تحریر : اسلم اعوان تاریخ اشاعت     16-04-2023

امریکہ عالمی تنہائی کی طرف بڑھ رہا ہے ؟

یوکرین جنگ کو کم وبیش 450 دن ہونے کو آئے لیکن اب کی بار امریکی اسٹیبلشمنٹ اس طرح روس کو تنہا نہ کر سکی جیسے افغانستان میں جارحیت کے بعد سوویت یونین کو دنیا سے الگ تھلگ کر دیا گیا تھا۔تب چین سمیت جنوبی ایشیا اور مڈل ایسٹ کے اکثر ملک روس کی مخالفت پہ کمربستہ نظر آئے لیکن اس وقت چین کے علاوہ شام‘ ایران اورکئی دیگر اقوام یا تو روس کی حامی ہیں یا پھر غیر جانبدار؛ چنانچہ یوکرین جنگ رفتہ رفتہ یورپ کے معاشی‘ سیاسی اور سماجی نظام میں گہرائی تک اتر رہی ہے۔ایک سابق برطانوی فوجی جارڈن گیٹلی کی یوکرین کی مشرقی شہر ڈونٹسک کے محاذ پر موت کے علاوہ کیف اور ماسکو نے ایک پریشان کن ویڈیو کی الگ الگ تحقیقات کا اعلان کیا جس میں ایک یوکرینی فوجی کا سر قلم کرتے ہوئے دکھایا گیا۔خیال کیا جاتا ہے کہ اسے روس سے تعلق رکھنے والے ویگنر گروپ کے کرائے کے فوجیوں نے فلمایا۔یہ اور اس طرح کے کئی اور واقعات اس جنگ کے سماجی اثرات کی بھیانک منظرکشی کرتے ہیں۔یوکرین جنگ بارے خفیہ امریکی دستاویزات کی مبینہ لیک بھی اس امر کی غماز ہے کہ امریکی بتدریج اپنے اتحادیوں کی حمایت کھو رہے ہیں۔ یہ دستاویزات ڈپلومیسی کی ناکامی اور اتحادیوں میں باہمی اعتماد کے فقدان کی طرف اشارہ کرتی ہیں۔ ایف بی آئی نے خفیہ ملٹری انٹیلی جنس دستاویزات کے آن لائن لیک کرنے کے الزام میں21 سالہ جیک ٹیکسیرا کو گرفتار کرلیاجس کے ذریعے افشا ہونے والی فائلوں سے پتہ چلتا ہے کہ امریکہ اقوام متحدہ کے سربراہ انتونیو گوتریس کی بھی نگرانی کر رہا ہے کیونکہ اس کا خیال ہے کہ وہ یوکرین پر حملہ کرنے کے بعد روس سے نرمی برت رہے تھے۔دستاویزات سے گوتریس اور ان کے نائب کے درمیان نجی مواصلات کا ریکارڈ سامنے آیا‘ جس میں بحیرۂ اسود کے اناج کی برآمدی معاہدے پر توجہ مرکوز تھی۔لیک ہونے والے کاغذات کے مطابق‘ اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل روسی مفادات کو برقرار رکھنے کے لیے بے چین نظر آئے۔بی بی سی کے مطابق‘ افشا ہونے والی امریکی دستاویز میں کہا گیا ''گوتریس نے روسی برآمدات کی صلاحیت کو بہتر بنانے کی کوششوں پر زور دیا۔امر واقعہ یہ تھا کہ یوکرین اور روس نے جولائی میں جن برآمدی معاہدات پر دستخط کئے‘ان میں جنگ کے دوران بحیرۂ اسود کے پار اناج‘ کھاد اور دیگر زرعی سامان کی برآمد کی اجازت دینے کا عہد شامل تھا‘گوتریس اور ترک صدر رجب طیب اردوان نے ان مذاکرات میں ثالثی کی‘ جس کے بارے میں ان کا کہنا تھا کہ خوراک کے عالمی بحران کو کم کرنے میں مدد ملے گی۔لیک ہونے والی دستاویز میں الزام لگایا گیا کہ فروری میں ہونے والی بات چیت کے دوران گوتریس یوکرین میں ماسکو کو اس کے اقدامات کی بابت جوابدہ ٹھہرانے کی وسیع تر کوششوں کو کمزور کر رہے تھے۔فروری کے وسط کی ایک اور امریکی دستاویز میں کہا گیا کہ گوتریس نے یورپی کمیشن کی صدر ارسولا وان ڈیر لیین کے ساتھ کال کے بعد مایوسی کا اظہار کیا‘ جس میں انہوں نے کہا تھا کہ یورپی یونین یوکرین کے لیے اپنے ہتھیاروں اور گولہ بارود کی پیداوار میں اضافہ کرنا چاہتی ہے۔ رپورٹ پر تبصرہ کرتے ہوئے گوتریس کے ترجمان نے کہا کہ وہ اس حقیقت سے حیران نہیں کہ لوگ جاسوسی کرکے ان کی نجی گفتگو سنتے رہے‘ حیرت اس بات پہ ہے کہ اسے خرابی یا نااہلی کہیں کہ اس طرح کی نجی گفتگو کو مسخ کرکے عوام تک پہنچنے کی اجازت دی گئی۔ ترجمان کے ردِعمل سے ظاہر ہوتا ہے کہ ان حساس معلومات کی لیک بھی وکی لیک کی طرح ایسی پیش دستی ہے جسے عام کرکے اتحادیوں کو پیغام دیا گیا۔ان لیکس کے ذریعے منکشف یوکرین جنگ کی حساس معلومات کی تاحال تصدیق نہیں ہوسکی لیکن امریکی عہدیداروں نے تسلیم کیا ہے کہ کچھ دستاویزات میں نقب لگائی گئی۔
گزشتہ ہفتے روسی سوشل میڈیا پر بڑے پیمانے پر گردش کرنے والی انہی خفیہ فائلوں کے افشا کے بعدسی آئی اے‘ این ایس اے اور یو ایس ڈیفنس انٹیلی جنس ایجنسی کو ان رپورٹس کی تردید کرنے کے علاوہ لیک کے ماخذ تک پہنچنے کیلئے تحقیقات شروع کرنا پڑیں۔یہ رپورٹیں امریکہ کے مشرق وسطیٰ کے دو اتحادیوں ‘مصر اور متحدہ عرب امارات کیلئے بھی شرمندگی کا باعث بنیں۔مصر نے واشنگٹن پوسٹ کی اس رپورٹ کو مسترد کر دیاجس میں 17 فروری کی لیک ہونے والی ایک دستاویز کا حوالہ دے کر کہا گیا کہ اس نے روس کو 40ہزار راکٹ‘ بارود اور توپ خانے کے گولے فراہم کرنے کا خفیہ معاہدہ کیا۔دستاویز کے مطابق سیسی نے حکام کو ہدایت کی ہے کہ وہ مغرب کے ساتھ مسائل سے بچنے کیلئے راکٹوں کی پیداوار اور ترسیل کو خفیہ رکھیں۔ایک اور لیک شدہ دستاویز متحدہ عرب امارات بارے ہے‘ جس میں کہا گیا کہ ابوظہبی نے روس کے ساتھ تعاون کیلئے امریکہ اور برطانیہ کی خفیہ معلومات کو لیک کرنے پر اتفاق کیا۔دستاویز میں کہا گیاکہ متحدہ عرب امارات ممکنہ طور پر روسی انٹیلی جنس کے ساتھ مصروفیت کو ابوظہبی اور ماسکو کے درمیان بڑھتے ہوئے تعلقات کو مضبوط بنانے اور انٹیلی جنس شراکت داری کو متنوع بنانے کیلئے ایک موقع کے طور پر دیکھتا ہے جس سے خطے کو امریکی غلبے سے نجات دلانے کا احساس جھلکتا ہے۔متحدہ عرب امارات نے کہا‘ روسی انٹیلی جنس کے ساتھ تعلقات بڑھا نے کا الزام غلط ہے۔
ان دستاویزات کے افشا سے پتہ چلتا ہے کہ یوکرین کی پشت پناہی کرنے والے مغربی اتحاد کیلئے اب یہ سوال اہمیت اختیار کر گیا ہے کہ یوکرین جنگ جیت سکتا ہے؟ زیادہ تشویشناک بات یہ ہے کہ کچھ افشا ہونے والی دستاویزات سے واضح ہے کہ کیف اپنی متوقع موسم بہار کی جوابی کارروائی میں کامیابی نہیں پا سکے گا‘اس کا فضائی دفاع کمزور ہے۔حالانکہ 11 اپریل کو امریکی وزیر خارجہ انٹونی بلنکن کے ساتھ ٹیلی فون کال کے بعدیوکرین کے وزیر خارجہ دیمیٹرو کولیبا نے ٹویٹ کیا تھا کہ بلنکن نے امریکہ کی فولادی حمایت کی تصدیق کرتے ہوئے میدانِ جنگ میں جیتنے کی یوکرین کی صلاحیت پر شکوک کو سختی سے مسترد کیا۔نیویارک ٹائمز کی رپورٹ میں لیک ہونے والی دستاویز کا حوالہ دیا گیا‘ جس میں یہ پیشگوئی شامل تھی کہ یوکرین کے سوویت دور کے فضائی دفاعی نظام کے لیے گولہ بارود کا ذخیرہ جلد ہی ختم ہو جائے گا‘ جس سے ملک کے اندرونی حصوں کو بدترین فضائی حملے کا سامنا کرنا پڑے گا اور یوکرین کے سوویت دور کے S-300 اورBuk missile system کے ذخیرے‘ جو زیادہ تر لڑاکا طیاروں اور کچھ بمبار طیاروں کے ساتھ یوکرین کے تحفظ کا 89 فیصد ہیں‘ اپریل کے وسط تک مکمل طور پر ختم ہو جائیں گے۔یوکرین کا کہنا ہے کہ وہ اس وقت روس کی طرف سے فائر کئے گئے 75 فیصد میزائلوں کو مار گرانے کی سکت رکھتا ہے اور وہ اتحادیوں کو اس بات پر قائل کرنے کی کوشش کر رہا ہے کہ فضائی دفاع کو مضبوط بنانے کیلئے F-16طیارے بھیجیں۔
دستاویزات میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ یوکرین کوایک لاکھ 24ہزار سے ایک لاکھ 31 ہزارکے درمیان ہلاکتوں اور زخمیوں کا سامنا کرنا پڑا جو اس کی سرکاری ہلاکتوں کی تعداد سے پانچ گنا زیادہ ہے۔یوکرین ملٹری انٹیلی جنس کے ترجمان آندری یوسوف نے کہا کہ یہ رپورٹس غلط ہیں۔ آندری یوسوف نے کہا کہ روس باخموت میں ''تھک گیا‘‘جنگ کی سب سے خونریز لڑائیاں مشرقی شہر باخموت میں جاری رہیں‘ روس نے وہاں ہر روز درجنوں زمینی حملے کئے۔یوکرین کی زمینی افواج کے کمانڈر اولیکسینڈر سیرسکی نے کہا کہ باخموت کے محافظوں نے''ویگنرائٹس کو تھکا دیا‘‘ اس لیے دشمن اب باخموت کی لڑائیوں میں خصوصی افواج اور فضائی حملہ کرنے والے یونٹس شامل کرنے پر مجبور ہے۔انہوں نے کہا کہ روسی افواج کو نام نہاد شامی جھلسی ہوئی زمین کی حکمت عملی تبدیل کرنا پڑی‘ جس کے تحت وہ فضائی حملوں اور توپ خانے سے عمارتوں اور مقامات کو تباہ کرتا رہا ۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved