تحریر : جاوید حفیظ تاریخ اشاعت     17-04-2023

پاک ہند مصالحت جو ہوتے ہوتے رہ گئی

پچھلے دنوں چین کی سرپرستی میں سعودی عرب اور ایران کے مابین مصالحت کا آغاز ہوا تو ہمارے ہاں بھی لوگوں نے کہنا شروع کر دیا کہ چین یہی رول انڈیا اور پاکستان کے درمیان بھی ادا کرنے کی پوزیشن میں ہے۔ ہمارا ایک مسئلہ یہ بھی ہے کہ ہر کوئی بین الاقوامی امور کا ایکسپرٹ ہے حالانکہ انٹرنیشنل افیئرز کے بارے میں ان کی آگہی سطحی قسم کی ہوتی ہے‘ لہٰذا غلط قسم کی امیدوں اور لاحاصل خواہشوں کا اظہار کرتے رہتے ہیں۔ نقصان یہ ہوتا ہے کہ قارئین اور سامعین بھی یقین کر لیتے ہیں کہ ایسا ہونا ممکن ہے۔
انڈیا نے ہمیشہ برصغیر کے معاملات میں بیرونی ثالثی کو مسترد کیا ہے‘ اس کی تازہ ترین مثال صدر ٹرمپ کی 2020ء میں ثالثی کی آفر تھی جسے انڈیا نے فوراً مسترد کر دیا تھا۔ وجہ یہ ہے کہ انڈیا اپنے آپ کو اس خطے کا پردھان سمجھتا ہے اور اس رول میں کسی اور ملک کو دیکھنا اس کی بنیادی سوچ کی نفی ہے اور چین کو ثالث ماننے کا تو یہ مطلب ہوگا کہ چین انڈیا سے زیادہ اہم ملک ہے اور زیادہ امن پسند ہے‘ لہٰذا صاف ظاہر ہے کہ انڈین میڈیا میں ایسی انہونی بات کا کیوں ذکر نہیں ہوا۔
انڈیا اور پاکستان کے تعلقات کی تاریخ میں جنگیں ہیں‘ غلط فہمیاں اور پرلے درجے کا عدم اعتماد ہے۔ مودی سرکار کے آنے کے بعد نفرتوں میں مزید اضافہ ہوا ہے لیکن اس سے پہلے چند سال ایسے بھی آئے جب صلح کیلئے سنجیدہ کوششیں ہوئیں اور دونوں جانب سے ہوئیں یہ دور 2004ء میں شروع ہوا اور 2007ء میں ختم ہوا۔ انڈین وزیراعظم ڈاکٹر منموہن سنگھ کے پاکستان کے دورے کی تیاریاں مکمل تھیں‘چکوال میں ان کے گاؤں گاہ کے باسی بے تابی سے سردار جی کا انتظار کر رہے تھے۔ اُن میں وہ بزرگ بھی شامل تھے جو ڈاکٹر صاحب کے سکول فیلو رہے تھے اور انہیں اب بھی موہنا کے نام سے یاد کرتے تھے‘ لیکن جب لبِ بام دو چار ہاتھ ہی دور تھا تو کمند ٹوٹ گئی۔
دونوں ہمسایہ ممالک کے درمیان آج کل مکمل سرد مہری ہے۔ ا نڈیا نے ایک حالیہ بیان میں کہا ہے کہ ان کا اسلام آباد سفیر بھیجنے کا کوئی ارادہ نہیں جبکہ پاکستان فارن آفس کے ایک افسر نے میڈیا کو بتایا کہ جب تک کشمیر کی صورتحال میں کوئی واضح بہتری نہیں آتی‘ سفارتی تعلقات نارمل نہیں ہوں گے۔ موجودہ صورتحال دونوں ممالک کیلئے اچھی نہیں مگر یوں لگتا ہے کہ پاکستان کو آنکھیں دکھانے والی پالیسی سے مودی کی ریٹنگ بڑھتی ہے‘اسی طرح پاکستان کی ہر حکومت موجودہ صورتحال میں انڈیا کی طرف دوستی کا ہاتھ بڑھانے کو سیاسی غلطی سمجھتی ہے۔ زیادہ عرصہ نہیں گزرا ہمارے ایک آرمی چیف نے انڈیا کے ساتھ حالات بہتر بنانے کی خواہش کا اظہار کیا تھا لیکن پی ٹی آئی حکومت کو اس جانب راغب نہ کر سکے۔ موجودہ کولیشن حکومت تو کوئی بڑا قدم اٹھانے کی پوزیشن میں ہی نہیں۔اس کالم کا مقصد انڈیا میں حال ہی میں شائع ہونے والی ایک کتاب کا ذکر کرنا بھی ہے جو دونوں ملکوں کے مابین 2004-07ء میں ہونے والی امن اور مصالحت کی کوششوں کا احاطہ کرتی ہے۔ کتاب پاکستان میں انڈیا کے سابق ہائی کمشنر ستندر لامبا نے لکھی تھی جن کا چند ماہ پہلے انتقال ہوا۔ ان کی وفات کے بعد ان کی بیوہ نےIn Pursuit of Peace یعنی ''امن کی تلاش میں‘‘ شائع کرائی ہے اور کتاب کی رونمائی حال ہی میں نئی دہلی میں ہوئی ہے۔
لامبا فیملی کا تعلق پشاور سے تھا اور ستندر دو مرتبہ اسلام آباد میں پوسٹ ہوئے‘ اس کے علاوہ انڈین فارن آفس میں بھی پاکستان ڈیسک پر کام کیا۔ ریٹائر ہونے کے بعد انڈین گورنمنٹ نے انہیں پاکستان کے ساتھ ڈائیلاگ کیلئے چنا تھا۔ اس ڈائیلاگ کا آغاز 2004ء میں ہوا اور اس کا محور پرویزمشرف کا چار نکاتی کشمیر فارمولا تھا۔اس پلان کے مطابق دونوں ممالک نے کشمیر سے بتدریج فوج کا انخلا کرنا تھا۔ کشمیر میں بارڈر پر ٹرانزٹ پوائنٹ بنانا تھے جہاں سے لوگ تجارت اور دیگر اغراض کیلئے آ جا سکیں۔ کشمیر کے دونوں حصوں کو مکمل انتظامی اٹانومی ملنا تھی مگر آزادی نہیں‘ اس سارے بندوبست کو سپروائز کرنے کی ذمہ داری انڈیا‘ پاکستان اور کشمیریوں نے مشترکہ طور پر ادا کرنا تھی۔ مذاکرات کا آغاز 2004ء میں ٹریک ٹو سفارت کاری سے ہوا۔ پاکستان کی نمائندگی سابق سیکرٹری خارجہ شہر یار خان کر رہے تھے جبکہ انڈین وفد کے سربراہ مسٹر ڈکشٹ تھے۔ بات چلتی رہی بعد میں پاکستان کی طرف سے ریاض محمد خان متعین ہوئے اور انڈین نمائندگی ستندر لامبا کو دی گئی۔ ڈاکٹر منموہن سنگھ اور مسٹر لامبا دونوں کی خواہش تھی کہ ان کا تاریخ میں نام برصغیر میں امن سازوں کی فہرست میں شامل ہو۔ لامبا نے اپنی کتاب میں لکھا ہے کہ امن مذاکرات میں سرکریک اور سیاچن کے مسئلے حل ہونے کے قریب تھے‘ تجارت کھولنے اور سیاحت کی بھی باتیں ہو رہی تھیں۔کتاب سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ ڈاکٹر منموہن سنگھ اور جنرل مشرف تو امن اور مصالحت کے حامی تھے مگر دونوں جانب سخت رویوں کے حامل لوگ بھی تھے۔ ستندر لامبا کے بقول‘ جنرل کیانی مشرف کے چار نکاتی کشمیر پلان کو سپورٹ نہیں کر رہے تھے۔
انڈیا کی موجودہ پاکستان پالیسی یہ ہے کہ ملک سیاسی طور پر غیر مستحکم ہے‘ لہٰذا کیوں نا نئے سیٹ اَپ کا انتظار کرلیا ہے۔ بی جے پی کے کئی نیتا یہ بھی سوچ رہے ہیں کہ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ پاکستان اقتصادی طور پر کمزور ہو رہا ہے‘ لہٰذا بات چیت میں جلدی ضروری نہیں۔ انڈیا کا یہ بھی استدلال رہا ہے کہ پاکستان میں ایک سے زائد پاور سنٹر ہیں تو پھر کس سے بات کی جائے؟ زیرِ بحث کتاب میں ستندر لامبا کے دلائل واضح طور پر پاکستان سے بات چیت جاری رکھنے کے حق میں ہیں۔ پاکستان اتنا چھوٹا ہمسایہ ملک نہیں جسے اگنور کیا جا سکے۔ ویسے زیرِ بحث کتاب کی حالیہ رونمائی تقریب میں بھی ایسے ہی خیالات کی بازگشت سنائی دی۔ اس تقریب میں راجہ موہن‘ جی پارتھا سارتھی‘ شیوشنکر مینن‘ شریمتی نینا لامبا‘ ٹی سی اے راگھوان اورشرت سبھروال شریک تھے۔ شنید ہے کہ سامعین کی شرکت بھی بھرپور تھی۔ مقررین میں اکثر وہ ہائی کمشنر بھی تھے جو پاکستان میں پوسٹ رہے۔ اکثر کا کہنا تھا کہ دونوں ممالک کو سفارتی تعلقات کا لیول نارمل کرنا چاہئے۔ مسٹر سبھروال کا کہنا تھا کہ انہیں (لامباکو) اس بات کا احساس تھا کہ ایک ہمسایہ ملک جوا یٹمی قوت بھی ہے‘ کے ساتھ گفتگو نہ کرنا کوئی آپشن نہیں۔
میں خود انڈیا کے ساتھ اچھے ورکنگ تعلقات کا حامی ہوں۔ آنے والی موسمی تبدیلیاں‘ دریاؤں کا بہاؤ‘ بارڈر کے دونوں جانب سموگ اس بات کا تقاضا کرتی ہیں کہ بات چیت جاری رہے۔ ٹورازم کی بحالی سے دونوں جانب ٹرانسپورٹ اور ہوٹل انڈسٹری کو فائدہ ہوگا۔ یہ کہاں کی دانش مندی ہے کہ دونوں ممالک ایک ارب ڈالر کی تجارت دبئی کے راستے کریں‘ اگر یہی ٹریڈ براہ راست ہو تو نہ صرف تجارت کا حجم بڑھے گا بلکہ اشیا کی قیمتیں بھی کم ہوں گی۔ اور یہ بات بھی مسلمہ ہے کہ جب تجارت بڑھتی ہے تو امن کو فروغ ملتا ہے۔ لیکن پھر وہی مقولہ یاد آتا ہے کہ تالی دو ہاتھوں سے بجتی ہے۔
آئیے موضوع کی طرف واپس لوٹتے ہیں‘ اپریل 2007ء میں ڈاکٹر منموہن سنگھ کی پاکستان آمد کی تیاریاں زور شور سے جاری تھیں۔ وزیراعظم شوکت عزیز بہت مصروف تھے۔ مشرف اس لیے خوش تھے کہ ان کا پیش کردہ چار نکاتی پلان پایۂ تکمیل کو پہنچنے والا تھا۔ مگر وزیراعظم شوکت عزیز کی مصروفیت کی ایک اور وجہ بھی تھی‘ وہ چیف جسٹس افتخار چودھری کے خلاف ریفرنس تیار کروا رہے تھے۔ چیف جسٹس کو راولپنڈی بلا کر باوردی صدر کے سامنے پیش کیا گیا۔ اُس کے بعد جو ہوا اسے دہرانے کی چنداں ضرورت نہیں۔ وکلا موومنٹ شروع ہو گئی تو انڈین لیڈر شپ نے سوچا کہ پاکستان کے ساتھ مصالحت کا کوئی معاہدہ سائن کرنے کا یہ مناسب وقت نہیں۔ گو کہ مشرف کے بعد آنے والی پیپلز پارٹی حکومت انڈیا کیلئے نرم گوشہ رکھتی تھی لیکن 2008 ء کے آخر میں ممبئی میں دہشت گردی ہوئی اور انڈیا پاکستان مصالحت کی رہی سہی امیدیں دم توڑ گئیں۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved