جمہوریت کا پہلا اصول یہ ہے کہ اصل طاقت عوام کی ہے جو ہمارے حکمرانوں کو منتقل ہوتی ہے‘لیکن ہمارے رہبر اس طاقت کو ایک دوسرے کے خلاف استعمال کر رہے ہیں۔ اس وقت لڑائی اس بات کی ہے کہ سب سے برتر کون ہے؟ اور کون اپنی انا کی بقا سلامت رکھنے میں کامیاب ہوتا ہے۔ آرمی چیف جنرل عاصم منیر بھی یہی سمجھتے ہیں کہ عوام ہی اصل طاقت کا سرچشمہ ہیں۔وزیراعظم شہباز شریف کی زیر صدارت قومی اسمبلی کے ان کیمرا سیشن میں آرمی چیف نے اسی حوالے سے گفتگو کی۔آرمی چیف نے اِس بات پر زور دیا کہ طاقت کا محور عوام ہیں‘ آئین کہتا ہے اختیار عوام کے منتخب نمائندوں کے ذریعے استعمال ہوگا۔ ہمیں نئے اور پرانے پاکستان کی بحث کو چھوڑ کر ''ہمارے پاکستان‘‘ کی بات کرنی چاہیے۔عوام کے منتخب نمائندے منزل کا تعین کریں‘پاک فوج پاکستان کی ترقی اور کامیابی کے سفر میں ان کا بھرپور ساتھ دے گی۔ اگر آرمی چیف کے خطاب کا نچوڑ نکالا جائے تو اس کا مطلب یہ بنتا ہے کہ سیاستدانوں کو ایک دوسرے پر الزام تراشی چھوڑ کر عوام کا سوچنا ہوگااور نئے اورپرانے پاکستان کے طعنوں سے نکل کر سیاست کرنا ہوگی۔ آرمی چیف کا پارلیمنٹ میں آنا اور خطاب کرنا یقینی طور پر اس بات کا پتہ دیتا ہے کہ وہ جمہوریت کے ساتھ کھڑے ہیں اور ہر سیاسی قوت کے ساتھ مل کر کام کرنے کیلئے تیار ہیں لیکن سیاستدان ساتھ بیٹھنے کو تیار نہیں۔ سپریم کورٹ اور پارلیمنٹ میں الگ سے اس وقت طبلِ جنگ بج چکا ہے۔ملک کے دو بڑے ادارے آمنے سامنے ہیں۔ سپریم کورٹ جو حکم دیتی ہے حکومت پارلیمنٹ کے ذریعے اس کو مسترد کر دیتی ہے۔سارا جھگڑا‘ ساری لڑائی پنجاب الیکشن کے حوالے سے ہوئی‘ پھر ہم نے دیکھا کہ یہ تقسیم ‘یہ کشیدگی صرف سیاستدانوں تک محدود نہیں رہی بلکہ عدلیہ بھی اس کی لپیٹ میں آ چکی ہے۔ملک کی اعلیٰ ترین عدالت کے اندر تقسیم کو دیکھ کر سوشل میڈیا پر یہ خبر بھی پھیلی کہ چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس عمر عطا بندیال اور قاضی فائز عیسی کاجھگڑا ہوا ہے‘ یہ خبر اتنی پھیلی کہ ترجمان سپریم کورٹ کو اس کی تردید جاری کرنا پڑی کہ سوشل میڈیا کے مختلف پلیٹ فارمز پر جھوٹی خبریں پھیلائی جا رہی ہیں۔ یعنی تصادم کا عالم دیکھئے کہ کوئی بھی افواہ اڑائی جاتی ہے تو وہ حقیقت کا روپ دھار لیتی ہے۔ تصادم کے ساتھ ساتھ بے یقینی اور عدم اعتماد کی شدت نے بھی ڈیرے ڈال رکھے ہیں۔ حکومت نے پنجاب میں 14 مئی کو انتخابات کروانے کے سپریم کورٹ کے آرڈر کو ہوا میں اڑادیا ہے اور دوسری جانب سپریم کورٹ نے بھی اس کا سختی سے نوٹس لیا ہے اور عدالت عظمیٰ نے سٹیٹ بینک آف پاکستان کو 21 ارب روپے کے فنڈز جاری کرنے کا حکم دیا ہے لیکن موجودہ حالات میں یہ کیسے ہوسکتا ہے کہ سپریم کورٹ کوئی حکم دے اور حکومت اس پر مزاحمت نہ کرے۔حکومت کی جانب سے اٹارنی جنرل نے سپریم کورٹ کو جواب دیتے ہوئے یہ عذر تراشا ہے کہ کیونکہ وفاقی حکومت نے سپریم کورٹ کے 4 اپریل کے حکم پر عملدرآمد کیا ہے‘ سپریم کورٹ کے حکم پر فیڈرل کنسولیڈیٹڈ فنڈز سے رقم کے لیے بل پارلیمنٹ میں پیش کیا‘لیکن پارلیمنٹ نے انتخابات کے لیے فیڈرل کنسولیڈیٹڈ فنڈز کے اجرا کے بل کو مسترد کیااور یوں پارلیمنٹ سے بل مسترد ہونے کے بعد حکومت سٹیٹ بینک کو فنڈز کے اجرا کا نہیں کہہ سکتی ‘یعنی حکومت نے ہاتھ کھڑے کردیے ہیں‘ جس کے جواب میں سپریم کورٹ نے پنجاب انتخابات کیس کی سماعت کا حکم نامہ جاری کرتے ہوئے کہا کہ سٹیٹ بینک کے مطابق 21 ارب سوموار تک جاری کیے جا سکتے ہیں۔حکم نامے میں کہا گیا کہ سٹیٹ بینک اور وزارتِ خزانہ 18 اپریل تک فنڈز جاری کرنے سے متعلق رپورٹ پیش کریں۔دوسری جانب وزیر داخلہ رانا ثنا اللہ کہتے ہیں کہ الیکشن کمیشن کو پیسے مل بھی گئے تو صفر رزلٹ ہوگا‘رانا صاحب کی بات کا مطلب یہ ہے کہ پھر دیگر متعلقہ ادارے الیکشن کمیشن کے ساتھ تعاون نہیں کریں گے۔ آصف علی زرداری نے بھی کہا ہے کہ وہ الیکشن چاہتے ہیں لیکن اس کے لیے سب کا اتفاقِ رائے ہونا ضروری ہے۔الیکشن ایک وقت میں ہونے چاہئیں جس میں سب کو کھل کر کھیلنے کا موقع ملے۔ زرداری صاحب مفاہمت کی بات کر رہے ہیں جو کہ اچھی بات ہے لیکن ان کے اتحادی مزاحمت سے پیچھے ہٹنے کو تیار نہیں۔اب آپ سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر بل کے معاملے کو دیکھ لیں اس پر بھی حکومت اور سپریم کورٹ آمنے سامنے ہیں۔ اب اس بل کو پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس سے منظور کروالیا گیا ہے اور 10 روز کے اندر یہ بل صدر کے دستخط کے بغیر بھی قانون بن جائے گا‘لیکن اس سے پہلے ہی اس بل پر چیف جسٹس کی سربراہی میں 8 رکنی لارجر بینچ تشکیل دیا گیااور پھر اس بینچ نے چیف جسٹس آف پاکستان کے اختیارات کو کم کرنے سے متعلق اس بل پر تاحکم ثانی عمل درآمد سے روک دیا۔سپریم کورٹ کا اپنے حکم میں کہنا ہے کہ پریکٹس اینڈ پروسیجر بل 2023ء کی صدرِ مملکت کی جانب سے منظوری کے بعد یا دوسری صورت میں اس کے ایکٹ بننے کی صورت میں یہ مؤثر نہیں ہوگا‘ نہ ہی کسی بھی طرح سے اس پر عمل کیا جائے گا۔سپریم کورٹ کا یہ فیصلہ آتے ہی حکومت نے بھی بھرپور جواب دیا‘ حکمران اتحاد نے میڈیا ٹاک کرتے ہوئے بینچ کے اس فیصلے کو متنازع قرار دیتے ہوئے مسترد کردیا ہے۔ پھر قومی اسمبلی نے 8 رکنی بینچ کے خلاف قرار داد بھی منظور کرلی ہے‘ صرف یہی نہیں چیف جسٹس سمیت بینچ میں شامل تمام جج صاحبان کے خلاف جوڈیشل کمیشن میں ریفرنس بھی دائر کردیا گیا ہے۔حکومت کا مؤقف ہے کہ ایک ایسا بل جس نے ابھی قانون کی شکل بھی اختیار نہیں کی اور نہ ہی ابھی نافذ ہوا ہے‘ لیکن ایک متنازع اور یک طرفہ بینچ بنا کر اس کو جنم لینے سے ہی روک دیا گیا ہے۔ دوسری جانب حکومت مخالف حلقوں کا یہ خیال ہے کہ اگر سپریم کورٹ مداخلت نہ بھی کرتی تو تب بھی یہ قانون منظور ہو ہی جاتا اور اس کے بعد بھی سپریم کورٹ نے ایکشن لینا تھا‘ لہٰذا اگر سپریم کورٹ نے پہلے ایکشن لے لیا ہے تو اس میں کوئی حرج والی بات نہیں۔ غیر جانبدار حلقوں کے مطابق کہ اگر آٹھ رکنی بینچ اتنی جلدی نہ دکھاتا اور اس میں دو سے تین اور سینئر ججز کو شامل کرلیا جاتا تو شاید حکومت کو بات کرنے کا موقع نہ ملتا۔ اب تو حکومت کو بھی اپنی غلطیاں‘ اپنے بلنڈرز نظر آنے لگے ہیں‘ وفاقی وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ نے اس کا برملا اعتراف بھی کیا ہے۔اعظم نذیر تارڑ کہتے ہیں کہ دو جونیئر ججز کو سپریم کورٹ لے کے جانا میری سب سے بڑی غلطی تھی۔ اس حوالے سے صرف یہی عرض کیا جا سکتا ہے کہ اب پچھتانے کا کیا فائدہ؟ واقفانِ حال کے مطابق اعظم نذیر تارڑ نے ہی حکومت کو چیف جسٹس کی مرضی کے مطابق ججز لگانے پر منایا کیونکہ تارڑ صاحب کا یہ خیال تھا کہ حکومت کو چیف جسٹس سے بگاڑنی نہیں چاہیے۔جب اس وقت وزیر قانون نے اپنے مفاد کا ہی سوچا تو پھر اب انہیں پچھتانا نہیں چاہیے۔ میں سمجھتا ہوں کہ اگر سیاستدان اپنی اپنی انا کے حصار سے نکل کر اس ملک اور عوام کا سوچیں اور آرمی چیف کی اس بات کو پلے باندھ لیں کہ نیا پرانا نہیں صرف ''ہمارا پاکستان‘‘ تو یقین مانیے کہ بات بات پر ڈیڈلاک‘ اختلافات اور تصادم جنم نہیں لیں گے اور ہمیں امید کی ایسی کرن دکھائی دے گی جس کے پیچھے چلتے ہوئے ہم منزل حاصل کرلیں گے۔
اس راستے کی تلاش کیلئے مذاکرات ضروری ہیں۔ پیپلزپارٹی اس حوالے سے ماحول بنا رہی ہے اور اس نے اپنا تین رکنی پینل بھی ترتیب دے دیا ہے جو پہلے (ن) لیگ اور جے یو آئی کو عمران خان سے مذاکرات کیلئے راضی کرے گا اور پھر عمران خان کو قائل کیا جائے گا۔ سیاسی تجزیہ کاروں کے مطابق تمام سیاسی جماعتوں کو اختلافات بھلا کر مل بیٹھنے اور ایک ہونے کی ضرورت ہے‘ صرف اسی صورت میں ریاستی ادارے مضبوط ہوں گے اور ہم سب کا پاکستان بنے گا۔
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved