تحریر : عندلیب عباس تاریخ اشاعت     16-04-2023

حقیقت بے نقاب ہوتی ہے

'لیکن اتنا تو ہوا کچھ لوگ پہچانے گئے‘ یہ مصرع خاطر غزنوی کی ایک مشہور غزل کا ہے جس کا مفہوم یہ ہے کہ جب کوئی اپنا یا قریبی آپ کو دھوکا دیتا ہے تو کم از کم آپ سچے اور جھوٹے کا فرق تو سمجھ لیتے ہیں۔ اس وقت ملک عزیز سے متعلق بری خبریں ہی سننے میں آرہی ہیں۔ معیشت نے گراوٹ کے تمام ریکارڈ توڑ ڈالے ہیں۔ مفت آٹے کے لیے عورتیں اور بچے بھیڑ میں کچلے جارہے ہیں۔ پارلیمنٹ کیا کررہی ہے؟ قومی اسمبلی کی واحد سیاسی اور فکری کاوش عمران خان کو برا بھلا کہنا اور مجرموں کو بری کرنے اور عدلیہ کے اختیارات کم کرنے کے لیے قانون سازی کرنا؟ آٹو انڈسٹری بند ہو چکی ہے۔ ٹیکسٹائل کی صنعت کے لاکھوں ملازمین ملازمت سے نکالے جا چکے ہیں۔ جرائم بڑھ رہے ہیں۔ ڈاکا زنی عام ہے۔ اس وقت ہر طرف مایوسی اور تباہی کا دور دورہ ہے۔ ایک اچھی چیز البتہ یہ ہوئی کہ آزمائش کی اس گھڑی میں ہر سیاست دان‘ پیشہ ور ماہر‘ دانشور اور تجزیہ کار بے نقاب ہوگیا۔ انہوں نے عشروں سے عزت‘ وقار‘ راست بازی اور خلوص کے نقاب چڑھا رکھے تھے۔ ذرا اُس شخص کے وہ مناظر یاد کریں جو آئین کے لیے عشروں سے آنسو بہاتا دکھائی دیتا تھا۔ جب سینیٹر رضا ربانی سے ایک رپورٹر نے 90دنوں میں انتخابات کرانے کی آئینی شق کی پامالی پر استفسار کیا تو وہ خاموشی اور تیزی سے وہاں سے رخصت ہو لیے۔
یہ وہ دنیا ہے جہاں لوگ آپ کو آپ سے بھی زیادہ جانتے ہیں۔ مصنوعی ذہانت نے اس امکان کوکئی گنا بڑھا دیا ہے۔ آپ کیا ہیں‘ آپ نے کیا کہا تھا‘ کسے کہا تھا‘ کیا کیا تھا‘ کس سے ملے تھے‘ یہ سب کچھChat GPT میں نہایت درستی سے پیش کر دیا جاتا ہے۔ اس نے نجی زندگی کے لیے بلا شبہ چیلنج کھڑے کردیے ہیں۔ جس دوران پرانی نسل معلومات کی رفتار اور گہرائی سے متحیر ہے‘ نوجوان اس کا بھرپور فائدہ اٹھا رہے ہیں۔ سمارٹ فون اور سمارٹ بچوں نے عوام کو بے وقو ف بنائے رکھنا ناممکن بنا دیا ہے۔ جب بھی آپ کچھ کہتے ہیں‘ چند لمحوں کے اندر اس کی تصدیق کر لی جاتی ہے‘ اس کا موزانہ ہو جاتا ہے‘ اس کے تضادات بے نقاب ہو جاتے ہیں۔ آج زبانی جمع خرچ سے کام نہیں چلتا۔ یہی وجہ ہے کہ بڑے بڑے نام آج اپنی تابانی کھو رہے ہیں۔ طاقتوروں کا اختیار تحلیل ہوتا جا رہا ہے۔ روایتی ذہانت کھوکھلی اور سطحی ثابت ہو رہی ہے۔ آئیے دیکھتے ہیں کہ آج آزاد علم کی دنیا نے کیسے کیسے ناموں‘ شہرتوں اور کھیلوں کو بے نقاب کردیا ہے۔
1۔ کامیابی جو دراصل ناکامی تھی: زبردست وار‘ ہوا کے ایک جھونکے نے اڑا کر رکھ دیا‘ سب صفایا کردیا۔ اصلیت سامنے رکھتے ہوئے کیا سبق سکھایا ہے۔ 9اپریل 2022ء کو عدم اعتماد کے ووٹ کے بعد کچھ اس طرح کے جملے سننے میں آئے۔ باجوہ صاحب کا خیال تھا کہ انہوں نے ''خطرناک ‘‘ بنتے جانے والے شخص کی حکومت کو کامیابی سے تبدیل کرا دیا ہے۔ ہاں وہ خطرناک تھا لیکن کرپٹ اور اقتدار کے بھوکے افراد کے لیے۔ ہاں وہ پی ڈی ایم کی کابینہ کے لیے خطرناک تھا جس میں سے ساٹھ فیصد پر بدعنوانی کے مقدمات تھے۔ ہاں وہ اقتدار کے رسیا اُن لوگوں کے لیے خطرناک تھا جو ہر قیمت پر طاقت اپنی مٹھی میں رکھنا چاہتے ہیں۔ ہاں وہ ان تمام نام نہاد دانشوروں کے لیے خطرناک تھا جو اُس جھوٹے بیانیے کے سہولت کار تھے جو بدعنوان حکومت ان کے ذریعے پھیلانا چاہتی ہے۔ تحریک انصاف کی حکومت کی ایک ہموار طریقے سے برطرفی کو ایک بڑی کامیابی قرار دیا گیا لیکن یہ خوش گوار عرصہ بہت مختصر مدت کا تھا۔ معمولی ردِعمل کی توقع کرنے والے رات گئے تک سڑکوں پر پاکستانی عوام کا ہجوم دیکھ کر دنگ رہ گئے۔ اب بھی ایک سوچ تھی کہ یہ ختم ہو جائے گا لیکن ایسا نہ ہوا۔ یہ ہر لحاظ سے ان کی شکست بن گئی۔ حکومت اپنی اقتدار کی کھلی خواہش کو چھپانے میں ناکام رہی۔ آج اپنی نااہلی کی پردہ پوشی مشکل ہورہی ہے۔ قانون کی حکمرانی سے بالاتر ہونے کے اپنے اصل رنگ کو چھپانے میں ناکامی روزِ روشن کی طرح عیاں ہے۔ غیر ملکی سہولت کاروں کا آسرا نہیں رہا۔ افسوس‘ اب یہ عوام اور پی ڈی ایم کے سہولت کاروں کے درمیان میچ ہے۔ یہ بذاتِ خود ایک بہت بڑی ناکامی ہے۔
2۔ محض طاقت کی بساط کے مہرے: ''ووٹ کو عزت دو‘‘ کا بیانہ دھول بن کر اڑ گیا۔ اس بیانیے کی بنیاد مقتدرہ مخالف موقف تھا۔ پہلے سیاسی جماعتیں باری باری مقتدرہ مخالف بنتی تھیں۔ اس بار ان میں سے تمام 13جماعتیں ان ووٹوں سے براہِ راست مستفید ہوئی ہیں جو ایم کیو ایم اور بی اے پی وغیرہ جیسی جماعتوں نے حکومت کی تبدیلی کے لیے دیے تھے۔ اس کے بعد ایک سابق اعلیٰ افسر کے انٹرویوز اور الیکشن کے انعقاد میں رکاوٹیں پیدا کرنے کے لیے موجودہ حکومت کے لیت و لعل نے تمام نقاب اتار دیے ہیں۔ اصلیت کا اس طرح ظاہر ہو جانا چونکا دینے والا ہے۔ نامعلوم واضح ہوتا جارہا ہے۔ جو کبھی پردے کے پیچھے تھا‘ اب وہ ظاہر ہو چکا۔ نگران حکومت کام ضرور کر رہی ہے لیکن الیکشن کے بجائے حکومت اور ان کے سہولت کاروں کے کہنے پر مظالم ڈھا رہی ہے۔ لڑکے‘ عورتیں‘ بچے اغوا ہو جاتے ہیں۔ انہیں سبق سکھا کر واپس بھیج دیا جاتا ہے۔ یہ طریقہ کار اس قدر عام ہو گیا ہے کہ اغوا ہونے والوں سے جبراً لیے جانے والے تمام بیانات بے معنی ہو کر رہ گئے ہیں بلکہ اس طرح مزید عوامی غیظ و غضب کو دعوت دی جاتی ہے۔
3۔ دانشور جو محض مراعات کے طلبگار تھے: کئی دہائیوں سے حکومت اور معیشت میں ہونے والی تبدیلیوں کی اعلیٰ لکھاریوں کی حمایت سے اچھی اور بری منظر کشی کی جاتی رہی۔ یہ الفاظ کے ساتھ کھیلنے والے بیانیہ ساز معیشت میں ایک چھوٹی سی تبدیلی کو تباہ کن اور بڑی خامیوں کو نہ ہونے کے برابر بنا سکتے ہیں۔ یہ واضح ہے کہ وہ اس وقت کھیل رہے تھے جب دنیا پاکستان کے بہترین کورونا مینجمنٹ کی تعریف کر رہی تھی کیونکہ پاکستان نے متاثر کن اقتصادی ترقی کے ساتھ خطے میں سب سے پہلے معمول کی زندگی کی طرف واپسی کی تھی۔ یہ تجزیہ کار اور تھنک ٹینک کنسلٹنٹس پاکستان کے لیے یومِ قیامت کی تصویر کشی میں مصروف تھے۔ آج ان سب کی اصلیت ظاہر ہو گئی ہے۔ من گھڑت بیک گراؤنڈ میوزک کے بغیر ان کے جعلی بیانیے کا دھڑن تختہ ہوگیا ہے۔ ان میں سے کچھ پی ڈی ایم کے مشیر بن گئے اور کچھ ریاستی اداروں کے سربراہ۔ موجودہ تاریخی مہنگائی اور معاشی بدحالی کا جواز دینے پر عوام نے ان کے سابقہ اور موجودہ بیانات کا فرق کھول کر سامنے رکھ دیا۔ سب سے پرانا انگریزی روزنامہ حال ہی میں اس وقت مزید بے نقاب ہوا جب ایک امریکی صحافی نے واشنگٹن ڈی سی میں اس کے بیورو چیف کے بارے میں ٹویٹ کیا کہ وہ اس کے ساتھ پی ڈی ایم بیانیہ شیئر کر رہا ہے۔

حکومت سے بے دخل ہونا ایک دھچکا ہے۔ سفاک قانونی ہتھکنڈوں اور جسمانی تشدد کے رحم و کرم پر ہونا افسوسناک ہے۔ آپ کو محدود کرنے‘ دبانے حتیٰ کہ مارنے کے لیے نشانہ بنانا حیران کن ہے لیکن آپ کی عزت اور ساکھ سے محروم کردینا سب سے بڑا ظلم ہے۔ یہ انفرادی روابط کا دور ہے۔ پیشہ ورانہ طور پر الگ کر دینا سفاکانہ ردِعمل ہے لیکن کل کے ممنوع موضوعات پر آج بات ہو رہی ہے۔ آج سب آزاد ہیں۔ ماسک اتر رہے ہیں۔ پہلی بار تمام بڑے سٹیک ہولڈرز کے بارے میں بلاورک ٹوک بات ہورہی ہے۔

حقیقت کا اخلاقی سبق: اصل نقصان یہ نہیں کہ کسی کو توسیع نہیں ملی‘ کوئی وزارت سے محروم رہا یا ترقی نہ مل پائی بلکہ اصل نقصان چہرے‘ کردار اور آزادی کو کھونے کا ہے۔ یہ حقیقت ہے کہ آپ اپنے ملک اور اپنے ہی گھر میں قید ہیں۔ دوسرے ملکوں میں چھپ کر رہنا‘ مسلسل اپنے دائیں بائیں نظر رکھنا‘ نعروں سے ڈرنا‘ کسی ناراض شخص کی جانب سے جوتا اچھال دیے جانے‘ پہچانے جانے کے خوف سے ریستورانوں میں گھبرا کر کھانا کھانا ذہنی قید کی کیفیت ہے۔ کوئی طاقت‘ عہدہ‘ پیسہ‘ روابط آپ کو اس قید سے آزاد نہیں کر سکتے۔ عزت اور اعتبار کے اس نقصان کی کوئی تلافی نہیں ہے۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved