پاکستان کے لیے نوازشریف صاحب کے دورۂ سعودی عرب کی معنویت کیا ہے؟
سیاسی راہنما‘ مذہبی پیشوا‘ دانشور‘ فلمی اداکار۔ معاشرہ بالغ نظر ہو تو جانتا ہے کہ سب کے انتخاب کا معیار ایک نہیں ہے۔ جو خصوصیت ایک سیاسی راہنما میں ہونی چاہیے‘ لازم نہیں کہ مذہبی پیشوا بھی اس کا حامل ہو۔ یہی نہیں‘ ایک صفت اگر ایک کے لیے عیب ہے تو ممکن ہے دوسرے کے لیے ہنر ہو۔ جیسے بہروپ بھرنا۔ یہ صفت ایک سیاسی راہنما میں پائی جائے تو ایک عیب ہے۔ ایک فلمی فنکار میں ہو تو اس کا ہنر ہے۔ جہاں لوگوں کی شعوری سطح بلند ہو‘ وہاں اداکار اور سیاسی لیڈر کا فرق سمجھانے کی ضرورت نہیں ہوتی۔
موہن داس کرم چند گاندھی اگر ہیرو بننے کے لیے فلمی دنیا کا رخ کرتے تو یقینا دروازے ہی سے لوٹا دیے جاتے۔ ہدایت کار جان لیتا کہ اول اس 'ہیرو‘ پر کوئی سرمایہ کاری کے لیے تیار نہ ہو گا اور اگر ہوا بھی تو فلم کے ریلیز ہونے پر اس کا دیوالیہ ہونا یقینی ہے۔ ممکن ہے کہ وہ اس کے بعد خود کشی کر لے۔ برصغیر کا فلمی ذوق اگر پیشِ نظر رہے تو دلیپ کمار جیسا جوانِ رعنا ہی ایک فلم شناس کا انتخاب ہو سکتا ہے۔
اسی موہن داس گاندھی نے سیاست میں قدم رکھا تو مہاتما قرار پایا۔ برصغیر کی تاریخ میں اب ان کا شمار صفِ اول کے راہنماؤں میں ہوتا ہے۔ انہیں مولانا ابوالکلام آزاد‘ جواہر لال نہرو اور خان عبدالغفارخان جیسی بڑی شخصیات نے اپنا لیڈر مانا۔ وہ خود تو فلمی اداکاری کے لیے موزوں نہیں تھے لیکن سیاست میں انہوں نے وہ مقام حاصل کیا کہ ان پر فلم بنانے کے لیے دنیا کے بڑے بڑے سرمایہ کار پر جوش رہے اور بڑے ہدایت کاروں نے ان پر فلم بنانے کو اپنا اعزاز جانا۔ فلمی دنیا میں ہیرو کے کردار کے لیے غیر موزوں‘ حقیقی زندگی میں ہیرو مان لیا گیا۔
پاکستان کو آج سیاسی راہنما کی ضرورت ہے‘ کسی فلمی ہیرو کی نہیں۔ دونوں کرداروں کی ضروریات مختلف ہیں۔ یہ اس قوم کی سیاسی بلوغت کا امتحان ہے کہ وہ اس فرق کو کتنا سمجھتی ہے۔ تحریکِ پاکستان میں جب پیر جماعت علی نے قائداعظم کو اپنا سیاسی راہنما مانا تو اہلِ مذہب نے اعتراض اٹھایا کہ آپ جیسی مذہبی اور روحانی شخصیت کسی ایسے فرد کو کیسے اپنا رہبر قرار دے سکتی ہے جو پیشوائی کے مروجہ مذہبی معیار پر پورا نہیں اترتا۔ پیر صاحب کا جواب تھا کہ بطور مسلمان‘ مجھے سیاسی عدالت میں مقدمہ جیتنے کے لیے ایک وکیل کی ضرورت ہے نہ کہ ایک مذہبی پیشوا کی۔ مجھے تو اس آدمی کا انتخاب کرنا ہے جس میں اچھے وکیل کی خصوصیات پائی جاتی ہوں۔ یہ خصوصیات محمد علی جناح میں بدرجہ اتم موجود ہیں۔
پاکستان کو آج جس سیاسی قائد کی ضرورت ہے اس میں چند خصوصیات ناگزیر ہیں۔ ایک تو یہ کہ وہ جہاں دیدہ ہو اور ملک کو درپیش مسائل کا بہتر ادراک رکھتا ہو۔ دوسرا یہ کہ عالمی برادری اُس پر اعتماد کرتی ہو۔ تیسرا یہ کہ وہ قوم کو متحد کر سکے۔ عوام کو تقسیم کرنے کے بجائے انہیں مجتمع کرے۔ چوتھا یہ کہ اس کی اخلاقی ساکھ معاصر اہلِ سیاست میں بہتر ہو۔ وہ اچھائی کے راستے کا مسافر ہو اور اس کا آج اس کے گزرے کل سے بہتر ہو۔
ہم جس دور میں زندہ ہیں‘ اس میں تنہائی کسی قوم کا انتخاب نہیں ہو سکتی۔ بایں ہمہ عالمی قیادت کے لیے ایک کشمکش ہمہ وقت جاری ہے۔ پاکستان جیسے ملک کو سب عالمی قوتوں کے ساتھ متوازن تعلقات قائم کرنے ہیں۔ ہمیں خود کو امریکہ اور چین و روس کے لیے بیک وقت قابلِ قبول بنانا ہے۔ عالمِ اسلام کی سطح پر سعودی عرب‘ ترکی‘ قطر اور ایران کے ساتھ اچھے تعلقات قائم رکھنے ہیں۔ ہمیں ایسا راہنما چاہیے جو ان سب اقوام اور ملکوں کے ساتھ پاکستان کے تعلقات کو خوش گوار بنا سکے۔
آج عالمی سیاست دگرگوں ہے۔ مشرقِ وسطیٰ کی سیاست بدل رہی ہے اور ساتھ جنوبی ایشیا کی بھی۔ مشرقِ وسطیٰ میں سعودی عرب‘ ایران‘ قطر اور ترکی کے مابین جاری مفادات کی جنگ ایک نیا رُخ اختیار کر چکی۔ سعودی عرب کی حیثیت ماضی میں قائدانہ تھی۔ اب پھر قائدانہ ہے مگر باندازِ دِگر۔ سعودی عرب اور ترکی میں کشمکش تھی۔ ترکی میں سعودی صحافی جمال خاشقجی کے قتل نے تعلقات کی تلخی کو اپنی انتہا تک پہنچا دیا لیکن اب صورتِ حال بدل رہی ہے۔ ترکی اقتصادی بحران کی لپیٹ میں آیا تو سعودی عرب نے تین ارب ڈالر دے کر اس کے زرِمبادلہ کے ذخائر کو سہارا دیا۔
یہی نہیں‘ فٹ بال کا ورلڈکپ قطر میں ہوا تو سعودی عرب نے اس موقع کو دونوں ممالک میں موجود کشیدگی کو کم کرنے کے لیے استعمال کیا۔ تازہ ترین پیش رفت چین کی مداخلت سے ایران کے ساتھ تعلقات کی بحالی ہے۔ سعودی عرب نے امریکی خواہشات کے برخلاف ایران سے دشمنی کے بجائے دوستی کا راستہ اختیار کیا۔ پیشِ نظر یقینا یہی ہے کہ سعودی عرب کی قائدانہ حیثیت باقی رہے لیکن اس کے لیے مخاصمت کے بجائے تعاون اور دوستی کا راستہ اختیار کیا گیا۔ یہی نہیں‘ مشرقِ وسطیٰ کو فساد سے پاک کرنے کے لیے سعودی عرب نے اسرائیل کے ساتھ بھی تعلقات پر نظر ثانی کا فیصلہ کیا ہے۔
جنوبی ایشیا پر ایک نظر ڈالیں تو سعودی عرب نے چین اور بھارت‘ دونوں کے ساتھ اپنے تعلقات کو بہتر بنایا ہے۔ ہمارے لیے یہ بات کتنی ہی ناپسندیدہ کیوں نہ ہو‘ واقعہ یہ ہے کہ بھارت کا شمار سیاسی اور معاشی اعتبار سے اب عالمی قوتوں میں ہونے لگا ہے۔ پاکستان نے اس تبدیلی کو کبوتر کی آنکھ سے نہیں‘ شاہین کی نظر سے دیکھنا ہے۔ محسوس یہ ہوتا ہے کہ پاکستان کے پالیسی ساز حلقوں میں ان تبدیلیوں کا کسی حد تک ادراک پیدا ہو رہا ہے۔ اس دوران میں تین اہم باتیں ہوئیں۔ ایک یہ کہ پاکستان نے امریکہ میں جمہوریت پر ہونے والی کانفرنس میں شرکت سے انکار کیا۔ امریکہ اس حکم عدولی کا بدلہ آئی ایم ایف کو استعمال کرکے لے رہا ہے۔ پاکستان اگر اس کانفرنس میں شریک ہو جاتا تو آئی ایم ایف سے معاملہ طے ہو جانا تھا۔ دوسرا اہم قدم یہ اٹھایا گیا کہ روس کے ساتھ تیل کی خریداری کا باضابطہ معاہدہ ہو گیا۔ تیسرا یہ کہ پاکستان کا وزیر خارجہ بھارت جا رہا ہے۔
یہ ہے وہ پس منظر جس میں نواز شریف صاحب کو سعودی عرب کی طرف سے دورے کی دعوت ملی۔ سعودی عرب میں شہزادہ محمد بن سلمان سے ان کی اور مریم نواز صاحبہ کی ملاقات ہوئی۔ یہ اس بات کا قرینہ ہے کہ عالمی سطح پر اگر اس وقت کوئی لیڈر قابلِ قبول ہے تو وہ نواز شریف صاحب ہیں۔ قرائن موجود ہیں کہ نواز شریف صاحب ترکی اور قطر کے لیے بھی محترم ہیں۔ چین کا معاملہ بھی ظاہر وباہر ہے۔ امریکہ پاکستان سے مایوس ہے اور اسے سزا دینے پر تلا ہوا ہے۔ اسے اس بات سے زیادہ غرض نہیں کہ یہاں کون حکمران ہے۔ تاہم اگر اس کے ساتھ کوئی پاکستانی راہنما تعلقات کو معمول پر لا سکتا ہے تو وہ نواز شریف ہے۔ امریکہ کی حد تک میرا خیال ہے کہ یہ صلاحیت بلاول بھٹو میں بھی موجود ہے۔
دنیا یہ مانتی ہے کہ پاکستان کسی فلم کا ٹائٹل نہیں‘ ایک ملک اور قوم کا نام ہے اور قوموں کی قیادت کا معیار وہ نہیں ہو سکتا جو کسی فلمی ہیرو کا ہے۔ انقلابی قیادت کا تصور دنیا کے لیے قصۂ پارینہ بن چکا۔ آج پاکستانی عوام کا شعور اگر عالمی شعور سے ہم آہنگ ہو جاتا ہے تو اس میں پاکستان کا بھلا ہے۔ نواز شریف صاحب کا دورۂ سعودی عرب اس کا اشارہ ہے۔ دیکھنا یہ ہے کہ پاکستانی عوام اس اشارے کو کتنا سمجھتے ہیں۔
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved