آنکھوں میں چھلکتے آنسو، چہرے پر درد کے آثار اور بھرّائی ہوئی آواز کے ساتھ یہ لوگ کسی معصوم بچی کے ساتھ زیادتی کا تذکرہ کرتے ہوئے پورے کے پورے پاکستانی معاشرے کو گالی بنا دیتے ہیں۔ کوئی کہتا ہے ہمیں ڈوب مرنا چاہیے، ہم اس قابل نہیں کہ مسلمانوں والے نام رکھیں۔ ہم ایک مردہ اور بے حس قوم بن چکے ہیں۔ لیکن جب کوئی ان سے فحاشی اور عریانی پر پابندی لگانے کی بات کرے تو ان کی آنکھوں میں خون اُتر آتا ہے۔ کیا یہ لوگ ہمیں سکھائیں گے کہ کیا دکھانا ہے اور کیا نہیں دکھانا؟ ہم خود اپنا ضابطۂ اخلاق بنائیں گے۔ کوئی حکومت، سپریم کورٹ یا اخلاق کے چند اجارہ دار ہمیں ڈِکٹیشن نہیں دے سکتے۔ یہ ا سلام کے ٹھیکیدار اپنی مرضی کی شریعت نافذ کرنا چاہتے ہیں، اپنی مرضی کا ماحول ہم پر ٹھونسنا چاہتے ہیں۔ یہ اکیسویں صدی ہے، میڈیا کی آزادی کا دور ہے۔ تم ہمیں نہیں سکھا سکتے۔ ہم عوام کو سکھائیں گے کہ کیسا لباس پہننا ہے ، کیسی زبان استعمال کرنی ہے… اور گھروالوں کے سامنے ٹانگیں پھیلا کر کیسے کہناہے کہ فلاں پائوڈر‘ فلاں کریم نے مجھے جاذبِ نظر بنا دیا ہے، کیسے مختصر ترین لباس میں تھرکنا ہے اور کس طرح اخلاق باختہ ڈراموں اور سوشل شوز کے ذریعے ایک نئی اخلاقیات کو جنم دینا ہے۔ میڈیا کے ساتھ ساتھ انٹرنیٹ کے ذریعے اس ملک پر فحاشی اور عریانی کا سیلاب اُمڈا ہوا ہے۔ آپ حیران ہوں گے یہ سن کر کہ اس سیلاب کے خلاف گزشتہ 13سال میں‘ جب سے یہ میڈیا آزاد ہوا ہے‘ ان لوگوں کو ایک فیصد سے بھی کم وقت ایسامیسر آیا ہوگا جس میں اس خطرناک ترین دہشت گردی کے خلاف گفتگو ہوئی ہو۔ کیاجنسی جرائم کا میڈیا اور انٹر نیٹ کے فحش مواد کے ساتھ کوئی تعلق ہے؟ آپ مجھ ایسے دقیانوسی اور فرسودہ خیال کے شخص کی نہیں مانتے تو نہ مانیں‘ کم از کم ان روشن خیال اور ترقی یافتہ آئیڈیل معاشرے کے محققین کی ہی مان لیں جو جنسی زیادتی اور جنسی جرائم کی دلدل میں ہم سے تقریباًنصف صدی پہلے گھر چکے تھے اور آج وہ سب چیخ چیخ کر کہہ رہے ہیں کہ اس کی جڑ فحاشی اور عریانی ہے۔ اس تعلق کو دن بدن واضح کرتی ہوئی تحقیقات میں اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔ جان کورٹ (John Court) نے اپنی ایک کتاب میں امریکہ،ناروے،سویڈن، ڈنمارک، برطانیہ، آسٹریلیا اور نیوزی لینڈ کے جنسی زیادتی کے کیسوں کا تفصیلی جائزہ لیا اور ثابت کیا کہ جوں جوں مہذب دنیا میںجنسی مواد چھاپنے کی آزادی بڑھتی گئی، جنسی زیادتی کے کیسو ں میں اضافہ ہوتا گیا اور مجرموں میںاکثریت ایسی تھی جو اس مواد سے متاثر ہو کر جنسی جرائم کا ارتکاب کرتی تھی۔میلان ہوم (Milan Home)نے امریکہ کی پچاس ریاستوں میں بکنے والے آٹھ فحش رسالوںکی ہر امریکی ریاست میں فروخت کا جائزہ لیا اور پھر وہاں جنسی زیادتی کے واقعات اور مجرموںکے شوقِ مطالعہ کا جائزہ لے کر1991ء میں اپنی تحقیق مکمل کی۔ اس نے ثابت کیا کہ یہ مواد جنسی زیادتی کرنے والوں کو ایک ہیجانی کیفیت میں مبتلاکردیتا ہے اور یہ ان جرائم کی سب سے بڑی وجہ ہے۔ امریکی ریاست ہوائی میں 1974ء میں فحش مواد پر پابندی لگی اور اگلے دو برسوں میں جنسی جرائم پچاس فیصد کم ہو گئے۔ دوسال بعد پابندی اٹھائی گئی تو جرائم کی شرح واپس اپنی سطح پر آگئی۔ ایک اور ریاست اوکلوہاما میں صرف جنسی سٹوروں کو بند کیا گیاتو جنسی زیادتی کے واقعات میں25فیصد کمی واقع ہوگئی۔مشی گن پولیس نے1987ء میں جنسی زیادتی کے 38ہزار کیسوں کا جائزہ لیا جو گزشتہ20 برسوں میں ہوئے تھے اور پتا چلا کہ ان میں41فیصدایسے تھے جن کا ارتکاب کرنے والے صرف چند منٹ پہلے فحش مواد دیکھ رہے تھے اورایک ہیجان میں مبتلا ہو کر جرم کر بیٹھے تھے۔ امریکی جیلوں کی ویب سائٹ پر جا کر دیکھ لیں یا دنیا کے کسی بھی ملک میں موجودجنسی جرائم پر ہونے والی تحقیق کا مطالعہ کرلیں آپ کو فحاشی اور عریانی کا زیادتی کے ساتھ چولی دامن کا ساتھ نظر آئے گا۔ ایک اور حیرت انگیز پہلو یہ ہے کہ جُوں جُوں آپ فحش مواد پر پابندی اٹھاتے ہیںلوگوں میں مزید فحاشی پڑھنے اور دیکھنے کی طلب میں اضافہ ہوجاتا ہے۔ایک زمانے میں ادبی مرقعے میں لپٹے ہوئے فحش ناولوں کو عزت و تکریم ملی اور پھر لوگوں کی طلب نے غلیظ ترین اوربیہودہ زبان میں لکھے جانے والے فحش ناولوں کو جنم دیا۔ ایک ممتاز ادیب کو تو معاشرے میں صرف جنس ہی نظر آتی تھی اور ان کی نظر اسی غلاظت کے ڈھیر سے کسی دوسرے خوشنما حصے کی جانب نہ پلٹتی تھی،جب انہیں عظمت کی بلندیوں پر بٹھایا گیا تو پھر لوگوں کی طلب اورہوس نے ایک گمنام مصنف کے ناولوں کو جنم دیا۔ یہی حال فلموں کا ہے۔ پہلے صرف جسم کے کچھ حصے دکھائے جانے لگے، اشتیاق بڑھاتو بوس وکنار کے مناظرآگئے، پھر قمیض اتری، شوق نے عریانی عام کی اور یہی فلم کی کامیابی کی ضمانت بنی لیکن لوگوں کو تسلی کہاں ہوتی ہے۔ اشتہانے فحش فلموں کو رواج دیا۔ آپ حیران ہوں گے کہ جب پہلی فحش فلم مارکیٹ میں آئی تو لوگوں کا تجسس اس قدر عروج پر تھا کہ اس کی ہیروئن لنڈا لولیس ایک مقبول ترین شخصیت بن گئی۔ آج اس تجسس اور طلب نے اس انڈسٹری کو ڈیڑھ سو ارب ڈالر مالیت تک پہنچا دیا ہے۔ لیکن اس کا آغاز انتہائی ’’مہذب‘‘ اور غیر محسوس طریقے سے جسم کے تھوڑے تھوڑے حصوں کو نمایاں کرنے سے ہواتھا۔ ان بڑے ملکوں کا میڈیا اٹھالیں‘ پچاس برسوں میں اس کا وہی رویّہ تھا جو آج ہے… یہ تو آزادیِ اظہار ہے ، ہم پر پابندی لگاتے ہو، کون لگائے گا۔ یہ تو انسان کے بنیادی حقوق کے منافی ہے۔ دنیا کے ہر اخبار اور ٹی وی کے کئی ٹاک شو ان فحش فلموں کی اشاعت اور فروخت کی حمایت سے بھرے پڑے ہیں۔ لیکن تیس چالیس سال بعد جب مغرب نے معاشرے میں ایسے ذہنی مریضوں میں شدت کے ساتھ اضافہ بھگتا جو ہولناک اور ناقابلِ تصور جنسی جرائم کے مرتکب ہوئے تو وہ سر جوڑ کر بیٹھ گئے اور آج نفسیات کی ہر کتاب ایسی تحقیقات کے لاکھوں حوالے دیتی ہے کہ فحاشی اور عریانی کا جنسی جرائم سے چولی دامن کا ساتھ ہے۔ دونوں میں یہ تعلق کیسے آگے بڑھتا ہے۔ فحش مواد خواہ وہ منٹو کا افسانہ ہو یا غلیظ ترین ناول، معمولی بوس و کنار ہو یا فحش ترین منظر‘ اسے دیکھنے یا پڑھنے کا پہلا ردّ عمل جو ایک مرد کے ذہن میں پیدا ہوتا ہے‘ یہ ہے کہ اُس کے دل سے عورت کی عزت و تکریم ختم ہو جاتی ہے۔ اس کے نزدیک عورت ایک جنسی کھلونا یعنیObject بن جاتی ہے اور پھر ذہن کے پردے پر تصور ہی تصور میں وہ عورت سے ایک قابو میں آئے ہوئے کھلونےSubjectکی طرح کھیلتا ہے۔ طرح طرح کی تصویریں بناتا ہے اور اپنے ذہن کے پردے پر بننے والی تصویروں کو ناولوں میں پڑھنا چاہتا ہے اور فلموں میں دیکھنا چاہتا ہے۔ جب اسے یہ سب کچھ ناولوں اور فلموں میںمیسر آنے لگتا ہے تو پھر اس کی اشتہا اور طلب اس میں ایک طوفانی ہیجان کو جنم دیتی ہے۔ یہ ہیجان رشتوں کی تمیز تک ختم کردیتا ہے۔ پھر کچھ نظر نہیں آتا۔ سب عورتیں ہوتی ہیں اور پردہ سکرین پر یا ناول کے کردار کے مطابق انہیں صرف لذت کے حصول کے لیے بنایا گیا ہوتا ہے۔ سب مل کر عورت کی جو ذلت آمیز تصویر نوجوانوں کو دکھاتے ہیں‘ وہ ویسا ہی سلوک سب عورتوں سے کرتے ہیں۔
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved