یوں تو دنیا کے ہر بڑے شہر میں زندہ رہنے کی بڑی قیمت ہی ادا کرنا پڑتی ہے مگر کراچی کا معاملہ خاصا مختلف ہے۔ یہاں زندہ رہنے کی قیمت حاصل شدہ سہولتوں کے تناسب سے کہیں زیادہ ہے۔ کسی بھی بڑے شہر کے معاملات کا جائزہ لیجیے تو اندازہ ہوگا کہ لوگ بنیادی سہولتوں سے کماحقہٗ اور بہ آسانی بہرہ مند ہوتے ہیں۔ یہاں بنیادی سہولتوں کے لیے بھی اچھی خاصی ادائیگی کرنا پڑتی ہے۔ آج کا پاکستان اگر کل کو کسی بات کے لیے یاد رکھا جائے گا تو وہ ہوگی زندگی کی انتہائی قیمت۔ اور قیمت بھی کیوں کہیے، سیدھا سیدھا تاوان ہی کیوں نہ کہیے۔ ہم آج زندہ رہنے کا تاوان ہی تو ادا کر رہے ہیں۔ حکمراں طبقے نے تمام معاملات کو اپنے پنجے اور شکنجے میں یوں کَس لیا ہے کہ عام آدمی کے لیے تو ڈھنگ سے سانس لینا بھی دوبھر ہوگیا ہے۔ زندہ رہنے کی قیمت بڑھتی جارہی ہے۔ روز افزوں مہنگائی سبھی کی کمر توڑنے پر تُلی ہوئی ہے۔ ہر طبقہ پریشان دکھائی دے رہا ہے۔ جس کی جیب خالی ہے وہ بھی رو رہا ہے اور جس کی تجوری بھری ہوئی ہے ہنس وہ بھی نہیں رہا۔ یہ بڑی عجیب کیفیت ہے۔ حواس مختل ہوئے پڑے ہیں۔ آنکھ جو کچھ دیکھتی ہے اُس پر یقین کرنے کو جی نہیں چاہتا۔ کوئی کرے تو کیا کرے؟
حکومت یکسر بے بس دکھائی دے رہی ہے۔ معاملات روز بروز بگڑتے ہی جارہے ہیں۔ سیاسی بحران نے معاشی بحران کو مزید سنگین اور گہرا کردیا ہے۔ معیشت کی حالت ایسی ہے کہ دنیا ہم پر کسی بھی معاملے میں بھروسا کرنے کو تیار نہیں۔ بیرونِ ملک مقیم پاکستانی بھی ملک کے لیے کچھ خاص کرنے کی پوزیشن میں نہیں۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ حالات کی سنگینی بڑھتی جارہی ہے۔ کوئی کتنا ہی سوچے، ذہن الجھتا ہی جاتا ہے، سلجھنے کا نام نہیں لیتا۔ ویسے تو خیر کورونا کی وبا نے بھی اچھی خاصی قیامت ڈھائی تھی مگر اس ایک سال کے دوران تو معاملات ہاتھ ہی سے نکل گئے ہیں۔ عالمی مالیاتی ادارے کھلواڑ کر رہے ہیں۔ آئی ایم ایف نے پاکستان کے لیے قرضوں کا نیا پیکیج منظور کرنے کے معاملے کو اِتنا طُول دیا ہے کہ پوری قوم شدید ذہنی خلجان میں مبتلا ہوگئی ہے۔ حکومت کی کمزوریوں کا بھرپور فائدہ صرف اپوزیشن نہیں اٹھا رہی، عالمی مالیاتی ادارے بھی جانتے ہیں کہ پی ڈی ایم حکومت کے ہاتھ پاؤں بندھے ہوئے ہیں۔ اِس حکومت سے جس طرح چاہو کھیلو، کہیں کوئی خطرہ نہیں۔ کوئی جوابی وار تو اُس وقت ہو جب سانس لینے کی گنجائش دکھائی دے رہی ہو۔
اپوزیشن انتخابات کے مطالبے پر ڈٹی ہوئی ہے اور حکومت کہتی ہے کہ قومی خزانہ انتخابی اخراجات کی اجازت نہیں دے رہا۔ مردم شماری پر بھی خاصی خطیر رقم خرچ ہوئی ہے۔ ایسے میں قومی اسمبلی اور صوبائی اسمبلیوں کے انتخابات کا ڈول کیسے ڈالا جائے؟ عدلیہ بھی مخمصے میں ہے کیونکہ ایک طرف وہ انتخابات کے لیے فنڈز جاری کرنے کا حکم دے چکی ہے اور دوسری طرف حکمران اتحاد نے اس حکم کے خلاف قومی اسمبلی میں تحریک منظور کرلی ہے۔ اِس سے محاذ آرائی کی نوعیت اور شدت کا اندازہ بخوبی لگایا جاسکتا ہے۔ اہلِ وطن حیران‘ پریشان ہیں کہ اب ملک کس طرف جائے گا۔ عوام کا پریشان ہونا فطری امر ہے کیونکہ ہر مصیبت کا حتمی بوجھ تو اُنہی کو برداشت کرنا پڑتا ہے۔ اب کے بھی کچھ ایسا ہی دکھائی دے رہا ہے۔ مہنگائی نے عوام کے لیے ڈھنگ سے سانس لینا انتہائی دشوار کردیا ہے۔ عام آدمی کے لیے زندگی کا مقصد اب صرف یہ رہ گیا ہے کہ کسی نہ کسی طور اپنے اور اہلِ خانہ کے لیے دو وقت کی روٹی کا اہتمام کرے۔ وہ بے چارہ اس سطح سے بلند ہو ہی نہیں پارہا۔
دو عشروں کے دوران ایک ایجنڈے کے تحت ذہنوں میں جو خلفشار پیدا کیا گیا اُس کے بھرپور منطقی نتائج اب سب کے سامنے ہیں۔ ذرائع ابلاغ کے بُوم کے آغاز کے ساتھ ہی قوم کو ذہنی طور پر الجھانے کا عمل بھی شروع کردیا گیا تھا۔ جو کچھ بھی کیا جارہا تھا وہ اس قدر واضح تھا کہ کوئی بھی ذرا سا غور کرنے پر اندازہ لگاسکتا تھا کہ جو کچھ بھی ہو رہا ہے اُس کی پشت پر کوئی نہ کوئی ایجنڈا ضرور ہے۔ ایجنڈا ایک ہی تھا اہلِ پاکستان کے ذہنوں کو زیادہ سے زیادہ منتشر کرنا، ایسے حالات پیدا کرنا کہ وہ زیادہ سوچنے اور سمجھنے کے قابل ہی نہ ہوسکیں۔ جامع منصوبہ سازی کے تحت نئی نسل کو تباہ کیا گیا۔ اُسے علم و ہنر کے حصول کی راہ سے ہٹاکر پست درجے کی ذہنی عیاشی کی طرف رواں کیا گیا۔ یہ سب کچھ منصوبے کے تحت کیا گیا اور کسی بھی مرحلے پر شرمندگی محسوس نہیں کی گئی۔ سیاسی تجزیوں کے نام پر اہلِ وطن کے ذہنوں میں انتشار پیدا کیا گیا۔ ایسا ماحول پیدا کیا گیا کہ لوگ اپنے بنیادی مسائل بھول کر فضول باتوں میں گم ہوگئے۔ اب ہم سمارٹ فون کے زمانے میں جی رہے ہیں۔ سمارٹ فون نے اہلِ پاکستان کو بہت عمدگی سے آؤٹ سمارٹ کردیا ہے۔ آج ہماری مجموعی کیفیت یہ ہے کہ ہم اپنے تمام بنیادی مسائل بھول کر اینڈرائڈ یا سمارٹ فون کے ذریعے لاحاصل معاملات میں گم ہیں۔ نئی نسل خاص طور پر بے سمت ہے۔ بڑی عمر کے لوگ بھی سمارٹ فون کے عادی بلکہ دَھتّی ہوچکے ہیں۔ سوشل میڈیا کے حوالے سے ہماری سرشاری کا یہ عالم ہے کہ ہم بھول چکے ہیں کہ زندگی جیسی نعمت داؤ پر لگی ہوئی ہے۔ اہلِ سیاست اور حکومتی (ریاستی) مشینری کی نا اہلی کے ہاتھوں قوم کا بیڑا غرق ہوچکا ہے۔ نئی نسل کی تعلیم گڑھے میں جا گِری ہے۔ عہدِ حاضر کے تقاضوں سے ہم آہنگ تعلیم و تربیت کا اہتمام انسان کو خود ہی کرنا پڑ رہا ہے۔ اس معاملے میں ریاست کوئی قابلِ ذکر کردار ادا نہیں کر رہی۔ عوام بھی اب اس حوالے سے مکمل مایوس ہوچکے ہیں۔ وہ اس بات کو سمجھتے ہیں کہ ریاستی مشینری سے کوئی توقع رکھنا ارتکابِ حماقت کے سوا کچھ نہیں۔
زندگی کا بوجھ بڑھتا جارہا ہے۔ عام آدمی کو سبھی کچھ اپنے طور پر کرنا پڑ رہا ہے۔ ریاست تعلیم و صحتِ عامہ کی بنیادی سہولتیں بھی ڈھنگ سے نہیں دے پارہی۔ ایسے میں اعلیٰ کارکردگی کے بارے میں سوچنا تو تفنن کے درجے میں سمجھیے۔ بنیادی سہولتوں کے لیے بھی ترستے ہوئے عوام حکومت سے کس بات کی توقع وابستہ کرسکتے ہیں؟ سرکاری مشینری کے تمام پُرزوں کا معاشرے ہی سے تعلق ہوتا ہے۔ وہ بھی بے حس ہیں۔ کسی کو بظاہر بہبودِ عامہ سے کچھ غرض نہیں۔ ایک زمانہ تھا جب بڑے شہروں میں زندگی مہنگی ہوا کرتی تھی۔ اب چھوٹے شہر اور قصبے بھی محفوظ نہیں رہے۔ سندھ کے متعدد شہروں میں گھروں اور دکانوں کی قیمت کراچی کے بعض علاقوں کے مکانوں اور دکانوں کی قیمت سے بھی زیادہ ہے! لاہور، راولپنڈی، فیصل آباد، ملتان، کوئٹہ، پشاور‘ کوئی بڑا اور درمیانہ شہر سستا نہیں۔ کہیں بھی جی کر دیکھ لیجیے، زندہ رہنے کے لیے روز مرنا پڑے گا۔
کراچی کے بارے میں کون نہیں جانتا اور مانتا کہ یہ شہر پوری ملکی معیشت کا بوجھ اٹھائے ہوئے ہیں۔ ملک کے کونے کونے سے لوگ یہاں آکر آباد ہوتے ہیں، کماتے ہیں اور اپنے اپنے آبائی علاقوں کو مضبوط کرتے ہیں۔ وہ سب کچھ سوچتے ہیں مگر نہیں سوچتے تو بس کراچی کے بارے میں۔ اِس شہر میں زندہ رہنے کی قیمت خاصی کم ہوا کرتی تھی۔ اب وہ معاملہ رہا نہیں۔ مکانوں اور پبلک ٹرانسپورٹ کے کرائے اِتنے زیادہ ہیں کہ کیا مقامی اور کیا غیر مقامی‘ سبھی کے لیے ڈھنگ سے جینا جُوئے شیر لانے کے مترادف ہوگیا ہے۔ کراچی سمیت ملک بھر کے شہری علاقوں میں زندہ رہنے کی قیمت اِتنی بڑھ چکی ہے کہ اب اِسے قیمت سے زیادہ تاوان سمجھنا چاہیے۔ ریاستی اور انتظامی مشینری نے ہاتھ اٹھالیے ہیں۔ بنیادی سہولتیں فراہم کرنا ریاست کی ذمہ داری ہوا کرتی ہے مگر ہمارے ہاں یہ کام بھی عوام کو خود ہی کو کرنا پڑ رہا ہے۔ ہر چیز کا ٹیکس ادا کرنے والے پانی جیسی انتہائی بنیادی چیز کے لیے بھی ترستے رہتے ہیں۔ بجلی بھی کم کم میسر ہے اور جہاں میسر ہے وہاں بھرپور وصولی کی جارہی ہے۔
عام آدمی کو ڈھنگ سے جینے کا حق حاصل ہے۔ اُس کی حق تلفی کی جارہی ہے۔ حکومت اور انتظامی مشینری دونوں مل کر عام آدمی کے لیے جینا زیادہ سے زیادہ مشکل بنانے پر تُلی ہوئی ہیں۔ ریاست اور کچھ نہیں کرسکتی تو کم از کم گزارے کی سطح پر تو سہولتوں کی فراہمی یقینی بنائے۔
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved