زنا کاری انتہائی گھنائونا جرم اور بدترین معاشرتی برائی ہے ۔تمام الہامی کتابوں اور مقدس صحیفوں میں اس برائی کی شدید انداز میں مذمت کی گئی ہے اور قرآن مجید اس حوالے سے سابقہ تمام صحیفوں سے آگے نکل گیا ہے۔ سورہ بنی اسرائیل کی آیت نمبر 32میں اللہ تعالیٰ نے ان راستوں پر چلنے سے بھی منع کردیا جو زنا کے قریب لے کر جاتے ہیں ۔ زنا کا ری کی روک تھام کے لیے قرآن وسنت نے نہایت احسن انداز سے مسلمانوں کی راہنمائی کی ہے۔ بلوغت کے فوراًبعدنکاح کی ترغیب دی گئی تاکہ ہر بالغ مرد اور عورت اپنی آبرو کے تحفظ کو یقینی بنا سکے۔سورہ نور کی آیت نمبر 32میںاللہ تعالیٰ نے اس امر کوبھی واضح فرمادیا کہ جو تنگ دستی میں نکاح کرے گا اللہ تعالیٰ اس کو اپنے فضل سے غنی کردے گا ۔صنفی بد امنی کو روکنے کے لیے اللہ تعالیٰ نے صحت مند اور صاحبِ حیثیت مسلمانوں کو ایک سے زائد نکاح کرنے کی بھی اجازت دی ہے ۔ پروردگارِ عالم نے انسانی معاشروں کو بے راہ روی سے بچانے کے لیے سورہ نور اور سورہ احزاب میں بڑی وضاحت اور تفصیل کے ساتھ احکاماتِ حجاب کو بیان فرمادیا ۔نگاہوں اور عصمتوں کی حفاظت کے احکامات کے ساتھ ساتھ غیر مردوں سے پردہ کرنے کی تلقین کا مقصد عورت کی آبرو کے تحفظ کے سوا کچھ نہ تھا ۔رسول اللہ ﷺ نے تاکنے جھانکنے کو ناپسندیدہ عمل قرار دیا اور اللہ تعالیٰ نے سورہ نور کی آیت نمبر 19میں فحاشی کی نشر واشاعت اور ترویج میں دلچسپی لینے پر دنیا اور آخرت کے عذاب کی وعید سنائی ہے ۔ معاشرے کی تطہیر کے لیے دیے جانے والے احکامات پر ہی اکتفا ء نہیں کیا گیا بلکہ ان تمام اصول و ضوابط کے ہوتے ہوئے بھی اگر کو ئی انسانیت اور اخلاقیات کی حدود کو پامال کر کے درندگی پر آمادہ رہے تو ایسے عناصر کی بیخ کنی کے لیے سخت سزائوں کو بھی اسلامی قوانین کا حصہ بنا دیا گیا ۔ اللہ تعالیٰ نے سورہ نور کی آیت نمبر 02میں زانی اور زانیہ کے لیے 100کوڑوں کی حد کو مقرر فرمادیا ۔رسول اللہ ﷺ نے اس عمومی سزا کو غیر شادی شدہ زانی کی سزا قرار دیا اور شادی شدہ زانی کے لیے سنگسار کی سزا کو مقرر فرمایا ۔ اللہ تعالیٰ نے معاشرے میں افواہوں کی روک تھا م کے لیے 100کوڑوں کی سزا کو چار گواہوں کے ساتھ مشروط فرمادیا اور اگر کوئی چار گواہوں کی عدم موجود گی میں کسی مسلمان عورت کو بد نام کرنے کی کوشش کرے تو ایسے شرپسند کے لیے قذف کی حد یعنی 80کوڑوں کی سزا کو مقرر فرمادیا ۔ شوہراور بیوی کے نازک تعلق کی وجہ سے چار گواہوں کی شرط میں تخفیف کی گئی چنانچہ اگر کوئی شوہر اپنی بیوی کو بدکاری کرتے ہوئے پائے تو اس سے چار قَسموں کا تقاضا کیا گیا ہے کہ وہ چار مرتبہ قسم اٹھائے کہ وہ اپنے بیان میں سچا ہے اور ساتھ ہی شوہر کو پابند کیا گیا کہ وہ پانچویں قسم اٹھائے کہ اگر وہ اپنی بیوی پر جھوٹا الزام لگا رہا ہو تو اس پر اللہ کی لعنت ہو۔ شوہر کے اس سنگین الزام اور الزام کی توثیق کے لیے پانچ قسمیں کھانے کے باوجود بیوی کو سزا کا مستحق نہیں ٹھہرایا گیا بلکہ اس کو اپنے دفاع کا پورا حق دیا گیا ہے کہ اگر وہ مجرم نہیں ہے تو چار قسمیں اٹھاکے یہ بات کہے کہ اس کا شوہر اس پر جھوٹا الزام لگا رہا ہے اور پانچویں قسم اٹھائے کہ اگر اس کے شوہر کا الزام سچا ہو تو اس پر اللہ کا غضب ہو۔اگر دونوںفریق قسمیں اٹھالیتے ہیں تو ایسی صور ت میں شوہر اور بیوی کو ہمیشہ کے لیے جدا کر دیا جائے گااور معاملہ کو اللہ پہ چھوڑ دیا جائے گا ۔ان تعلیمات کا بنیادی مقصد عورت کی عزت و آبرو کا تحفظ ہے تاکہ کوئی شخص خواہ وہ عورت کا اپنا شوہر ہی کیوں نہ ہووہ عورت کو بدنام نہ کرسکے ۔ چار گواہوں کے علاوہ اعترافِ جرم کی صورت میں بھی مجرم سزا کا مستحق ٹھہرے گا ۔نبی ﷺ کے عہدِ مبارک میں جناب ماعز بن مالک اسلمی اور حضرت شبیبہ غامدیہ نے خود اپنے آپ کو رجم کی سزا کے لیے پیش کیا تھا ۔ چھوٹے بچے اور بچیوں سے بد کاری کے مرتکب افراد کو زنا کی عمومی سزا سے بڑھ کر سزا دی جاسکتی ہے‘ اس لیے کہ زنا کے عمومی جرم کے بر عکس اس جرم میں انتہا درجے کی وحشت اور بربریت پائی جاتی ہے اور اس قسم کے سانحے کے نتیجے میں پورا معاشرہ غیر معمولی صدمے سے دوچار ہوجاتا ہے ۔اپنے منفی اثرات کی وجہ سے اس قسم کے جرائم کئی مرتبہ فساد فی الارض کے باب میں بھی آجاتے ہیں۔ زنا کے مقدمات میں کئی مرتبہ اور خصوصاً ان مقدمات میں جن میں شقاوت کا نشانہ بننے والے کم سن بچے ہوں چار گواہوں کی دستیابی تقریباً نا ممکن ہوجاتی ہے ۔اسلامی حدود پر تنقید کرنے والے اس موقعہ کا فائدہ اٹھاتے ہوئے اسلامی قوانین کا استہزا کرتے ہیں کہ اگر چار گواہ میسر نہ آئیں تو مجرم کو سزا نہیں مل سکتی۔ ایسے ناقدین کے اعتراض کا جواب یہ ہے کہ یقیناً زنا کی حد کے قیا م کے لیے تو چار گواہ ہونے ضروری ہیں لیکن تعزیری سزا کے لیے چار گواہ ہونے قطعاً ضروری نہیں بلکہ اس کے لیے واقعاتی شہادت بھی کافی ہے ۔ اس قسم کے جرائم میں واقعاتی شہادت حجت بن سکتی ہے۔ اس کا ثبوت قرآن مجید میں مذکور یوسف علیہ السلا م کا واقعہ ہے کہ جب ان پر برائی کی تہمت لگائی گئی تھی تو اللہ تعالیٰ نے ایک بچے کو قوت گویائی عطا فرمادی تھی ۔ بچے نے حل تجویز کیا کہ اگر جناب یوسف علیہ السلام کی قمیص آگے سے پھٹی ہوتو الزام سچا ہے اور اگر قمیص پیچھے سے پھٹی ہوتو جناب یوسف علیہ السلام سچے ہیں ۔جب آپ کی قمیص کو دیکھا گیا تو وہ پیچھے سے پھٹی ہوئی تھی ۔اس واقعاتی شہادت سے آپ کی بے گناہی ثابت ہوگئی۔ اگر واقعاتی شہادتوں کے ذریعے کہ جن میں عصرِ حاضر میں جدید حیاتیاتی تحقیقات بھی شامل ہیں کسی کا جرم ثابت ہوجائے تو دو امکانات باقی رہتے ہیں کہ مجرم یا تو اعترافِ جرم کرے گا یا جرم کی صحت سے انکا ر کرے گا۔ اعترافِ جرم کی صورت میں مجر م پر زنا کی حد لگائی جا سکتی ہے اور جرم کی صحت سے انکار کی صورت میں جج اپنے صوابدیدی اختیارات کو استعمال کرتے ہوئے مجرم کو کڑی سے کڑی تعزیری سزا سناسکتا ہے جو اس قسم کے جرم کی صورت میں سزائے موت بھی ہوسکتی ہے ۔ جب سے پانچ سالہ معصوم بچی درندوں کی شقاوت کا نشانہ بنی ہے‘ ریاست کا ہر فرد مضطرب ہے ۔حاکم ِریاست باپ کی مانند ہوتا ہے۔ اگر کسی ریاست میں ہر روز اوسطاً 3بیٹیوں کی عزت لٹتی ہو تو پھر ایسی ریاست کو’’ یتیم یا لاوارث‘‘ ہی قرار دیا جاسکتا ہے۔ معصوم بچی کے ساتھ ہونے والے ظلم سے جہاں ہر فرد متاثر ہوا ہے وہیں پرراقم الحروف کے جذبات بھی بری طرح مجروح ہوئے ہیں ۔اگرچہ الفاظ ان مجروح جذبات کی کلی ترجمانی نہیں کرسکتے لیکن ان جذبات کا جزوی اظہار میں نے اس سانحے پر لکھی جانے والی اپنی نظم میں کچھ یوں کیاہے ۔ عصمت کے تاجروں کا کیسا ہے یہ بیوپار عزت کو بیٹیوں کی کرتے ہیں تار تار معصوم سی کلی کو مسلا ہے باربار انساں نہیںتھے یارو! درندے تھے خونخوار عزت کو لوٹ کر جو مجرم ہوئے فرار ندامت کے آنسوئوں سے آنکھیں ہیں اشکبار زخمی ہوا جگر ہے، دل بھی ہے بے قرار اعصاب مضمحل ہیں، روح بھی ہے زیرِ بار حاکم ہمارے کرتے ہیں کاروبار حوّا کی بیٹی کی عزت ہے تار تار کہاں سے ملے گا ہم کو کھویا ہوا وقار بہنوں کی عزتوں کے محافظ تھے جاں نثار دیبل کے ساحلوں سے نکلی تھی جب پکار بھیجا گیا عرب سے ایک لشکر جرار جو داخل ہو ئے مسلماں چِت ہوگئے کفار خزاں چھٹ گئی تھی یارو! آئی تھی پھر بہار ابنِ قاسم کہاں ملے گا رعایا ہے گناہگار حکومت کی بے بسی پہ سارے ہیں شرمسار قوم کے لبوں پہ صدا ہے یہ پر وقار حاکم گھرو ں سے نکلیں کریں مجرم کو گرفتار کوڑے لگائیں ان کو ،پشتوں پہ بار بار چہرے سیاہ کرکے، کریں ان کو بے وقار پتھر اٹھا کے ماریں، کریں ان کو سنگسار ظہیر موت کو یہ ترسیں، ہوں اتنے ذلیل و خوار
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved