جس طرف بھی دیکھیں‘ درماندگی، بے چارگی، پسماندگی اور انحطاط نظر آتا ہے۔ کوئی ایک شعبہ بھی تسلی بخش نہیں ہے۔ بحیثیت قوم ہم تو مشکل حالات کا شکار ہیں ہی‘ پوری مسلم امہ زبوں حالی اور پسماندگی کا شکار نظر آتی ہے اور اس کی ایک ہی وجہ ہے کہ رب کریم کی دی گئی کتاب اور رسول اللہﷺ کی تعلیمات کو ہم ظاہری طور پر تو نہیں‘ لیکن عملی طور پر کب کے چھوڑ چکے ہیں۔ تاجدارِ ختم نبوت سیدنا محمد مصطفیﷺ نے آخری خطبہ دیتے ہوئے ارشاد فرمایا تھا: میں تم میں دو چیزیں چھوڑے جا رہا ہوں کتاب اللہ اور میری سنت، جب تک ان کو تھامے رکھو گے، گمراہ نہیں ہو گے۔ اللہ تعالیٰ نے قرآنِ مجید میں فرمایا: اللہ کی رسی کو مضبوطی سے تھام لو اور تفرقے میں نہ پڑو۔ (آلِ عمران: 103) مگر ہم نے سب سے پہلے اس حکم کو فراموش کیا اور اسی لیے صدیوں پہ محیط یہ زوال و انحطاط آج ہمارا مقدر ہے۔
ہر معاشرے اور سوسائٹی کے کچھ بنیادی قوانین اور ضابطے ہوتے ہیں۔ اگر ان طے شدہ ضابطوں اور قوانین کو پس پشت ڈال کر ان کو مخصوص طبقے کے مفاد کیلئے استعمال کرنا شروع کر دیا جائے یا اگر کوئی ضابطہ کسی دوسرے کے حق میں جانے کا امکان ہو تو اس شق اور قاعدے کو ہی روند دیا جائے تو وہ معاشرہ جنگل بن جاتا ہے۔ صدیوں کا انسانی شعور اس نکتے پر یکجا ہے کہ قوموں کی تباہی بیرونی حملوں سے نہیں ہوتی بلکہ اندرونی شکست و ریخت انہیں زوال سے دوچار کرتی ہے اور قوموں کا زوال اس وقت شروع ہوتا ہے جب امیر و غریب اور طاقتور و کمزور میں ان کی حیثیت، دولت اور سماجی رتبے کی بنیاد پر تفریق کی جانے لگے۔ اگر مرغی چور اور دھنیا چور کو سالہا سال تک جیلوں میں قید رکھا جائے اور اربوں‘ کھربوں لوٹنے والوں کی راہ میں پلکیں بچھائی جائیں تو معاشرے میں قانون کا احترام کیسے لاگو ہو سکتا ہے؟ اگر طاقتور مجرم تمام تر جرائم کے باوجود بری ہو جائے اور ایک کمزور ملزم محض شک کی بنیاد پر اپنی پوری زندگی زندان خانے میں گزار دے تو معاشرے میں انصاف کی قدروں کو کیسے فروغ دیا جا سکتا ہے؟ معاشرے یکساں اصولوں، قوانین اور ضوابط کی بنیاد پر قائم رہتے ہیں اور انہی کی بنیاد پر پنپتے ہیں۔ اگر کوئی اصول و ضوابط اور معاشرتی روایات و اقدار کو اپنے مخصوص مفادات کے تحت موڑنے کی کوشش کرے تو اس عمل کا نتیجہ سمجھانے کی ضرورت نہیں۔
اگر ملک کے سیاسی منظر نامے پر نظر ڈالیں تو سوائے یاسیت اور مایوسی کے کچھ ہاتھ نہیں آتا۔ ہر دو فریق باہم دست و گریبان ہیں۔ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ 90 روز کی مدت میں الیکشن کراناکچھ لوگوں کی چڑ بن چکی ہے۔ پنجاب اور کے پی میں الیکشن کا معاملہ اس وقت چونکہ سپریم کورٹ میں زیرِ سماعت ہے‘ اس لیے اعلیٰ عدلیہ اور معزز ججوں سے متعلق طرح طرح کی باتیں کی جا رہی ہیں۔ ایک اہم ملکی ادارے کی بنیادوں میں دیمک بھرنے کا جو عمل شروع کیا گیا ہے‘ یہ کسی کے لیے بھی فائدہ مند نہیں ہو سکتا۔ نادان شاید آج کچھ سیاسی مقاصد بٹور لیں مگر یہ نہیں جانتے کہ اگر ملکی اداروں کی بنیادیں کھوکھلی ہو گئیں تو پھر قومی وحدت ایک دیوانے کا خواب بن کر رہ جائے گی۔ چشم فلک یہ منظر بھی دیکھ رہی ہے کہ جس کے پاس ذرا سا بھی اختیار ہے‘ وہ اس طاقت کا صحیح‘ غلط استعمال کر کے ہر ممکن کوشش کر رہا ہے کہ کسی طرح نوے روز میں انتخابات کرانے کا راستہ روکا جائے۔ نوے روز تو خیر ویسے بھی گزر چکے ہیں اور اعتزاز احسن جیسے نامور قانون دان ذمہ داران پر آئین شکنی کا مقدمہ چلانے کے علاوہ وزیراعظم اور وزیر داخلہ کے خلاف توہینِ عدالت کی کارروائی کا مطالبہ بھی کر رہے ہیں۔
اگر ہم تاریخ سے سبق نہیں سیکھیں گے تو تاریخ ایک بار پھر جسٹس منیر جیسے کرداروں کی شکل میں خود کو دہراتی رہے گی۔ کل تک جو جسٹس منیر کو ملک کو غلط راہ پر گامزن کرنے پر موردِ الزام ٹھہراتے تھے‘ آج خود بھی اسی کے نقشِ قدم پر چل رہے ہیں۔ جب حکومت یہ کہتی ہے کہ موجودہ حالات میں نوے دن میں الیکشن کرانے کی آئینی شق پر عمل نہیں کیا جا سکتا تو اس بیانیے میں اور جسٹس منیر کے ''نظریۂ ضرورت‘‘ میں کیا فرق ہے؟ آج حکومت یہ کہہ کر الیکشن کرانے سے انکاری ہے کہ اس سے ملک میں افراتفری پھیلنے کا خدشہ ہے۔ بالکل یہی بات جسٹس منیر نے اپنے فیصلے میں لکھی تھی کہ اگر وہ یہ فیصلہ نہ دیتے تو ملک میں انقلاب آ جاتا اور بہت خون ریزی ہوتی۔ چہرے بدل گئے مگر جواز اب بھی وہی ہیں۔
جب ملک کے آئین و قانون پر عمل درآمد نہ کیا جائے اور حیلہ گری کی جائے تو جو نتیجہ نکل سکتا ہے‘ اس کا اندازہ لگانا مشکل نہیں۔ یہ حکومت‘ یہ پارلیمنٹ اسی آئین کی مرہونِ منت ہے جس پر عمل کرنے سے وہ انکاری ہے۔ اس ملک کی غالب اکثریت‘ جن کے دم قدم سے یہ معاشرہ ہے‘ اگر برف پوش پہاڑوں، میدانوں اور تپتے صحرائوں میں گھوم پھر کر‘ ایک کونے سے دوسرے کونے تک‘ شہروں، قصبوں اور دیہات کے لوگوں سے بات کریں ان سے اس کی دلی رائے پوچھیں تو سب اس انتظار میں بیٹھے ہیں کہ اپنے ووٹ کی طاقت کا عملی مظاہرہ دیکھیں۔ اگر کوئی ان کی امانت میں خیانت کرے‘ ان کا حق دھوکے اور فریب سے ہتھیا کر بیٹھ جائے تو اس کا یہ فعل آئینِ پاکستان سے صریح انکار نہیں تو اور کیا ہے؟ کیا آئین و قانون کے ماہرین یہ بتا سکتے ہیں کہ اگر عوام سے‘ اس ملک کی دو ا کائیوں سے ان کا حقِ انتخاب چھین لیا جائے‘ اگر ان کے ووٹوں کی امانت میں خیانت کو وتیرہ بنا لیا جائے تو پھر لوگ کس طرف جائیں؟ اگر آئین و قانون اور اعلیٰ ترین عدلیہ کے احکامات کا اس طرح مذاق اڑانا شروع کر دیا جائے‘ جیسے گزشتہ تین ماہ سے اڑایا جا رہا ہے تو پھر لوگوں کا اس نظام پر‘ جمہوریت پر اعتماد کیسے بر قرار رکھا جا سکتا ہے؟
جب آپ تسلیم کر رہے ہیں کہ آئینِ پاکستان میں 184(3) کی شق مظلوموں کی دادرسی کیلئے رکھی گئی ہے تو وہ مظلوم‘ جن کی چادر اور چار دیواری کے تقدس کو روندا جا رہا ہے‘ ان کو ان کا حق دلانے کیلئے لیا جانے والا نوٹس غیر آئینی کیسے ہو سکتا ہے؟ اسمبلی تحلیل ہونے کے بعد نوے دنوں کے اندر انتخابات کی شق دوسری عالمی جنگ کے پس منظر میں ہالی وڈ کی فلمائی جانے والی فلم A Bridge Too Far کی یاد دلانے لگی ہے۔
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved