قوم تماشا دیکھنے بلکہ دیکھتے رہنے پر مجبور ہے۔ وزیر اعظم سمیت کوئی بھی حکومتی شخصیت ایسی نہیں جس کی کسی بھی بات پر قوم کو بھروسا ہو۔ قوم بھی مجبور ہے۔ اُس کے پاس اور کوئی آپشن بچا ہی نہیں۔ اُسے اِتنے دھوکے دیے گئے ہیں کہ اب تو ''تھپڑ سے ڈر نہیں لگتا صاحب‘ پیار سے لگتا ہے‘‘ والی منزل آچکی ہے۔ وزیر اعظم صاحب کہتے ہیں: ہم نے تمام شرائط پوری کردی ہیں‘ اب آئی ایم ایف کے پاس ہمیں قرضہ نہ دینے کا کوئی بہانہ نہیں بچا۔ یہ ہے خوش فہمی کی سطح بلکہ انتہا۔ ذرا سوچیے کہ آئی ایم ایف کو قرضہ دینے پر کون مجبور کرسکتا ہے؟ اگر عالمی ادارے یہ سوچ لیں کہ ہمارے لیے حالات مزید تلخ کرنے ہیں تو اُنہیں روکنے کی ہمت کس میں ہے؟ عالمی طاقتیں مشکلات کا شکار ہیں مگر ہم اِتنے مضبوط کب سے ہوگئے کہ وہ ہمارے معاملات میں بھی کمزوری دکھانے پر مجبور ہوں! امریکہ اور یورپ کی طاقت میں کمی واقع ہوتی جارہی ہے مگر یہ دونوں ہم جیسوں سے تو اب بھی بہت طاقتور ہیں اور ہمیں تِگنی کا ناچ نچا سکتے ہیں۔ اور نچا سکتے ہیں کیا‘ نچا رہے ہیں۔
ہمارے برادر ممالک ہماری کتنی مدد کرسکتے ہیں‘ یہ تو ہم جانتے ہی ہیں۔ ہم ہر بحرانی کیفیت میں سعودی عرب کی طرف دیکھنے کے عادی رہے ہیں۔ اِس بار بھی ہم نے ایسا ہی کیا ہے مگر ملا کیا؟ صرف یقین دہانیاں۔ ترکیہ ہم سے مخلص ہے مگر اُس کے اخلاص کی بھی ایک حد ہے۔ اِس حد سے آگے بڑھنے کی ہمت تو اُس میں بھی نہیں ہوسکتی کیونکہ اُس کے اپنے بھی بہت سے مسائل ہیں۔ اور پھر حالیہ زلزلے نے معیشت کے حوالے سے اُس کی کمر بھی توڑ کر رکھ دی ہے۔ اب اس بات کی گنجائش نہیں رہی کہ ہم فوری طور پر اُس سے مدد مانگیں۔ یو اے ای کا معاملہ بھی ہمارے سامنے ہے۔ وہ اپنے مفادات کو زیادہ سے زیادہ تحفظ فراہم کرنے کے لیے کوشاں ہے جو بالکل فطری امر ہے۔ کیا یہ حقیقت اب بھی ڈھکی چھپی ہے کہ کراچی کو پنپنیسے روکنے کے لیے ایک زمانے تک یہاں حالات انتہائی خراب رکھے گئے۔ اگر کراچی واقعی پنپ جاتا اور توسیع کے حوالے سے آسانی کو دیکھتے ہوئے کراچی کو ایک چھوٹی موٹی ریاست یا فری پورٹ کی طرح برتنا ممکن ہو جاتا تو کیا ہوتا؟ مسقط، دبئی، شارجہ اور دیگر خلیجی ریاستیں کہاں کھڑی ہوتیں؟
اب آئیے چین کی طرف۔ وہ اب بھی ہمارے ساتھ ہے۔ اُس نے ہر طرح سے مدد کرنے کی بھرپور کوشش کی ہے مگر ہمارا اندرونی سیاسی خلفشار اُس کے ارادوں کو متزلزل کر رہا ہے۔ چینی قیادت اب تک پریشان ہے کہ ہم پر پوری طرح داؤ لگائے یا نہ لگائے! پاک چین اقتصادی راہداری کی تکمیل چین کی اپنی ضرورت ہے۔ اِتنا تو اُسے کرنا ہی تھا اور کر رہا ہے۔ ہم اِس سے بہت آگے جاسکتے ہیں مگر صرف اُس وقت جب ہم یہ طے کرلیں کہ چین کا ساتھ دینا ہے، امریکہ اور یورپ کے مقابل اُس کی مدد کرنی ہے۔ یہ محض سوچنے کا نہیں‘ عزم کا معاملہ ہے۔ اب دیکھیے کہ چین نے کس طور سعودی عرب اور ایران کے درمیان اختلافات گھٹانے میں پہل کی ہے۔ دونوں کو مذاکرات کی میز پر لاکر چین نے امریکہ اور یورپ کی نیندیں اُڑادی ہیں۔ سعودی عرب اور ایران کے درمیان جو بگاڑ پایا جاتا رہا ہے اُسے ایک طرف ہٹاتے ہوئے چین نے دونوں کو سمجھایا ہے کہ زمینی حقیقتوں کو نظر انداز کرنے کی غلطی نہ کریں، سٹریٹجک معاملات میں ایک دوسروں کو قبول کریں۔ اور یہ کہ دنیا جتنی تیزی سے تبدیل ہو رہی ہے اُس کے پیشِ نظر دیرینہ رقابتوں کی گنجائش برائے نام بھی نہیں رہی۔ اب سبھی کو آپس کے اختلافات بھلاکر ہر اُس مقام پر ایک دوسرے کا ساتھ دینا پڑے گا جہاں ایسا کرنا لازم ہو۔ بہت حد تک ممکن ہے کہ تیزی سے بدلتے ہوئے عالمی حالات کے پیشِ نظر بہت جلد چینی قیادت بھارت سے بھی اپنے اختلافات گھٹانے پر متوجہ ہو اور پھر بھارت کو ہم سے ہاتھ ملانے پر مائل کرنے کی کوشش کرے۔ یہ سب کچھ چین کے اپنے مفاد کا معاملہ ہے۔ اِس میں بُری بات کیا ہے۔ ہم خود تو کچھ کر نہیں سکتے۔ ایسے میں اگر کوئی اپنی طاقت بڑھانے کی کوشش کر رہا ہے تو ہوسکتا ہے کہ اِس عمل میں ہمیں بھی اپنے محلِ وقوع کی انفرادیت کی بنیاد پر‘ کوئی معقول فائدہ پہنچ جائے۔
پاکستان اپنے محلِ وقوع کی انفرادیت کی بدولت بہت کچھ حاصل کرسکتا ہے۔ ہم اگر کچھ کرنے کی پوزیشن میں نہیں ہیں تو نہ سہی‘ پانے کی پوزیشن میں ضرور ہیں مگر یہ اُس وقت ممکن ہے جب ہم طے کرلیں کہ اپنے اندرونی خلفشار کو ختم کرنا ہے۔ دنیا کو یہ بھرپور تاثر ملنا چاہیے کہ ہمارے اندرونی اختلافات ایسے وسیع، گہرے اور خطرناک نہیں کہ سب کچھ داؤ پر لگ جائے۔ اس وقت پاکستان جس نوعیت کے سیاسی اور آئینی خلفشار سے دوچار ہے اُس کے پیشِ نظر کوئی بھی ہماری مدد کے لیے آگے نہیں بڑھے گا۔ حد یہ ہے کہ چین بھی ہچکچا رہا ہے۔ اُس کا ہچکچانا فطری ہے کیونکہ معاملہ چند کروڑ نہیں‘ دسیوں ارب ڈالر کا ہے۔ اِتنی بڑی سرمایہ کاری محض مفروضوں کی بنیاد پر نہیں کی جاسکتی۔
یہ بھی تو نہیں کھلتا کہ حکومت کیا چاہتی ہے۔ مسائل بڑھتے جارہے ہیں اور مخالفین دم لینے کو تیار نہیں۔ تحریکِ انصاف نے طے کر رکھا ہے کہ عام انتخابات سے کم پر راضی نہیں ہوگی۔ اسٹیبلشمنٹ پریشان ہے کہ اب ملک کو درست راہ پر کیونکر ڈالا جائے۔ سیاسی جماعتیں اب سیاسی جماعتیں کہاں رہیں؟ وہ تو محض پریشر گروپس ہیں جو اپنی بات اور مطالبات منوانے کے لیے کسی بھی حد تک جا سکتی، گِرسکتی ہیں اور گِر رہی ہیں۔ قوم یہ سب کچھ ایک سال سے دیکھ رہی ہے۔ اس دوران حکومت کی پوزیشن گِرتی ہی گئی ہے۔ اخراجات کا بوجھ کم ہونے کا نام نہیں لے رہا۔ روپے کی قدر اِتنی تیزی سے گِر رہی ہے کہ اب کوئی بھی کچھ بچانے کا نہیں سوچتا۔ سب اچھی طرح جانتے اور سمجھتے ہیں کہ روپے کی قوتِ خرید میں رونما ہونے والی کمی کے پیشِ نظر دانش کا تقاضا یہ ہے کہ جیسے ہی کچھ ہاتھ آئے اُسے خرچ کرلیا جائے۔ یہ سوچ اچھی نہیں مگر مجبوری کی حالت میں پروان چڑھی ہے۔ کسی بھی حکومتی سیٹ اَپ کے لیے یہ سب کچھ بہت شرم ناک ہے۔ شہباز شریف اور اُن کے رفقائے کار کے لیے یہ سب کچھ کسی بھی حیثیت میں آئیڈیل تو نہیں مگر وہ بھی کیا کریں، بند گلی میں پھنسے ہوئے ہیں۔ ایک سال سے اپوزیشن دباؤ بڑھاتی رہی ہے اور حکمران اتحاد کے پاس اپنے پَر سمیٹتے رہنے کے سوا کوئی آپشن نہیں رہا۔ رہی سہی کسر آئی ایم ایف نے پوری کردی۔ آئی ایم ایف کا کہنا ہے کہ اُس کے پاس پاکستان کے لیے قرضے کا پیکیج جاری کرنے کا جواز نہیں۔ وہ بہت سے چیزیں گنواتا ہے۔ حکومت پر اعتماد کا نہ ہونا پہلے نمبر پر ہے۔ موجودہ حکومت کے حوالے سے تو خود اہلِ پاکستان شدید تذبذب کا شکار رہے ہیں۔ ایسے میں آئی ایم ایف اور دیگر مالیاتی اداروں کا اعتماد بھلا کہاں دکھائی دے گا؟ ہماری ایسی پوزیشن ہے ہی نہیں کہ آئی ایم ایف یا کسی اور عالمی مالیاتی ادارے سے ڈٹ کر، اکڑ کر کچھ کہہ سکیں۔ ہمارے لیے تو بس ع
سرِتسلم خم ہے، جو مزاجِ یار میں آئے
والا معاملہ رہ گیا ہے۔ چین ہماری مدد ضرور کرنا چاہتا ہے مگر ظاہر ہے اُسے در حقیقت اپنے مفادات کا تحفظ درکار ہے۔ مقتدر حلقے اس پوزیشن میں نہیں کہ کسی بھی معاملے میں سخت گیری کا مظاہرہ کریں۔ بلوچستان میں اچھی خاصی خرابیاں ہیں اور قوم بھی سمجھتی ہے کہ وہاں فورسز کو شدید مشکلات کا سامنا ہے۔ عوام کے پاس اس وقت محض تماشا دیکھنے اور حالات پر کڑھنے کے سوا کوئی آپشن بچا ہی نہیں۔ اب عدلیہ کو بھی سیاسی انتشار کی دلدل میں گھسیٹا جا رہا ہے۔ یہ وقت فورسز کے لیے بھی شدید پریشانی کن ہے۔سرحدوں کے ساتھ ساتھ اندرونِ ملک بھی چیلنجز کا سامنا ہے۔ اپوزیشن اور حکومت‘ دونوں کو نرمی دکھانی ہے۔ اداروں کو بھی احساسِ ذمہ داری کا مظاہرہ کرنا ہے۔ عالمی برادری میں توقیر پانے کے لیے گھر کی درستی لازم ہے۔ دیگر تمام ایجنڈے چھوڑ کر صرف اس بات پر دھیان دیا جائے کہ اندرونی خلفشار کیسے ختم ہو۔
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved