آپ شام کو گھر سے باہر ٹہل رہے ہیں۔ ایک صاحب‘ جو جاننے والے ہیں‘ مخالف سمت سے چہل قدمی کرتے آرہے ہیں۔ اب آپ لاکھ کوشش کریں‘ ان سے بچ نہیں سکتے! یہاں آپ کو اُس انتہائی تنگ پُل کی یاد آگئی جس کی کہانی آپ نے بچپن میں سنی تھی۔ ایک بکری اس طرف سے تو دوسری مخالف سمت سے آرہی تھی۔ دونوں آمنے سامنے ہوئیں تو راستہ بند پایا۔ دونوں نے سینگوں کو آزمایا۔ کمزور بکری پل سے نیچے گر گئی۔ دوسری کو راستہ صاف مل گیا مگر آپ کے بچنے کی کوئی صورت نہیں۔ انہوں نے حال احوال پوچھا اور پھر ٹھک سے وہ سوال کیا ''کیا آپ روزے رکھ رہے ہیں؟‘‘۔
یہ بالکل اسی طرح کا سوال ہے جیسے کیا آپ نے نماز پڑھ لی؟ کیا آپ نے زکوٰۃ ادا کی ہے؟ آپ نے روزہ رکھا ہے یا نہیں‘ جان بوجھ کر چھوڑا ہے یا معقول عذر ہے‘ یہ آپ کے اور آپ کے پروردگار کے درمیان ہے! مگر ہمارا جو کلچر ہے‘ اس میں اس جیسے بیشمار سوال پوچھے جاتے ہیں۔ بقول اقبالؔ آپ بھی شرمسار ہو‘ مجھ کو بھی شرمسار کر۔ کبھی پوچھا جائے گا آپ کے بچے نہیں ہیں؟ اوہ! شادی کو کتنا عرصہ ہوا ہے؟ کوئی پوچھے گا مکان اپنا ہے یا کرائے کا ہے؟ اور تو اور یہ بھی پوچھیں گے کہ تنخواہ کتنی ہے؟ کتنے بہن بھائی ہیں؟ کیا کرتے ہیں! کتنوں کی شادیاں ہو چکی ہیں؟ بچے کیا کرتے ہیں؟ آپ ٹرین میں بیٹھے کراچی جا رہے ہیں۔ ساتھ والے صاحب سے غلطی سے کوئی بات کر بیٹھے! اب بھگتیے! کراچی جانے تک یا تو وہ آپ کا شجرۂ نسب حفظ کر چکے ہوں گے یا اپنا شجرۂ نسب آپ کو ازبر کرا چکے ہوں گے! آپ اپنے آپ کو کوسیں گے کہ ایک ذرا سی بات کرکے کتنی بڑی مصیبت آپ نے خرید لی! جو کتاب راستے میں پڑھنے کے لیے ساتھ رکھی تھی‘ وہ دھری کی دھری رہ گئی!
بنیادی مسئلہ ہماری فراغت ہے۔ ہمارے پاس ڈالر ہیں نہ روپے‘ انڈسٹری ہے نہ مشینی زراعت! تعلیم ہے نہ حرفت! اخلاق ہے نہ آداب! صرف ایک جنسِ وافر ہے اور وہ ہے وقت! ہزاروں لاکھوں ٹن وقت! شادی ہال میں ہم دو چپاتیوں اور چند چھٹانک قورمے کے لیے چار گھنٹے بیٹھے رہیں گے! شرم آئے گی نہ انانیت کو ٹھیس پہنچے گی! ٹرین میں یا بس میں یا جہاز میں سب کتاب یا ای ریڈر لیے بیٹھے ہوں گے۔ جو منہ کھولے اوپر دیکھ رہے ہوں گے جہاز یا بس یا ٹرین کی چھت کی طرف‘ وہ ہم پاکستانی ہوں گے! کسی دفتر میں چلے جائیے‘ اندر بیٹھ کر کام کرنے کے بجائے‘ باہر ٹولیوں کی صورت میں کھڑے گپیں ہانک رہے ہوں گے! شاہراہ پر کوئی حادثہ ہو جائے تو اللہ دے اور بندہ لے‘ ستر‘ اَسی فیصد لوگ گاڑیاں اور موٹر سائیکل سڑک کے کنارے باقاعدہ پارک کرکے‘ اُتر کر‘ حادثے سے لطف اندوز ہوں گے! اب جو اس قدر فراغت رکھتے ہیں‘ وہ آپ سے رمضان کے روزوں اور آپ کی تنخواہ اور آپ کے بچوں کے بارے میں کرید کرید کر نہ پوچھیں تو کیا فارغ بیٹھے رہیں؟
جن ملکوں نے ترقی کی ہے‘ ان کی ترقی کا سب سے بڑا سبب فرد کی مصروفیت ہے اور وقت کا بہترین استعمال! اس کے پاس اتنا وقت ہی نہیں کہ آپ کا حدود اربعہ پوچھے! ٹرین یا بس یا جہاز میں آپ کی طرف دیکھیں گے ہی نہیں! گھنٹوں آپ کے رفیقِ سفر رہیں گے‘ زیادہ سے زیادہ موسم کے بارے میں بات کر لیں گے۔ وہ بھی دو تین فقروں سے زیادہ نہیں! کبھی نہیں پوچھیں گے کہ آپ کہاں جا رہے ہیں؟ کہاں سے آرہے ہیں؟ کیا کرتے ہیں؟ کس ملک سے ہیں؟ بجائے اس کے کہ ہم ذاتیات میں نہ پڑنے کے اس کلچر کو سراہیں‘ اپنا احساسِ کمتری چھپانے کے لیے ان پر مشینی زندگی کا الزام لگائیں گے اور کہیں گے کہ وہاں تو کسی کو کسی سے غرض ہے نہ ہمدردی! ہمدردی کا مطلب ہمارے نزدیک یہ ہے کہ وہ ہم سے ہمارے معمولات کا اور خاندان کا اور مستقبل کے ارادوں کا پوچھے! ہم پر توجہ دے اور ہماری پُشتوں اور آئندہ نسلوں کی تعریف کرے! ہماری اَنا کو فربہ کرے!
ایک اور سماجی بیماری ہم لوگوں میں گھورنے کا عمل ہے! خاص طور پر خواتین کو! اس میں بے ریش بھی شامل ہیں اور نیکو کاروں کی شکل والے بھی! ہمارے تمام شہر‘ قصبے اور بستیاں اس مرض میں مبتلا ہیں۔ لندن‘ زیر زمین ریلوے (ٹیوب) میں کئی بار سفر کرنے کا موقع ملا۔ صبح گھر سے جلدی نکلنے والی خواتین میک اَپ گاڑی میں کرتی ہیں۔ کوئی نظر اٹھا کر ان کی طرف نہیں دیکھتا۔ ہم تو وہ قوم ہیں جو ریستوران میں بیٹھے ہوں تو ایک ایک میز پر پڑے کھانے کا یوں جائزہ لیتے ہیں جیسے کبھی کھانا دیکھا نہ ہو۔ قطار اول تو بناتے ہی نہیں‘ بنائیں تو آگے کھڑے ہونے والے شخص کے ساتھ لگ کر کھڑے ہوں گے۔ باقی دنیا میں قطار میں کھڑے افراد کے درمیان اچھا خاصا فاصلہ ہوتا ہے خواہ اے ٹی ایم کی قطار ہو یا دکان پر کاؤنٹر کے سامنے! میں ایک بار دکان سے ملی ہوئی رسید غور سے پڑھ رہا تھا کہ ساتھ کھڑے ہوئے صاحب بھی اسے پڑھنے کے لیے جد و جہد کر رہے تھے‘ میں نے رسید ان کے سامنے کر دی کہ جناب لیجیے آپ پہلے اس کا مطالعہ کر لیجیے۔ شرمندہ ہوئے مگر یہ شرمندگی بھی جیسے بادلِ نخواستہ ہی تھی!!
سوچنے کی بات ہے۔ غور کا مقام ہے! ہم میں بنیادی آداب کی کمی افسوسناک حد تک کیوں ہے؟ ہم پڑھ لکھ کر بھی جاہل کیوں ہیں! کچھ عرصہ پہلے کی بات ہے‘ جاپان پر افتاد پڑی تو راشن اور دیگر اشیائے ضرورت میدانوں میں رکھ دی گئیں! جو بھی آتا‘ صرف اپنی ضرورت کی شے اٹھاتا۔ یہ جو آٹے کے حصول میں لوگ جان سے گئے‘ اس میں بے صبری اور قطار نہ بنانے کا بھی عمل دخل یقینا ہوگا۔ بانٹنے والے بھی تربیت دیتے ہیں نہ قطار بنواتے ہیں! تین چار کام اور ہیں جو ہم لوگوں کے سامنے کرتے ہیں اور دھڑلے سے کرتے ہیں۔ تھوکتے ہیں اور گلا صاف کر کے تھوکتے ہیں‘ یوں کہ گلا صاف کرنے کی آوازیں دور دور تک کانوں میں شہد گھولتی ہیں۔ ناک میں انگلی ڈالتے ہیں اور انگلی کو خوب حرکت دیتے ہیں۔ ماچس کی تیلی سے کان کھجاتے ہیں اور سرور کی شدت میں آکر آنکھیں بند کر لیتے ہیں جیسے کوئی افیونچی نشے میں ہو! کھانستے وقت منہ کے آگے رومال رکھتے ہیں نہ ہاتھ! کسی کی عیادت کرنے جائیں تو دل میں چائے یا شربت کی امید اٹھکھیلیاں کرتی ہے۔ بس یا ٹرین میں ٹیلی فون کریں تو اتنی بلند اور کھردری آواز میں بات کرتے ہیں کہ تمام مسافروں کے لیے عذاب کا کوڑا بن جاتے ہیں۔ ایک بار ریلوے کے ٹکٹ چیکر سے کہا کہ ان صاحب کو‘ جو ایک گھنٹے سے فون پر چیخ رہے تھے‘ سمجھائیں تو بیچارہ کہنے لگا کہ روکا تو ہم سے لڑائی کریں گے۔ وہ بھی زمانہ تھا جب ہم مہذب تھے۔ کسی بزرگ کو یا استاد کو یا ماں یا والد کو کھانے کے لیے یا نماز کے لیے نیند سے بیدار کرنا ہوتا تھا تو انتہائی نرمی سے پاؤں یا پنڈلی کو دبانے لگتے تھے۔ اب تو بزرگوں کو جگاتے ہیں تو انہیں لگ پتا جاتا ہے۔ وہ لطیفہ یاد آرہا ہے کہ پنجابی بیوی نے میاں کو صبح کس طرح جگایا تھا۔ اگر آپ نے وہ لطیفہ نہیں سنا ہوا تو آپ پر افسوس ہے!
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved