پاکستان سمیت کسی بھی ریاست کی عملی تعریف تین چیزوں پر مشتمل ہے۔ پہلا: رقبہ‘ دوسرا: اس میں بسنے والے لوگ اور تیسرا: اس کے ادارے۔ لیکن ان تینوں کو ایک صف میں کھڑا کرنے کے لیے جو عمرانی معاہدہ چاہیے ہوتا ہے‘ اسے دستور کہتے ہیں یا فائونڈنگ ڈاکیومنٹ۔ نیشن سٹیٹ کا زمانہ آنے کے بعد کوئی ایک بھی ایسا ملک نہیں جس کی بنیاد اور تاسیس میں دستور موجود نہ ہو۔ قوموں کے یہ دساتیر اکثر تحریری شکل میں ہیں لیکن خال خال Unwritten Constitutionبھی موجود ہیں جس کی سب بڑی مثال برطانیہ سے ملتی ہے۔
وطن عزیز میں 2 مرتبہ آئین بنائے گئے۔ پہلا 1956ء میں دوسرا اس کے 17سال بعد 1973ء میں۔ 1956ء کے آئین کو مارشل نظامِ حکومت کے لاء نے توڑ ڈالا جس کے نتیجے میں مشرقی پاکستان بھی توڑ ڈالا گیا۔ زندہ قوموں اور معاشروں میں ملک توڑنے والوں پر زندگی میں زمین تنگ کر دی جاتی ہے اور مرنے کے بعد انہیں دفنانے والا کوئی نہیں ملتا لیکن ہماری Motherlandتوڑنے والوں کی میتوں پر پرچم ڈالے گئے‘ پھول سجائے گئے اور ان کی قبروں پر کتبے لگائے گئے۔
ریاستِ پاکستان نے از خود مشرقی پاکستان توڑنے والوں کو بے نقاب کرنے کے لیے حمودالرحمن کمیشن کی شکل میں ایک کورٹ انکوائری سجائی۔ جس کے تمام نامزد ملزم بچ نہیں نکلے بلکہ بچا لیے گئے۔ بھارت میں جا کر شائع ہونے والی حمودالرحمن کمیشن کی اس رپورٹ کی ہوشربا کہانیاں اور دلخراش واقعات سامنے آتے رہتے ہیں۔ ایسے واقعات جنہیں پڑھنا شروع کریں تو لہو اُبکائی آتی ہے۔
پنجابی فلم مولا جٹ کے قلم کار ناصر ادیب نے کیا بامعنی اور ہشت جہت ڈائیلاگ لکھا ''مولے نوں مولا نہ مارے تے مولا نئیں مردا‘‘۔ 1947ء والے پاکستان کے ٹوٹنے کی ناصر ادیب کی ترکیبِ لفظی اس طرح ہے ''پاکستان کو پاکستانی نہ توڑتے تو پاکستان کبھی نہ ٹوٹتا‘‘۔
اس وقت جب یہ وکالت نامہ لکھا جا رہا ہے‘ ایک ہی رات میں آزاد ہونے والے تین ملکوں بنگلہ دیش‘ پاکستان اور بھارت پر ایک نظر ڈالنا ضروری ہے۔ بھارت میں G-20کے ممالک کی کانفرنس مقبوضہ کشمیر میں منعقد کرائی جا رہی ہے۔ بنگلہ دیش میں 52ارب امریکی ڈالر کی معیشت کو 100ارب امریکی ڈالر کی معیشت بنانے کی منصوبہ سازی جاری ہے۔ بھارت کا مقصد عالمی دنیا کو فریب دینا ہے تا کہ اقوام متحدہ میں وہ کشمیریوں کے خلاف مقدمہ مضبوط بنا سکے۔ بنگلہ دیش نے علاقائی ٹائیگر بننے کے لیے کیچڑ اور پانی میں پُر علاقے کا سب سے لمبا پل تعمیر کیا ہے جس میں چائنہ سے مالی اور تکنیکی مدد لی گئی۔ بنگلہ دیش وَن بیلٹ وَن روڈ کے راستے پر چل نکلا ہے۔ ان دونوں ملکوں کی لیڈر شپ اپنے اپنے آئین میں درج آئینی مدت کے اندر الیکشن کروا کر لوگوں کی طاقت کے بل بوتے پر اقتدار میں آئی۔
اب آئیے وطنِ عزیز کے اندر جاری منصوبہ سازی کی طرف۔ ریاست کے سارے بڑے ستون اس وقت تین قومی مسائل حل کرنے میں لگے ہوئے ہیں۔ یہ مسائل کسی یہودی سازش سے پیدا نہیں ہوئے نہ ہی بھارت کی مداخلت سے۔ یہ مسائل انہوںنے پیدا کیے ہیں جنہوں نے وطنِ عزیز پاکستان کے مقابلے میں پاکستان کو ہی اکھاڑے میں اتار رکھا ہے۔
پہلا قومی مسئلہ: یہ ایک ایسا مسئلہ ہے جسے آئین نے طے کر دیا کہ ٹوٹنے والی اسمبلیوں کے الیکشن 90دن کے اندر اندر ہوں گے۔ قومی ادارے اس بحث میں الجھے ہوئے ہیں کہ 90 دن کا مطلب 190 دن ہے یا 390 دن۔ جو حکومتیں آئین کے اندر درج 90 دن کی مدت کے لیے عارضی طور پر آئی تھیں‘ وہ الیکشن کے بجائے سلیکشن کے نتیجے میں 90 دن کا آئینی عرصہ پورا کرنے کے بعد بھی پنجاب اور کے پی میں مسندِ اقتدار پر بیٹھی ہوئی ہیں۔ ان کے سلیکٹرز کا کہنا ہے‘ حکومتیں 90 دن میں لانے کے بعد آئین ان حکومتوں کو ہٹانے کے بارے میں خاموش ہے۔ ایک ادارہ کہتا ہے کہ الیکشن تین سال تک آگے کھینچنے سے آئین نہیں ٹوٹے گا۔ دوسرے ادارے کا خیال ہے کہ سارے مل کر 90 دن والا آرٹیکل 224 توڑیں تو سنگین غداری نہیں بنے گا۔ وہ وزارت جس کا عنوان ہی لوگوں کا دفاع کرنا ہے‘ اس نے ایک لکھ کر دی گئی رپورٹ میں بتایا کہ اگر الیکشن 90 دن میں ہوئے تو اس کا فائدہ بھارتی انٹیلی جنس را اٹھائے گی۔ چھوٹی چھوٹی نوکریوں‘ بے توقیر وظیفوں اور بے حیثیت عہدوں پر بیٹھے ہوئے خوف زدہ طبلچی کہتے ہیں کہ الیکشن کرانے سے ملک کی سلامتی کو نقصان پہنچے گا۔ جس بھارت کا ہوا دکھا کر الیکٹڈ کے بجائے سلیکٹڈ حکومت جاری رکھنے پر اصرار کیا جارہا ہے‘ اس کی اپنی مرکزی اسمبلی اور 48 ریاستی اسمبلیوں کے الیکشن کبھی ایک دن منعقد نہیں ہوئے۔ ایسے میں اگر کوئی ترکیہ کی مثال دے کر کہے کہ وہاں زلزلے اور اس کے بارڈر پر علاقائی جنگوں کے باوجود ترکیہ کے عظیم رہنما طیب اردوان نے پھر سے الیکشن کا شیڈول جاری کروا دیا ہے تو تب بھی کہتے ہیں ترکیہ کی بات دوسری ہے‘ پاکستا ن میں کچے کے ڈاکوئوں سے ریاست کی سلامتی کو خطرہ ہے۔ وہ سارے حیلے جو سوچے جا سکتے ہیں اور وہ سارے بہانے جو بنائے جا سکتے ہیں‘ ان کے ذریعے پورے قومی وسائل جھونک کر الیکشن روکنے پر زور لگایا جا رہاہے ۔ یہ ہے اس عظیم جمہوری سلطنت کا سب سے بڑا مسئلہ۔
دوسر ا قومی مسئلہ: ایک پاپولر لیڈر اور ایک عوامی پارٹی کی پذیرائی کا خطرہ ہے۔ اس خطرے کے پیشِ نظر دھن‘ دھونس‘ دھاندلی‘ بارود‘ ہتھکڑیاں‘ جیلیں‘ چھاپے سب کچھ استعمال کرکے بولنے والوں کی زبانیں بند کرنے کی سعیِ لاحاصل جاری ہے۔ عارضی حکومتوں کے فرضی وزیر کہتے ہیں کہ قوم کا پہلا مسئلہ یہ ہے کہ 23کروڑ لوگ اپنا فیصلہ ووٹ کے ذریعے نہ کریں‘ آئین کی طرف مت دیکھیں بلکہ بیٹھ کر حصہ بقدرِ جثہ والی بندر بانٹ کر لیں۔ پنجابی میں کہتے ہیں ''ونڈ کھائو کھنڈ کھائو‘‘۔ اتنے طاقتور لوگ جو پاکستانی ہیں‘ وہ اپنے مقابلے پر آئے ہوئے چھوٹے چھوٹے پاکستانی لڑکے اور لڑکیوں سے اس قدر خوف زدہ ہیں کہ کوئی سوچ بھی نہیں سکتا تھا۔ یہ ہے آئینی ریپبلک کا دوسرا قومی مسئلہ۔
تیسرا قومی مسئلہ: تیسرا قومی مسئلہ بڑوں کی تنخوایں بڑی کرنا۔ ان کے بنگلے بڑے کرنا اور ان کے ڈالر اکائونٹ کو مزید صحت مند بنانا۔ 23 کروڑ پاکستانیوں میں سے 14‘15 لاکھ پاکستانیوں کو چھوڑ کر باقیوں کی تنخوایں کم کرنا۔ ان کی جھگیوں اور گھروں میں بجلی گیس کے بل بڑھانا اور ان کو ملنے والی سبسڈی ختم کرکے ان پر ٹیکسوں کو موٹے سے موٹا کرتے جانا۔ سرکاری اداروں‘ کمپنیوں اور ہر رنگ کی بیوروکریسی کے لیے سب کچھ مفت رکھنا اور ان کے مفتا لگانے پر اٹھنے والے اخراجات کو مہنگائی کی صورت میں عوام کے گلے میں ڈالنا۔
لیجیے خواتین و حضرات! پاکستان بمقابلہ پاکستان اس میچ میں ایک بار پھر قوم کی واضح شکست اور قومی سلامتی کی واضح فتح۔ عید کی مبارک سے پہلے یہ مقابلہ جاری رکھتے ہیں۔
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved