عید کا لفظ عود سے ماخوذ ہے جس کے معنی ہیں: ''لَوٹنا‘‘۔ چونکہ یہ دن مسلمانوں پر بار بار لوٹ کر آتا ہے، اس لیے اس کو عید کہتے ہیں۔ ابن العربی نے کہا: ''اسے ''عید‘‘ اس لیے کہتے ہیں کہ یہ دن ہر سال مسرت کے ایک نئے تصور کے ساتھ لوٹ کر آتا ہے‘‘۔ علامہ شامی نے لکھا ہے: ''مسرت اور خوشی کے دن کو نیک شگون کے طور پر عید کہا جاتا ہے کہ یہ دن ہماری زندگی میں بار بار لوٹ کر آئے، جیسے ''قافلہ‘‘ کے معنی ہیں: ''لوٹ کر آنے والا‘‘۔ اہلِ عرب سفر پر روانہ ہونے والے کارواں کو نیک فال کے طور پر ''قافِلہ‘‘ کہتے ہیں۔ گویا سفر پر روانہ کرتے وقت یہ کلمۂ دعا ہے کہ اللہ کرے آپ لوگ خیر و عافیت اور امن و سلامتی کے ساتھ اپنی منزل پر واپس آئیں‘‘۔ چونکہ اللہ تعالیٰ اس دن اپنے مقبول بندوں پر اپنی اَن گنت نعمتیں اور برکتیں لوٹاتا ہے، اس لیے بھی اسے عیدکہتے ہیں۔
دنیا کی ہر قوم اور مذہب کے ماننے والے کسی نہ کسی صورت میں سال میں چند دن تہوار مناتے ہیں۔ یہ تہوار اُن اقوام اور ملّتوں کی تہذیبی اقدار اور مذہبی روایات کے علم بردار ہوتے ہیں، یہ اُن کے شِعار بن جاتے ہیں۔ شِعار کسی مذہب و ملّت کی امتیازی شناخت اور پہچان کو کہتے ہیں۔ اس سے یہ حقیقت واضح ہوتی ہے کہ تصورِ عید انسانی فطرت کا تقاضا اور انسانیت کی ایک مشترکہ قدر ہے۔ سعودی عرب کے قومی دن کو ''عید الوطنی‘‘ کہتے ہیں۔ مسلمان قوم چونکہ اپنے عقائد اور ملی اقدار کے لحاظ سے دنیا کی تمام اقوام سے منفرد و ممتاز ہیں، اس لیے ان کا عید منانے کا انداز بھی سب سے نرالا ہے۔
دیگر اقوام کے قومی ایام نائو نوش، رقص و سرود کی محفلیں بپا کرنے، دنیا کی رنگینیوں اور رعنائیوں میں کھو جانے،مادر پدر آزاد ہو کر بدمستیوں میں ڈوب جانے، تمام اخلاقی اقدار کو تج کر، نفسانی خواہشات اور سفلی جذبات کو فروغ دینے اور ''آج یا پھر کبھی نہیں‘‘ کے مصداق ہوائے نفس کا اسیر بن جانے کا نام ہیں۔ اس کے برعکس مسلمانوں کا بدن، لباس اور روح کی طہارت، قلب کے تزکیے، عَجز و انکسارا ور خشوع و خضوع کے ساتھ اسلامی اتحاد و اخوت کے جذبے سے سرشار ہوکر اللہ تعالیٰ کے حضور سجدۂ بندگی بجا لانے کا نام عید ہے۔ خالص اسلامی فکر اور دینی مزاج کے مطابق مسلمانوں کی اجتماعی زندگی کا آغاز ہجرت کے بعد مدینۂ منوّرہ میں ہوا؛ چنانچہ دو ہجری میں عیدین کا مبارک سلسلہ شروع ہو گیا تھا۔ اہلِ یثرب سال میں دو دن میلہ لگاتے تھے اور کھیل تماشے کرتے تھے۔ رسول اللہﷺ نے یہ تہوار منع فرما دیے اور فرمایا: ''اللہ تعالیٰ نے ان کے بدلے میں تمہیں دو بہتر دن عطا فرما دیے ہیں؛ عید الاضحی اور عید الفطر‘‘ (سنن ابودائود: 1134)۔
یہاں فطری طور پر یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ رسول اللہﷺ نے ایسا کیوں نہیں کر دیا کہ نو روز اور مہرجان کے انہی تہواروں کی اصلاح فرما دیتے اور ان میں جو رسوم شرعی اعتبار سے منُکرات کے زمرے میں آتی تھیں، ان کی ممانعت فرما دیتے اور اظہارِ مسرت کی جو جائز صورتیں تھیں، وہ اختیار کرنے کی اجازت دے دیتے۔ اس کاجواب یہ ہے کہ اس میں اللہ کی حکمت کار فرما تھی۔ دراصل ہر چیز کا ایک مزاج اور پس منظر ہوتا ہے۔آپ سعیِ بسیار کے باوجود کسی چیز کو اس کی ماضی کی روایات اور تاریخی پس منظرسے جدا نہیں کر سکتے۔ پس جس چیز کی اساس مُنکَرات و محرّمات پر رکھی گئی ہو، اس کی کانٹ چھانٹ اور صورت گری سے خیر پر مبنی کوئی نتیجہ برآمد نہیں ہو سکتا۔ اسلام کی آمد کا مقصد ہی کفر اور بدی کے اثرات کو مٹانا ہے۔ معلوم ہوا کہ اسلامی عقائد، خالص دینی فکر اور شرعی مزاج کا تقاضا تھا کہ مسلمانوں کا تعلق عہدِ جاہلیت کی رسوم سے ختم کر دیا جائے تاکہ ان میں صحیح دینی فکر پیدا ہو۔ چونکہ اسلام دینِ فطرت ہے، اس لیے اس نے جہاں اپنے ماننے والوں کو لادینی نظریات سے محفوظ رکھا، وہاں ان کے صحیح جِبِلِّی اور فطری تقاضوں کی آبیاری بھی کی۔ عید منانا انسانی فطرت کا تقاضا تھا لہٰذا مسلمانوں کو ایک کے بجا ئے دو عیدیں عطا فرمائیں۔
جس طرح ہر قوم و ملّت کی عید اور تہوار اپنا ایک مخصوص مزاج اور پس منظر رکھتے ہیں، اسی طرح اسلام میں عیدین کا بھی ایک ایمان افروز پس منظر ہے۔ رمضان المبارک انتہائی بابرکت مہینہ ہے، یہ ماہِ مقدس اللہ تعالیٰ کی خصوصی رحمتوں، مغفرتوں اور عنایات و برکات کا خزینہ ہے۔ اسے ماہِ نزولِ قرآن ہونے کا شرف بھی حاصل ہے۔ حق و باطل کا پہلا معرکہ غزوۂ بدر، پھر فیصلہ کُن معرکہ فتحِ مکہ بھی رمضان المبارک میں وقوع پذیر ہوئے، روزے کی عظیم المرتبت عبادت کی فرضیت کا شرف بھی اسی مہینے کو عطا کیا گیا۔ تراویح کی صورت میں ایک مسنون نماز بھی اس مہینے کی روحانی بہاروں میں ایک اور اضافہ ہے اور سب سے بڑھ کر ہزار مہینوں کی عبادت پر فوقیت رکھنے والی ایک رات ''لیلۃ القدر‘‘ بھی اسی رمضان میں ہے۔ یہی وہ مبارک مہینہ ہے، جس میں بندۂ مومن ایک عشرے کے لیے سب سے کٹ کر اپنے رب سے لَو لگانے کیلئے اعتکاف میں بیٹھ جاتا ہے۔ جب مومن اتنی بے پایاں نعمتوں میں ڈوب کر، اپنے رب کی رحمتوں سے سرشار ہو کر اپنی نفسانی خواہشات، سِفلی جذبات، جسمانی لذات، محدود ذاتی مفادات اور گروہی تعصبات کو اپنے رب کی بندگی پر قربان کر کے سرفراز و سربلند ہوتا ہے، تو وہ رشکِ ملائک بن جاتا ہے۔ اللہ کی رحمت جوش میں آتی ہے۔ باری تعالیٰ کے کرمِ خاص کا یہ تقاضا بن جاتا ہے کہ وہ پورا مہینہ اپنی بندگی میں سرشار، سراپا تسلیم و اطاعت اور پیکر صبر و رضا بندے کے لیے اِنعام و اِکرام کا ایک دن مقرر فرما دے؛ چنانچہ شبِ عید الفطر کو انعام کی رات قرار دیا گیا ہے‘‘ (شُعَبُ الایمان: 3421)۔
الغرض ماہِ رمضان کی آخری رات فرمانِ رسول کے مطابق ''انعام کی رات‘‘ ہے اور اللہ کے اس اِنعام و اِکرام سے فیض یاب ہونے کے بعد اللہ کا عاجز بندہ سراپا سپاس بن کر شوال المکرم کی پہلی صبح کو یومِ تشکُّر کے طور پر مناتا ہے۔ بس یہی حقیقتِ عید اور روحِ عید ہے۔ رسول اللہﷺ کا فرمان ہے: ''رمضان کی آخری رات میں آپ کی امّت کے لیے مغفرت کا فیصلہ کر دیا جاتا ہے۔ صحابہ نے عرض کی: یا رسول اللہﷺ! کیا وہ شبِ قدر ہے؟ آپﷺ نے فرمایا: '' شبِ قدر تو نہیں ہے، لیکن عمل کرنے والا جب عمل پورا کر دے تو اسے پورا اجر عطا کیا جاتا ہے‘‘۔ آپﷺ نے فرمایا: ''جب عید الفطر کی صبح ہوتی ہے تو اللہ تعالیٰ فرشتوں کو زمین پر بھیجتا ہے، وہ راستوں کے کنارے کھڑے ہو جاتے ہیں اور ندا دیتے ہیں، اسے جِنّات اور انسانوں کے سوا ساری مخلوق سنتی ہے۔ وہ کہتے ہیں: اے امتِ محمد! اپنے ربِ کریم کی طرف نکلو، وہ اجرِ کثیر عطا کرے گا، بڑے گناہوں کو معاف فرما دے گا، سو جب وہ عیدگاہ کی طرف آتے ہیں تو اللہ تعالیٰ فرشتوں سے فرماتا ہے: مزدور جب اپنا کام مکمل کر لے تو اس کی کیا جزا ہے، وہ عرض کرتے ہیں: اے ہمارے معبود و مالک! اُس کی جزا یہ ہے کہ اُسے پورا بدلہ دیا جائے، تو اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: اے میرے فرشتو! تم گواہ رہو، میں نے ان کے روزوں اور راتوں کے قیام کے انعام میں انہیں اپنی رضا اور مغفرت سے نواز دیا ہے۔ اور فرماتا ہے: اے میرے بندو! مجھ سے سوال کرو، میری عزت و جلال کی قسم! آج تم اپنی آخرت کے بارے میں جو بھی سوال کرو گے میں تمہیں عطا کروں گا‘‘۔ (شُعب الایمان: 3421، ملتقطاً)۔
نمازِ عید بغیر اذان و اقامت کے پڑھنا حدیث سے ثابت ہے۔ نمازِ عید کا وقت چاشت سے لے کر نصفُ النّہار شرعی تک ہے۔ عید الفطر ذرا تاخیر سے پڑھنا اور عید الاضحیٰ جلدی پڑھنا مستحب ہے۔ نمازِ عید کے بعد امام کا دو خطبے دینا اور ان کا سننا سنت ہے۔ عید کی نماز آبادی سے باہر کھلے میدان میں پڑھنا سنت ہے؛ البتہ بارش، آندھی یا طوفان کی صورت میں مسجد میں بھی پڑھی جا سکتی ہے۔ عیدالفطر میں نماز سے پہلے کچھ کھا لینا سنت ہے۔
اس سال ہم عیدالفطر ایسے حالات میں منا رہے ہیں کہ گزشتہ سیلاب کی تباہیوں پر پوری طرح قابو نہیں پا سکے، خوردنی اجناس میں ہم خود کفالت کی منزل کھو چکے ہیں، اقتصادی بدحالی ہے، سیاسی انتشار ہے، سیاسی اختلاف کو نفرت و عداوت میں بدل دیا گیا ہے، اخلاقی زوال ہے، عدالتی بحران ہے، عالمی مالیاتی اداروں کا شدید دبائو اور اہانت آمیز رویہ ہے، ایسے میں وقت کا تقاضا ہے: پوری قوم تمام اختلافات کو بالائے طاق رکھ کر متحد ہو، مشکل حالات کا مقابلہ کرنے کے لیے اتفاقِ رائے پر مبنی پالیسیاں بنائی جائیں، ایک دوسرے کی ٹانگ کھینچنے کے بجائے ایک دوسرے کے لیے تقویت کا باعث بنیں۔
ایک غیور قوم بننے کے لیے ہمیں اپنے وسائل پر جینا سیکھنا ہو گا، اپنی چادر کو اپنے وسائل کے مطابق پھیلانا ہو گا، ورنہ اقوامِ عالَم کی دست نگری ہمارا مقدر ہے، جس دن ہم اس سے نجات پائیں گے تو وہ دن ہمارے لیے باعثِ شِکوہِ مُلک و دیں اور حقیقی مسرّت کا دن ہو گا۔ علامہ اقبال نے کہا ہے:
عید آزاداں شِکُوہِ ملک و دیں
عیدِ محکوماں ہجومِ مومنیں
یعنی آزاد قوم کے شِعارِ عید سے مُلک و ملّت اور دین کی عظمت کا اظہار ہوتا ہے، جبکہ محکوم قوموں کی عید ایک غیر منظّم اور بے ہنگم ہجوم سے بڑھ کر کچھ نہیں۔ سو آج ہم سب کے سوچنے کا دن ہے کہ ہمارے ذریعے مُلک و ملّت کی سربلندی کا اظہار ہوتا ہے یا اقوامِ عالَم کے سامنے ہم بے بسی کی تصویر بنے ہوئے ہیں۔ پوری قوم پر لازم ہے: اللہ تعالیٰ کے حضور عَجز و انکسار کے ساتھ دعائیں کرے، استغفار کرے۔ رسول اللہﷺ کا فرمان ہے: ''جس نے استغفار کو اپنا شِعاربنا لیا، اللہ تعالیٰ ہر تنگی سے نکلنے کے لیے کوئی راستہ اور ہر غم سے خلاصی کے لیے کوئی سبیل مقدر فرما دے گا اور اُن راہوں سے رزق دے گا، جو اُس کے وہم و گمان میں بھی نہیں ہوگا‘‘ (سنن ابن ماجہ: 3819)۔
نمازِ عید سے پہلے صدقۂ فطر ادا کر لینا چاہیے اور ہر شخص اپنی اور اپنے زیرِ کفالت افراد کی جانب سے اپنی مالی حیثیت کے مطابق بالترتیب گندم، جَو، کھجور، کشمش اور پنیرکی شرح سے صدقۂ فطر ادا کرے تاکہ غریب طبقہ بھی عید کی خوشی منانے میں پوری قوم کے ہم رکاب ہو۔
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved