پی ڈی ایم اور تحریک انصاف کے درمیان سیاسی درجہ حرارت نارمل ہوتا دکھائی دے رہا ہے۔ پی ڈی ایم کی کچھ جماعتیں تحریک انصاف سے مذاکرات کے حق میں ہیں لیکن ابھی تک کی اطلاعات کے مطابق جے یو آئی ایف تحریک انصاف کے ساتھ بیٹھنے کو تیار نہیں۔ مولانا فضل الرحمن ماضی میں مذاکرات کی سیاست کو فروغ دینے کا مطالبہ کرتے رہے ہیں‘ ان کی جانب سے پی ٹی آئی سے مذاکرات سے انکار کی پالیسی حیران کن ہے۔ بعض ذرائع کا دعویٰ ہے کہ مسلم لیگ (ن) میں بھی سب حلقے مذاکرات کے حامی نہیں ہیں۔ مسلم لیگ (ن) کے قائد میاں نواز شریف اور مریم نواز تحریک انصاف سے بات چیت کے مخالف ہیں لیکن پیپلز پارٹی اور شہباز شریف کے مطالبے پر وہ کسی حد تک راضی ہو گئے ہیں۔ درجہ حرارت کم ہونے کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ تحریک انصاف کو اب یہ یقین ہو گیا ہے کہ 14 مئی کو الیکشن نہیں ہوں گے۔ جلد انتخابات مذاکرات ہی سے ممکن ہیں۔ اسی لیے اب بیک ڈور رابطے ہو رہے ہیں اور چاروں اطراف سے معاملات کو سنبھالنے کی کوشش کی جارہی ہے۔اس میں سول سوسائٹی اور ادارے بھی اہم کردار ادا کر رہے ہیں۔ وزیر دفاع نے صاف الفاظ میں اداروں کے کردار ادا کرنے کی توثیق کی ہے۔ فواد چودھری نے بھی کہا ہے کہ ادارے براہِ راست تحریک انصاف کیساتھ بات کریں۔ اس وقت سڑکوں پر آنے‘ لانگ مارچ کرنے یا دھرنا دینے کی بات نہیں ہو رہی۔ شاید ملک اس وقت اس طرح کے کسی ایڈونچر کا متحمل بھی نہیں ہو سکتا کیونکہ معاشی اعتبار سے حالات انتہائی نازک موڑ پر آ چکے ہیں۔
پاکستان کی بڑی صنعتوں کی پیداوار میں فروری میں پچھلے سال کے مقابلے میں تقریباً 12 فیصد کی کمی ریکارڈ کی گئی ہے جس کی وجہ سے بڑی برآمدی صنعت یعنی ٹیکسٹائل میں بڑے پیمانے پر ملازمتیں کم ہوئی ہیں۔ ادارۂ شماریات کے جاری کردہ اعداد و شمار کے مطابق صنعتی پیداوار میں سست روی میں نمایاں حصہ ٹیکسٹائل سیکٹر کا رہا کیونکہ اس سیکٹر کی برآمدات میں دہرے ہندسے کی کمی ہوئی جبکہ آنیوالے مہینوں میں برآمدات میں مزید کمی کا خدشہ ہے۔ رواں مالی سال میں بڑی صنعتوں کی پیداوار مسلسل چھ مہینے سے تنزلی کا شکار ہے جس سے معاشی نمو میں مزید کمی کا عندیہ ملتا ہے، اس بات کا اندازہ لگایا گیا ہے کہ چوتھی سہ ماہی زیادہ متاثر ہوسکتی ہے کیونکہ صنعتوں کے لیے توانائی کی سبسڈی ختم ہونے کیساتھ صنعتی خام مال کی لاگت بلند ترین سطح پر ہے۔ آئی ایم ایف نے حال ہی میں مالی سال 2023ء کے لیے پاکستان کی معاشی شرحِ نمو نظرثانی جائزے کے بعد کم کر کے 0.5 فیصد کی ہے۔ اسی طرح ورلڈ بینک اور ایشیائی ترقیاتی بینک نے بھی بالترتیب 0.4 فیصد اور 0.6 فیصد کی پیش گوئی کی ہے۔بڑی صنعتوں کی پیداوار میں سال بہ سال جولائی تا فروری 5.56 فیصد کی کمی ہوئی۔ گزشتہ مالی سال میں بڑی صنعتوں کی پیداوار میں سالانہ بنیادوں پر 11.7 فیصد کمی ریکارڈ کی گئی۔ واضح رہے کہ لارج سکیل مینوفیکچرنگ (ایل ایس ایم) صنعتوں کے لیے پیداوار کا تخمینہ 2015-16ء کے نئے بنیادی سال کا استعمال کرتے ہوئے لگایا گیا۔
آنے والے دنوں میں معیشت سست روی کا شکار رہ سکتی ہے جس کی وجہ توانائی اور خام مال کی بلند قیمتوں کے ساتھ درآمدی پابندیاں ہیں۔ برآمدی صنعتوں نے پہلے ہی اپنی پیداوار میں کمی کا عندیہ دیا ہے جس کی وجہ توانائی اور دیگر خام مال کی بلند لاگت اور بجلی پر سے سبسڈی کے خاتمے کو قرار دیا جا رہا ہے۔ فروری میں آٹو سیکٹر کی پیداوار 64.08 فیصد تک گر گئی، بسوں اور ڈیزل انجن کی تقریباً تمام قسم کی گاڑیوں کی پیداوار میں کمی ہوئی۔ یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ مسلم لیگ (ن)‘ جو کاروباری طبقے کی جماعت سمجھی جاتی ہے‘ وزارتِ عظمیٰ اور وزارتِ خزانہ اس کے پاس ہیں‘ اقتدار میں آنے سے پہلے اس نے کاروباری طبقے کو ترقی اور خوشحالی کی خوب یقین دہانیاں بھی کرائی تھیں‘ وہ اس معاشی تباہی پر ہاتھ دھرے کیوں بیٹھی ہے؟ پہلی مرتبہ ایسا ہوا ہے کہ چیمبر آف کامرس نے سٹیٹ بینک کے سامنے احتجاج کیا۔ اپٹما کے چیئرمین نے ہاتھ جوڑ کر وزارتِ خزانہ سے ڈوبتی ہوئی ٹیکسٹائل کو بچانے کی التجا کی۔ ایک سال میں جتنا کچھ بدل گیا ہے‘ وہ گزشتہ سال تک ناقابلِ تصور تھا۔ یہ سلسلہ کہاں جا کر رکے گا‘ اس بارے میں مکمل یقین سے کچھ کہنا ممکن نہیں ہے لیکن خدشہ ہے کہ آنے والے دن نہ صرف کاروباری طبقے کے لیے بلکہ عام عوام کے لیے بھی اچھی خبریں نہیں لائیں گے اور معیشت روز بروز تنزل کا شکار رہے گی۔
دوسری طرف وفاقی حکومت نے مالیاتی مسائل کا حوالہ دیتے ہوئے ترقیاتی منصوبوں کے لیے مختص کیے گئے 800 ارب روپے کے بجٹ کو ایک چوتھائی کم کرکے 600 ارب روپے کر دیا ہے۔ یہ مسلسل دوسرا سال ہو گا جب کم فنڈز کے حامل انفراسٹرکچر کی تعمیر مختص کیے گئے بجٹ میں سخت کٹوتیوں کی وجہ سے محدود رہے گی۔گزشتہ مالی سال میں ترقیاتی منصوبے کے لیے مختص 900 ارب کے مقابلے میں 550 ارب جاری ہوئے تھے جس میں تقریباً 40 فیصد کمی آگئی تھی اور اپریل سے جون کی سہ ماہی میں حکومت کی تبدیلی کی وجہ سے کوئی فنڈ جاری نہیں ہوا تھا۔ مالی مسائل اور گزشتہ برس کے بدترین سیلاب کے باوجود اپریل سے جون تک رواں مالی سال کی چوتھی سہ ماہی کے لیے پی ایس ڈی پی منصوبوں کے لیے 129 ارب روپے جاری کرنے کا اختیار دیا گیا۔وزارت کی جانب سے فنڈز کے اجرا کے طریقہ کار کے تحت مذکورہ اختیار 145 ارب روپے کا ہونا چاہیے تھا، طریقہ کار کے مطابق مالی سال کی پہلی سہ ماہی میں ترقیاتی منصوبوں کے لیے مختص بجٹ کا 20 فیصد جاری کرنے کی ضرورت ہوتی ہے، اس کے بعد دوسری اور تیسری سہ ماہی میں 30،30 فیصد اور بقیہ چوتھی سہ ماہی میں 20 فیصد کا اجرا ہونا چاہیے۔ سابقہ فاٹا کے مخصوص علاقوں کے لیے اب 27 ارب روپے جاری کیے جا رہے ہیں اور مجموعی طور پر 31 مارچ سے قبل جاری ہونے والے 52 ارب روپے سمیت تقریباً 79 ارب روپے جاری کر دیے گئے ہیں۔مذکورہ تین شعبوں میں ترقیاتی منصوبے پر فنڈنگ کی وجہ سے انتہائی منفی اثرات مرتب ہو سکتے ہیں کیونکہ اس کے لیے 72 ارب روپے سے زیادہ کا اختیار نہیں دیا گیا جو مختص کردہ رقم کا تقریباً نصف ہے۔
منصوبہ بندی ڈویژن کے مطابق حکومت معاشی مسائل پر قابو کرنے کی کوشش کر رہی ہے اور ترقیاتی منصوبوں کے لیے کئی اقدامات کر چکی ہے، خاص طور پر بلوچستان میں ترقیاتی کاموں کے لیے اقدامات کیے گئے ہیں جہاں گزشتہ برس سیلاب سے بدترین تباہی ہوئی تھی۔ ممکن ہے کہ سرکار بلوچستان پر خصوصی توجہ دے رہی ہو لیکن سمگلنگ کی وجہ سے بلوچستان میں قاعدے قانون کے مطابق کام کرنے والی صنعتیں بند ہو رہی ہیں۔ سمگلنگ کی وجہ سے بلوچستان میں سریا بنانے والی صنعت تباہ ہورہی
ہے جس کے سبب ہزاروں افراد بیروزگار ہو رہے ہیں۔ سریا تیار کرنے والے اداروں کی تنظیم نے وزیراعظم شہباز شریف کو خط لکھ کر مطلع کیا ہے کہ بلوچستان میں فروخت ہونے والا 80 فیصد سریا ایران سے بذریعہ سمگلنگ، مس ڈکلیئریشن اور انڈر انوائسنگ آرہا ہے۔ کمزور نگرانی کی وجہ سے سمگل شدہ سریا اب لاہور، کراچی اور دیگر شہروں تک پہنچ چکا ہے۔ ایران اور افغانستان سے تقریباً 5 لاکھ ٹن سریا سمگل ہو کر پاکستان کے مختلف حصوں میں آتا ہے جو مقامی مینوفیکچررز کے لیے شدید جھٹکا ہے۔ ایک اندازے کے مطابق غیر قانونی طریقے سے آنے والا سریا پاکستان کی کل پیداوار کا 10 فیصد ہے جس کی وجہ سے قومی خزانے کو تقریباً 25 ارب روپے سالانہ کا نقصان ہورہا ہے۔ مقامی صنعتوں کو سمگلنگ سے ملک میں مرتب ہونے والے اثرات پر شدید تشویش ہے۔ اس سے خاص طور پر منی لانڈرنگ جیسے مسائل میں اضافہ ہوا ہے کیونکہ پاکستان اور ایران کے مابین کوئی باضابطہ بینکنگ چینل نہیں ہے۔ محکمہ کسٹمز نے مارچ میں سمگل شدہ ایرانی سریے کے بڑے ٹرک پکڑے تھے اور متعلقہ افراد کے خلاف مقدمہ بھی درج کیا تھا۔ رواں مہینے کے اوائل میں بھی چمن سرحد کے قریب سمگل شدہ سریے کے ایک ٹرک کو قبضے میں لیا گیا۔حکومت نے اس غیر قانونی سرگرمی کو روکنے کیلئے مؤثر اقدامات کی متعدد درخواستوں کے باوجود اس کی روک تھام کیلئے کوئی اقدام نہیں کیا۔ میں سمجھتا ہوں کہ سریے کی درآمدات کی اجازت صرف سمندری راستے سے ہونی چاہیے تاکہ سمگلنگ پر مؤثر انداز میں قابو پایا جاسکے۔مقامی صنعت پہلے ہی کرنسی کی بے قدری اور خام مال کی بڑھتی لاگت کے سبب مشکلات سے دوچار ہے۔اب سریے کی سمگلنگ نے انڈسٹری کے لیے بقا کے مسائل پیدا کردیے ہیں۔ خام مال کی قلت کی وجہ سے پیداواری سرگرمیاں رک گئی ہیں اور متعدد یونٹس اپنی گنجائش سے بہت کم پر کام کررہے ہیں۔
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved