گزشتہ ہفتے امیر جماعت اسلامی سینیٹر سراج الحق نے اپنے دو سینئر ساتھیوں سمیت چیئرمین پاکستان تحریک انصاف عمران خان سے ان کی رہائش گاہ زمان پارک لاہور میں ملاقات کی اور ملک کو موجودہ بحران سے نکالنے کیلئے مختلف تجاویز پر تبادلۂ خیال کیا۔ عمران خان سے بات چیت کرنے سے پہلے سراج الحق وزیراعظم شہباز شریف سے بھی مل چکے تھے اور دونوں کے ساتھ ملاقات کے بعد انہوں نے جو بیان دیا تھا‘ اس کے مطابق وہ کافی پُرامید نظر آ رہے تھے۔
امیر جماعت اسلامی کے مطابق حکومت اور اپوزیشن پارٹی کے ساتھ مذاکرات میں ان کا ایجنڈا صرف ایک ہی نکتے پر مشتمل تھا اور وہ تھا کہ کسی طرح ان دونوں متحارب فریقین کو پنجاب اور کے پی اسمبلیوں اور قومی انتخابات کیلئے ایک ہی دن پر راضی کیا جائے۔ حکومت کی طرح جماعت اسلامی کا بھی یہی مؤقف ہے کہ صوبوں خصوصاً پنجاب میں اور قومی انتخابات ایک ہی دن ہونے چاہئیں۔ البتہ دونوں میں انتخابات کی تاریخ پر اختلاف ہے۔ کچھ عرصہ پیشتر جناب سراج الحق نے ایک بیان میں وفاقی حکومت پر زور دیا تھا کہ وہ قومی اسمبلی اور باقی دو صوبائی (سندھ اور بلوچستان) اسمبلیوں کو تحلیل کرکے پنجاب اور کے پی کے صوبائی انتخابات کے ساتھ پورے ملک میں ایک ساتھ انتخابات کا انعقاد کرے اور ملک کو موجودہ سیاسی اور آئینی بحران سے نجات دلائے۔ امیر جماعت اسلامی کا یہ مطالبہ دراصل پی ٹی آئی کے مقصد کے عین مطابق تھا کیونکہ گزشتہ اپریل میں تحریک عدم اعتماد کے نتیجے میں اپنی حکومت کھو جانے کے بعد عمران خان کے پاس موجودہ حکومت کو عام انتخابات پر مجبور کرنے کی ہر کوشش کی ناکامی کے بعد پنجاب اور کے پی اسمبلی کو تحلیل کرکے حکومت پر عام انتخابات کیلئے دباؤ ڈالنے کا یہی واحد آپشن تھا مگر پی ڈی ایم حکومت کی شروع ہی سے پنجاب اور کے پی میں انتخابات کرانے کی کوئی نیت نہیں تھی اور اسے اعتماد تھا کہ وہ ملک میں بڑھتی ہوئی دہشت گردی کی وجہ سے بگڑتی ہوئی سکیورٹی کی صورتحال‘ فنڈز کی کمی اور مردم شماری کے نتائج عملاً دستیاب نہ ہونے کی بنا پر ان دو صوبوں کی اسمبلیوں کے انتخابات کو آئندہ اکتوبر تک ملتوی کرنے کے حق میں مؤثر جواز پیش کرنے میں کامیاب ہو جائے گی مگر سپریم کورٹ کے از خود نوٹس کی بنیاد پر 90دن کے اندر فیصلے نے حکومت کے ارادوں کو بری طرح مسمار کر دیا۔
اب نہ صرف پی ٹی آئی اور عدلیہ بلکہ خود حکمران اتحاد میں شامل بعض پارٹیوں اور افراد کی طرف سے بھی آئین کی پاسداری کرتے ہوئے حکومت پر 90دن کے اندر پنجاب اور کے پی میں انتخابات کروانے پر زور دیا جارہا ہے۔ اگرچہ پی ٹی آئی کی طرف سے لچک کا مظاہرہ کرتے ہوئے حکومت کے ساتھ مذاکرات پر آمادگی کا اظہار کر دیا گیا ہے اور اس کے لیے تین رکنی کمیٹی بھی تشکیل دی جا چکی ہے۔ موجودہ بحران کو حل کرنے کے لیے کسی فارمولے پر اتفاق کا امکان نظر نہیں آتا کیونکہ پی ٹی آئی اپنے مؤقف سے پیچھے ہٹنے پر تیار نہیں اور چاہتی ہے کہ صوبائی انتخابات کے حوالے سے سپریم کورٹ کے تین رکنی بنچ کے فیصلے پر ہر صورت عملدرآمد کیا جائے جبکہ حکومت کا اصرار ہے کہ دونوں صوبوں کی اسمبلیوں اور قومی انتخابات ایک ہی دن‘ اکتوبر میں کرائے جائیں۔ وزیر داخلہ رانا ثنا اللہ اعلان کر چکے ہیں کہ 14مئی کو کسی صورت بھی انتخابات نہیں ہو سکتے۔ سپریم کورٹ کی طرف سے 14مئی کو انتخابات نہ الیکشن کمیشن کو 21 ارب کے فنڈز جاری کرنے کا سٹیٹ بینک کو جو حکم دیا گیا تھا‘ اس پر تو عمل درآمد نہیں ہوا۔ اس لیے 14مئی کو دو صوبوں میں انتخابات کے انعقاد کا ٹارگٹ تو حاصل نہیں ہو سکتا۔ اس صورتحال میں مصالحت کیلئے جو کوششیں جاری ہیں‘ ان کی کامیابی تو بڑی دور کی بات ہے‘ ان کے جاری رہنے کی بھی کوئی امید نظر نہیں آتی کیونکہ پی ٹی آئی کے ایک سینئر رہنما فواد چودھری کہہ چکے ہیں کہ ان دونوں صوبوں میں قائم نگران حکومتیں آئین کے مطابق اپنی مدت مکمل ہونے کے بعد اقتدار میں رہنے کا جواز کھو دیں گی۔ ایک اور سینئر سیاستدان اور پی ٹی آئی کے قریبی اتحادی 90 دن کے اندر صوبائی انتخابات نہ ہونے کی صورت میں ''سول نافرمانی‘‘ کی وارننگ دے چکے ہیں۔ عمران خان خود زمان پارک میں اپنی رہائش گاہ پر عید کی چھٹیوں کے دوران پولیس کے حملے کا خدشہ ظاہر کر چکے ہیں۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ سپریم کورٹ کی ہدایت کے مطابق 14 مئی کو انتخابات نہ ہونے کی صورت میں پی ٹی آئی کی طرف سے سخت ردِعمل آئے گا؛ تاہم فریقین اس کے نقصان کا احساس کرتے ہوئے اگر ایک متفقہ فارمولے پر راضی ہو جائیں تو صوبائی اور قومی دونوں انتخابات ایک ہی دن ہو سکتے ہیں اور یوں ایک تباہ کن صورتحال سے بچا جا سکتا ہے کیونکہ اصولی طور پر تمام فریقین دونوں انتخابات کے ایک ہی دن کے انعقاد کے خلاف نہیں۔ اختلاف صرف تاریخ پر ہے۔ پی ٹی آئی تو چاہے گی کہ آئینی تقاضے کے مطابق پنجاب اور کے پی میں انتخابات کے انعقاد کی لازمی تاریخ پر وفاقی حکومت قومی اسمبلی اور دو صوبوں کی اسمبلیوں کو تحلیل کرکے اُسی دن قومی انتخابات کا انعقاد کروائے۔ مگر اس کا امکان کم ہے کیونکہ اس میں صرف قومی اسمبلی ہی نہیں بلکہ سندھ اور بلوچستان اسمبلی بھی شامل ہے‘ جہاں کی حکومتیں آئینی مدت مکمل ہونے سے پہلے اسمبلیوں کی تحلیل پر راضی نہیں ہوں گی لیکن سپریم کورٹ کے فیصلے کے بعد پی ٹی آئی اکتوبر تک انتظار کرنے کیلئے تیار نہیں؛ تاہم مئی اور اکتوبر کے درمیان کسی تاریخ پر اتفاق ہو سکتا ہے۔
کچھ عرصہ پیشتر وزیر داخلہ رانا ثنا اللہ نے خود اس امکان کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا تھا کہ دو‘ ایک ماہ کی اگر حکومت لچک دکھائے اور اسی طرح دو ایک ماہ کے التوا پر اگر پی ٹی آئی راضی ہو جائے تو مئی اور اکتوبر کے درمیان کسی تاریخ پر اتفاق ہو سکتا ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ ایک غیر ملکی جریدے کے ساتھ ایک انٹرویو میں بھی عمران خان کے سامنے اسی قسم کی تجویز رکھی گئی تھی جس پر عمران خان کا جواب تھا کہ ''اس حکومت کے ہوتے ہوئے ملک مزید نقصان کا متحمل نہیں ہو سکتا‘ اس لیے میں فوری طور پر انتخابات کا مطالبہ کر رہا ہوں‘‘۔ حالانکہ عمران خان ایک سے زیادہ مرتبہ کہہ چکے ہیں کہ یہ حکومت جتنے زیادہ وقت تک برسر اقتدار رہے گی‘ پی ٹی آئی کے ووٹوں میں اتنا ہی اضافہ ہوگا کیونکہ مہنگائی‘ افراطِ زر‘ بیروزگاری کی وجہ سے لوگ پہلے ہی اس حکومت کے خلاف ہیں اور اگر یہ حکومت اقتدار سے مزید چمٹی رہتی ہے تو اس کے نتیجے میں پی ٹی آئی کیلئے عوامی مقبولیت میں اور بھی اضافہ ہوگا۔ عمران خان کی منطق کو اگر تسلیم کر لیا جائے تو اسے الیکشن کے فوری انعقاد کے بجائے اکتوبر تک انتظار کرنا چاہیے کیونکہ چار ساڑھے چار ماہ گزر جانے کے بعد پی ٹی آئی کے ووٹوں میں اتنا اضافہ ہو جائے گا کہ عمران خان کا دو تہائی اکثریت حاصل کرنے کا خواب بھی پورا ہو جائے گا جو موجودہ حالات میں عمران خان کی ہر دلعزیزی کے باوجود ممکن نظر نہیں آتا۔ پی ٹی آئی کے ایک سینئر رہنما اور قومی اسمبلی کے سابق سپیکر اسد قیصر خان کو غالباً اس اہم نکتے کی سمجھ آ گئی ہے‘ اس لیے انہوں نے پی ٹی آئی اور حکومت کے درمیان مفاہمت کی بنیاد پر اکتوبر میں انتخابات کی حمایت کی ہے۔ جس دن پی ٹی آئی کے باقی سرکردہ رہنماؤں کی سمجھ میں بھی یہ بات آ جائے گی اور وہ عمران خان کو خود ان کے بیانات یاد دلا کر اس پر راضی کر لیں گے‘ پاکستان بڑے آرام سے بظاہر اس ناقابلِ حل بحران سے باہر نکل آئے گا۔
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved