کیا آپ نے خلیل حامدی کا نام سنا ہے؟
بہت بڑے سکالر تھے۔ عربی کے بہت بڑے عالم تھے۔ کئی کتابوں کے مصنف!ہمعصر مسلم ہسٹری پر اتھارٹی تھے۔ ''عالم اسلام اور اس کے افکار و مسائل‘‘ اور '' ترکی قدیم و جدید'' ان کی ایسی تصانیف تھیں کہ مقابلے کے امتحانوں میں حصہ لینے والے اور یونیورسٹیوں میں زیر تعلیم طلبہ استفادہ کرتے تھے۔ مشرقِ وسطیٰ کے سکالرز سے ان کے ذاتی مراسم تھے۔ کیا آپ جانتے ہیں ان کی وفات کیسے ہوئی؟ وہ سفر میں تھے۔ لاہور واپس آرہے تھے۔ گنّے ڈھونے والی ایک ٹرالی نے ان کی گاڑی کو ٹکر ماری اور وہ جاں بحق ہو گئے۔ وحشی ڈرائیور کے نزدیک یہ کوئی خاص بات نہ تھی۔ٹرالی کے ذریعے انسان کو قتل کرنا اس کے لیے معمول تھا۔ جس موسم میں گنّے کھیتوں سے اٹھا کر شوگر ملوں میں پہنچائے جاتے ہیں‘اس موسم میں علاقے کی شاہراہوں پر ان وحشی ڈرائیوروں کا راج ہوتا ہے۔ ایک ایک ٹرالی پر پانچ پانچ ٹرالیوں کا وزن لادا جاتا ہے۔گنے ٹرالی کے اوپر یوں لادے جاتے ہیں کہ دائیں بائیں اور پیچھے کئی کئی فٹ تک باہر لٹک رہے ہوتے ہیں۔ کراس کرنے والی گاڑیوں کے پاس کچے پر اترنے کے علاوہ کوئی چارہ نہیں رہتا۔پولیس ان علاقوں سے غائب ہو جاتی ہے۔
کیا آپ کو معلوم ہے کہ ڈاکٹرطیب منیر کون تھے؟ وہ پروفیسر تھے۔ یونیورسٹی میں پڑھاتے تھے۔ اس سے پہلے کئی کالجوں میں پڑھا چکے تھے۔ کئی نسلوں کو جہالت کی تاریکی سے نکال کر علم کے نور میں لائے تھے۔جب بھی دیکھا مسکراتے ہوئے ملے۔شائستگی اور تہذیب کا ایک ایسا نمونہ تھے جو اب خال خال نظر آتا ہے۔ کیا آپ جانتے ہیں ان کا انجام کیا ہوا؟ ایک ڈمپر ان کی کار پر چڑھ دوڑا۔کیا آپ کو معلوم ہے کہ ڈمپروں کو اس ملک میں لوگوں کو قتل کرنے کی کھلی چھٹی ہے۔ آج تک کسی ڈمپر ڈرائیور کو قتل کی سزا نہیں ملی!ٹریکٹر ٹرالیوں اور ڈمپروں نے سینکڑوں انسانوں کو مارا ہے۔ ہزاروں گاڑیوں کو کچلا ہے۔ ان کی لائٹیں‘ اشارے‘ کچھ بھی نہیں ہوتا‘ پولیس کو یہ کبھی نہیں نظر آئے۔ پاکستان میں ٹریفک پولیس کا عملاً ( بارِ دگر عرض ہے عملاً) وجود ہی کوئی نہیں ! ایک غیر ملکی نے ہماری ٹریفک کے بارے میں ایک سادہ سا جملہ کہا تھا مگر کیا زبردست جملہ تھا:People have been left on roads to kill each other۔لوگوں کو شاہراہوں پر چھوڑ دیا گیا ہے کہ ایک دوسرے کو قتل کریں۔
پارلیمنٹ کو یہ قتلِ عام آج تک نظر نہیں آیا۔اس نے ڈمپروں‘ ٹریکٹر ٹرالیوں اور گنے ڈھونے و الی قاتل ٹرالیوں کے بارے میں کبھی نہیں سوچا نہ کبھی بات ہی کی۔ اسے وہ بے گناہ مقتول کبھی نہیں نظر آئے جنہیں یہ جنگلی پہیے آئے دن کچلتے ہیں۔ اور اب تباہی اور بربادی کی یہ آگ پارلیمنٹ کے اپنے گھر تک پہنچ گئی ہے۔ ایک وحشی ڈرائیور نے ممبر پارلیمنٹ‘ وفاقی وزیر‘ مولانا عبد الشکور کو اپنی لاقانونیت کے بھینٹ چڑھا دیا ہے۔کیا آپ یقین کریں گے کہ جس ڈرائیور نے وفاقی وزیر کو جان سے مارا‘ اس کے خلاف‘ تیز رفتاری کے جرم میں تیرہ بار چالان ہوئے ہیں؟ یہ چالان کتنے عرصہ کے دوران ہوئے؟ صرف ساڑھے تین ماہ کے دوران! جنوری سے لے کر پندرہ اپریل تک! پندرہ اپریل ہی کو وفاقی وزیر کو اس قاتل نے مارا ! آپ کا کیا خیال ہے‘ ہر چالان پر اس وحشی انسان نما جانور کو کتنے روپے کا جرمانہ کیا گیا ہوگا؟ آپ یقینا کہیں گے کہ چونکہ تیز رفتاری انسانوں کی ہلاکت کا سبب بنتی ہے اس لیے تیز رفتاری کے جرم میں اتنا جرمانہ ہونا چاہیے کہ مجرم کی کمر ٹوٹ جائے اور وہ آئندہ اس وحشیانہ جرم کا سوچے بھی نہیں! مگر یہ وہ ملک ہے جس میں قانون سازی کرنے والے اپنے‘ اپنے خاندان اور اپنی کلاس کے سوا کچھ نہیں سوچتے! آنکھیں بند کر لیجیے! ہاتھ دل پر رکھ لیجیے! سانس روک لیجیے! میں آپ کو جرمانے کی رقم بتانے لگا ہوں! ہر بار اسے دو سو روپے کا‘ نصف جن کے ایک سو ہوتے ہیں‘ جرمانہ کیا گیا۔ اب بھی اگر اس ملک کو بنانا ری پبلک نہ کہا جائے تو کب کہا جائے گا! جس فرد نے یا جس ادارے نے تیز رفتاری کے جرم میں جرمانے کی رقم دو سو رکھی‘ کوئی مہذب ملک ہو تا تو اس فرد یا ادارے کو وفاقی وزیر کے ساتھ ہی قبر میں دفنا دیا جاتا!اور متعلقہ پولیس کے چہرے پر سفید کریم مل کر‘ قیمتی خوبصورت گھوڑے پر سوار کر کے‘اسے پورے شہر میں گھمایا جاتا!آپ سمجھ گئے ہوں گے کہ سفید کریم اور قیمتی گھوڑے سے میری مراد کیا ہے! اس پولیس نے وحشی ڈرائیور کے تیرہ بار پکڑے جانے کے باوجود اس کی گاڑی بند کی‘ نہ اسے گرفتار کیا‘ نہ اس کا لائسنس منسوخ کیا! یعنی جنوری فروری مارچ کے چار چار ہفتے اور اپریل کے دو ہفتے۔ کل چودہ ہفتے ہوئے۔ چودہ ہفتوں میں تیرہ چالان ! جس کا مطلب ہے کہ یہ ڈرائیور ہر ہفتے تیز رفتاری کا مرتکب ہو رہا تھا!سیف سٹی کے کیمرے بھی سب کچھ دیکھ رہے تھے۔پولیس بھی دو دو سو روپے کے چالان کیے جا رہی تھی۔ ڈرائیور کو کھلی چھٹی تھی۔ ریاست اس کا ساتھ دے رہی تھی۔اگر وہ وفاقی وزیر کو نہ قتل کرتا‘ کسی عام شہری کو قتل کرتا تو کیا اسے گرفتار کیا جاتا ؟ اور اگر کیا جاتا تو کتنے دنوں یا کتنے ہفتوں کے لیے؟ اس سوال کا جواب ہر پاکستانی شہری آسانی سے دے سکتا ہے!
یہ چند ماہ پہلے کا واقعہ ہے۔سڈنی میں ایک خاتون گاڑی چلارہی تھی۔ اس کا پانچ سالہ بچہ‘ پچھلی سیٹ پر‘ بچوں کی خصوصی سیٹ پر بیٹھا تھا۔ بچے نے بیلٹ لگائی ہوئی تھی۔ بچے نے یوں کیا کہ بیلٹ کو سینے سے ذرا نیچے کر لیا۔ ٹریفک پولیس نے گاڑی روکی اور خاتون کا چالان کر دیا۔خاتون نے دلیل دی کہ گاڑی چلاتے ہوئے وہ پیچھے بیٹھے ہوئے بچے کو کیسے دیکھ سکتی تھی۔ مگر پولیس کی دلیل تھی کہ بیلٹ غلط طریقے سے لگی ہوئی تھی! آپ کا کیا خیال ہے‘ کتنا جرمانہ ہوا ہو گا؟ پاکستانی حساب کی رُو سے بیس ڈالر؟ پچاس ڈالر؟ نہیں جناب! جرمانہ ساڑھے چارسو ڈالر کا کیا گیا! پاکستانی روپوں میں یہ پچاسی ہزار بنتا ہے۔ چلئے ہمارے روپے کی تو قیمت ہی گری ہوئی ہے۔ آسٹریلیا کے حساب سے بھی یہ جرمانہ بہت بھاری تھا۔میاں بیوی کو دن میں تارے نظر آگئے۔ عدالت میں اپیل کی۔مگر اپیل نا منظور ہو گئی!یہ ہے انسانی جان کی حفاظت کا طریقہ! ایک شیطان صفت عادی مجرم پر دو سو روپے کا جرمانہ! کیا راول ڈیم میں اتنا پانی بھی نہیں کہ ڈوب مرا جائے؟
اب اس المیے کا ایک اور تاریک اور افسوسناک پہلو دیکھیے۔ پارلیمنٹ کے ایک معزز رکن نے اپنی تقریر میں احتجاج کیا تو اس بات پر کہ مرحوم ( یعنی مقتول) وزیر کے ساتھ پروٹوکول کیوں نہیں تھا اور ان کے پاس بڑی گاڑی کیوں نہیں تھی۔ یہ نہیں کہا کہ دار الحکومت میں کسی ڈرائیور کی جرأت ہی کیوں ہو کہ وہ اوور سپیڈنگ کر کے لوگوں کو مارتا پھرے۔ وہ بھی شاہراہِ دستور پر! ایوانِ صدر اور وزیر اعظم کے دفتر کے سامنے! پارلیمنٹ کی بغل میں! وزارتِ داخلہ کی ناک کے عین نیچے ! یہ ہے وہ رویہ جس نے اس ملک کو اس حالِ زبوں تک پہنچایا ہے۔یعنی ٹریفک کی لا قانونیت کی فکر ہے نہ پروا! شاید علم بھی نہیں! گاڑی بڑی ہو تا کہ حادثے کی صورت میں جان بچ جائے! تو پھر عالی جاہ! عوام کو بھی بڑی گاڑیاں مہیا کیجیے تا کہ وہ بھی اس قتلِ عام سے بچ سکیں! رہی ٹریفک پولیس ! تو چوڑیاں اور لپ سٹک بازار میں عام دستیاب ہے !
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved