان سطور کی تحریر کے وقت وفاقی کابینہ کا اجلاس طلب کیا گیا ہے جس میں فنڈز کے اجرا اور سپریم کورٹ کی جانب سے سٹیٹ بینک کو براہِ راست فنڈز کے اجرا کا حکم دینے کا جائزہ لیا جائے گا۔ اس اجلاس میں ہونے والے فیصلوں کا موجودہ حالات پر گہرے اثرات مرتب ہوں گے‘ تاہم قومی سلامتی کے اجلاس کے بعد بظاہر حکومت کے مؤقف کو تقویت ملی ہے۔ دیکھنا یہ ہے کہ سیاسی بحران سے نجات کا کیا راستہ نکلتا ہے اور کسے کیا قیمت چکانی پڑتی ہے۔
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved