تحریر : نسیم احمد باجوہ تاریخ اشاعت     19-04-2023

پرویز مشرف اور دعائے مغفرت

مشرف‘ فارسی زبان کا لفظ ہے‘ جس کا معنی عزت‘ اعزاز اورخوبی ہے۔ اگر آپ کم از کم ایک خوبی کے بھی مالک ہوں تو آپ کو مشرف کہا جا سکتا ہے۔ کئی لوگ اسم با مسمیٰ ہوتے ہیں یعنی انہی خوبیوں کے مالک جو اُن کا نام بیان کرتا ہے مگر کہیں معاملہ الٹ بھی ہوتا ہے۔ یعنی نام تو چنگیز یا تیمور مگر مزاج میں عاجزی و انکساری۔ پرویز مشرف بھی اسم با مسمیٰ تھے۔ ان کے چیف آف آرمی سٹاف اور سربراہِ مملکت بننے کے سفر سے سبھی آگاہ ہیں‘ گوکہ ان کے سربراہِ مملکت بننے سے ملکی آئین پامال ہوا۔ اُن کے دور میں سیاسی قیادت کے علم میں لائے بغیر کارگل جنگ ہوئی۔ نائن الیون کے واقعہ کے بعد انہوں نے سارے امریکی مطالبات مان لیے اور ملکِ عزیز افغان طالبان کے خلاف خانہ جنگی کیلئے استعمال ہونے لگا۔
5 فروری کو پرویز مشرف طویل‘ ناقابلِ علاج اور بے حد تکلیف دہ بیماری میں مبتلا رہنے کے بعد دبئی کے ایک ہسپتال سے اپنے آخری سفر پر روانہ ہوئے تو امریکہ اور یورپ کے ہر اچھے اخبار اور معیاری جریدے بشمول ''دی اکنامسٹ‘‘ نے اپنے 11 فروری کے شمارے میں پرویز مشرف کے حوالے سے ایک مضمون شائع کیا۔ پہلی نظر میں تو اس کالم نگار کو یوں لگا کہ یہ سنجیدہ اور بلند معیاری اور دنیا بھر میں احترام سے پڑھا جانے والا ہفت روزہ اس بات کی تعریف کر رہا ہے کہ پرویز مشرف بڑے اعتدال پسند تھے‘ کچھ دیگر طبقات لیکن پرویز مشرف کی اعتدال پسندی کی گواہی نہیں دیتے۔
سابق امریکی سیکرٹری آف سٹیٹ Henry Kissinger نے اپنی ایک کتاب میں یہ دلچسپ بات لکھی ہے کہ وہ جب مائوزے تنگ سے ملا تو دونوں نے ایک دوسرے کو اتنا پسند کیا کہ وہ رات بھر سرکاری تکلف اورProtocolکے تقاضوں کو نظر انداز کرتے ہوئے چینی مشروب پیتے اور باتیں کرتے رہے۔ مہمان نے میزبان سے پوچھا کہ جب بھی دنیا میں کوئی غیرمتوقع واقعہ اور حادثہ رونما ہوتا ہے تو امریکی حکومت کو اس پر اپنے ردِعمل کا اظہار کرنے میں کئی دن لگ جاتے ہیں لیکن چیئرمین مائو ایک آدھ گھنٹہ کے اندر چینی حکومت کا مؤقف بیان کر دیتے ہیں۔ آپ اتنی جلدی کس طرح فیصلہ کر لیتے ہیں کہ کیا کہنا مناسب ہوگا اور کیا غیرمناسب (کاش کہ ہمارے تمام سیاسی رہنمائوں خصوصاً عمران خان کے وزیروں و مشیروں میں کم از کم یہ خوبی تو ہوتی)۔ کسنجر لکھتا ہے کہ میرا سوال سن کر چیئرمین مائو مسکرائے اور جواب دیا کہ یہ تو بڑا آسان کام ہے‘ قطعاً وقت طلب نہیں۔ میں اپنے سیکرٹری کو بلا کر اسے ہدایت دیتا ہوں کہ پتا کرکے بتائو کہ اس واقعہ پر امریکی اور برطانوی حکومت کا فوری ردِعمل کیا ہے؟ جب امریکی اور برطانوی ردِ عمل بتا دیا جاتا ہے تو میں دوسری ہدایت یہ دیتا ہوں کہ ہماری حکومت اس کے بالکل مخالف/ متضاد بیان جاری کر دے۔ بعد میں غور کرتا ہوں تو مطمئن ہو جاتا ہوں کہ ہم کئی دن یا کئی ہفتے بھی سوچ بچار کرتے رہتے تو یہی کہتے جو پہلے دن کہا تھا اور درست مؤقف اختیار کیا تھا۔
میں نے یہ بات برسوں قبل پڑھی تو مائو کی بہت سی دوسری باتوں کو بھی پلے باندھ لیا۔ پرویز مشرف کی وفات پر بھی یہ حکمت عملی کام آئی۔ یورپ اور امریکہ کے دائیں بازو کے سب اخباروں نے پرویز مشرف پر تعزیتی اور تعریفی مضمون شائع کیے مگر کچھ اخباروں اور رسالوں نے وہ کچھ لکھا جسے پڑھ کر میں نے بے ساختہ کہا: گویا یہ بھی میرے دل میں ہے۔ پرویز مشرف کے دامن پر آئین شکنی کا داغ تھا۔ ایک بلوچ سردار کے قتل سے لے کر اسلام آباد کی لال مسجد میں آپریشن تک‘ کراچی میں ایک لسانی جماعت کے حامیوں کے توسط سے اپنی طاقت کے مظاہرے سے لے کر امریکہ کو افغانستان پر حملہ آور ہونے کے لیے ایئرسپیس اور زمینی نقل و حمل کی سہولت دینے تک‘ یہ تھے وہ جرائم جن کے ارتکاب پر تین رکنی خصوصی عدالت نے پرویز مشرف کو سخت سزا سنائی تھی۔ لاہور ہائی کورٹ نے نجانے کیوں اس سزا کو منسوخ کر دیا۔ بہرحال اس مقدمے نے ثابت کر دیا کہ پرویز مشرف قانون سے بالاتر تھے۔ وہ تو پھر اعلیٰ عہدوں پر فائز رہ چکے تھے‘ یہاں تو ایک پولیس کانسٹیبل نہیں مان۔
دیانتداری کا تقاضا یہ ہے کہ پرویز مشرف کی خامیوں اور کوتاہیوں کو ایک طرف رکھتے ہوئے ان کی خوبیوں اور قابلِ تعریف کارناموں کو بھی تسلیم کیا جائے۔ پرویز مشرف کا پہلا کارنامہ تو مقامی حکومتوں کا بڑا عمدہ اور عوام دوست نظام قائم کرنا تھا‘ جس میں انگریز کے نو آبادیاتی دور کی سب سے بڑی یادگار‘ ڈپٹی کمشنر کا سرکاری عہدہ ختم کرکے ضلعی ناظم کو بااختیار بنایا گیا۔ پرویز مشرف نے اس نظام کا خاکہ بنانے کا کام غالباً سب سے زیادہ تعلیم یافتہ اور ذہین جرنیل نقوی صاحب کے ذمہ لگایا۔ اس کالم نگار کو ان کے اعزازی مشیروں میں سے ایک ہونے کا اعزاز حاصل ہے۔ اگر ہمارے ملک میں کبھی بہار نے خزاں کی جگہ لی تو نئے نظام کا طرۂ امتیاز مقامی حکومتوں کا یہی عوام دوست نظام ہوگا جو سلطانیٔ جمہور کی عمارت کی بنیاد بنے گا۔ پرویز مشرف نے دوسرا اتنا ہی اچھا کام یہ کیا کہ بھارت کے دو وزرائے اعظم‘ اٹل بہاری واجپائی اور منموہن سنگھ کے ساتھ قریبی تعلق قائم کرکے دو پڑوسی ممالک میں سیاسی کشیدگی اور سرد جنگ کو ختم کرنے کی ہر ممکن کوشش کی۔ صدر پرویز مشرف کے اقتدار کا سورج وکلا کی بہادرانہ اور تاریخ ساز جدوجہد کی وجہ سے غروب ہوا تو ان کے جانشینوں نے ان کے بنائے اور نافذ کردہ مقامی حکومتوں کے قابلِ صد تعریف نظام کی بساط اس طرح لپیٹ دی کہ وہ گزرے ہوئے پندرہ برسوں میں دوبارہ نہ کھل سکی۔ پرویز مشرف مصطفی کمال اتا ترک کی متعدد خصوصیات کے حامل تھے۔ اتاترک نے اپنی شکست خوردہ قوم کو مغربی طاقتوں کے غاصبانہ قبضہ سے بچایا جبکہ پرویز مشرف نے ملکِ عزیز میں مغربی سامراج کو اپنے پنجے مضبوطی سے گاڑنے کیلئے کلیدی کردار ادا کیا۔ وہ امریکی مفادات کو ہمیشہ مقدم رکھتے تھے۔ صدر ضیا الحق اور صدر پرویز مشرف کی عادات اور ترجیحات ایک دوسرے سے یکسر مختلف تھیں مگر کمال کی بات یہ ہے کہ دونوں میں ایک قدر مشترک تھی‘ اور وہ تھی امریکی مفادات کو اولین ترجیح بنانا۔ پرویز مشرف کے برسر اقتدار آنے کا پاکستان کو ایک بڑا فائدہ یہ پہنچ سکتا تھا کہ وہ چند کوتاہ اندیش اور پاپولسٹ سیاست دانوں کی مخالفت کو نظر انداز کرکے کالا باغ ڈیم بنا دیتے لیکن بدقسمتی سے وہ یہ موقع بھی گنوا بیٹھے۔ اگر آپ وہ واقعات پڑھ لیں جو پرویز مشرف پر غداری کا مقدمہ چلانے کی ناکام (Farcical) کوشش کے دوران پیش آئے تو آپ حیرت زدہ رہ جائیں گے کہ کیسے آئین شکنی کا ملزم عدالت کے بجائے ہسپتال اور وہاں سے دبئی اور پھر وہاں سے لندن پہنچ گیا۔ کالم ختم کرنے سے پہلے مجھے پاکستان کی پارلیمان کے ایوانِ بالا کے معزز اراکین کا شکریہ ادا کرنا ہے جنہوں نے ایوان میں پرویز مشرف کی مغفرت کے لیے دعا مانگنے سے انکار کر دیا۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved