تحریر : ڈاکٹر حسین احمد پراچہ تاریخ اشاعت     25-04-2023

ایک فکر انگیز تجویز

دنیا نیوز کا ایک نہایت مقبول پروگرام ''پیامِ صبح‘‘ ہے۔ اس دینی پروگرام کے اینکر جناب انیق احمد ہیں۔ وہ گزشتہ آٹھ برس سے علی الصباح دنیا چینل پر یہ خوبصورت پروگرام نہایت کامیابی سے پیش کر رہے ہیں۔ دینی مذاکرہ عام ناظرین بھی شوق و ذوق کے ساتھ دیکھتے ہیں؛ تاہم اندرون و بیرون ملک اُن حلقوں میں پروگرام بہت مقبول ہے جو پورے اخلاص اور سنجیدگی کے ساتھ دورِ حاضر کے تناظر میں اسلام کی ضرورت و اہمیت کے بارے میں زیادہ سے زیادہ معلومات حاصل کرنے کا ارادہ اور جذبہ رکھتے ہیں۔ انیق احمد صاحب کی انہی خدمات کی بنا پر انہیں صدرِ پاکستان نے ستارۂ امتیاز بھی پیش کیا ہے۔
''پیامِ صبح‘‘ کی منفرد بات یہ ہے کہ اس پروگرام میں شرکت کرنے والے علمائے کرام اور اسلامی سکالرز مختلف دینی مکاتب فکر سے تعلق رکھنے کے باوجود نہایت مقبول اور متوازن آراء پیش کرتے ہیں۔ اس پروگرام کے شرکاء دوسرے مکاتبِ فکر کے علمائے کرام کی طرف سے دی گئی رائے کو نہایت توجہ سے سنتے اور اگر اُن نقطۂ نظر سے یہ رائے درست ہو تو اس کی فراخ دلی کے ساتھ داد دیتے ہیں۔ اگر انہیں اس رائے سے اختلاف ہو تو وہ نہایت ادب اور سلیقے کے ساتھ دلائل سے مرصع حرفِ اختلاف پیش کرتے ہیں۔ یقینا اپنے پروگرام کی اتنی خوشگوار اور مقبول فضا قائم کرنے میں اس پروگرام کے اینکر انیق احمد کا کلیدی کردار ہے۔ چند روز قبل انیق احمد صاحب نے ایک ایسا پیام صبح گاہی دیا ہے جو مدتوں سے میرے دل و دماغ میں کروٹیں تو لے رہا تھا مگر میں ان خیالات کو الفاظ کا موزوں جامہ نہ پہنا سکا۔ اینکر موصوف نے ایک معزز عالم دین کے سامنے یہ تجویز پیش کی کہ ہمیں اپنے اعلیٰ تعلیم یافتہ طلبہ و طالبات کو دورِ جدید کے تقاضوں کی روشنی میں وسیع تر دینی تعلیم چھ سات برس تک دینی چاہیے۔ بعد ازاں چار پانچ ہزار کی تعداد میں یہ فارغ التحصیل ینگ سکالرز دورِ حاضر کے حوالے سے دین اسلام کی حقیقی تعلیمات سے نہ صرف اپنے مسلمان بھائی بہنوں کی رہنمائی کریں گے بلکہ غیر مسلم دنیا کو بھی اسلام کی روشنی سے منور کر سکیں گے۔ پروگرام میں موجود عالم دین نے انیق صاحب کی تجویز سے اتفاق کیا اور یہ کہا کہ اس کارخیر کیلئے بہت سے وسائل درکار ہوں گے۔ انیق صاحب کا کہنا تھا کہ یہ وسائل حکومت وقت کو مہیا کرنے چاہیں تاہم اگر حکومت مہیا نہ کرے تو پھر اہلِ ثروت کو آگے بڑھنا چاہیے اور اس عظیم منصوبے کیلئے خوش دلی کے ساتھ وسائل پیش کرنے چاہئیں۔
البتہ اہم ترین سوال یہ ہے کہ اس فکری تجویز کو عملی جامہ کیسے پہنایا جائے گا۔ سب سے پہلی ضرورت تو یہ ہوگی کہ اس تجویز کو نہایت وضاحت و صراحت کے ساتھ زیر بحث لایا جائے اور ایک پرکشش اور واضح منصوبہ قوم کے سامنے پیش کیا جائے تاکہ جو سنے وہ اس کی افادیت و اہمیت کا قائل ہو جائے۔ اگلی ضرورت یہ ہوگی کہ جس ادارے یا اداروں میں ان ینگ سکالرز کو علوم دینیہ کی تعلیم دی جائے گی‘ اُن کی نوعیت کیا ہوگی؟ بہت سے دینی مدارس پہلے سے ہی طلبہ و طالبات کو علمِ دین کی تعلیم و تربیت دے رہے ہیں۔ پھر اس مجوزہ ادارے کی کیا ضرورت ہے؟ بلاشبہ ہمارے بہت سے دینی ادارے علومِ دینیہ کی تعلیم مسلکی تعصب سے ماورا ہو کر دے رہے ہیں تاہم ان اداروں سے فارغ التحصیل ہونے والے اکثر دینی سکالرز علم دین تو اچھی طرح سیکھ جاتے ہیں اور اس علم کو آگے سامعین و ناظرین تک حسن و خوبی کے ساتھ منتقل کرنے کی صلاحیت بھی حاصل کر لیتے ہیں مگر انہیں دورِ جدید کے مسائل کا زیادہ ادراک نہیں ہوتا۔ دوسری طرف ہماری جدید دانش گاہوں میں طلبہ علومِ جدیدہ جن میں سائنس‘ طب‘ بزنس‘ اقتصادیات‘ سیاسیات‘ کامرس اور آئی ٹی وغیرہ شامل ہیں‘ کا علم تو حاصل کرتے ہیں مگر انہیں علوم دینیہ کے بارے میں زیادہ معلومات نہیں ہوتیں۔ انیق صاحب کی یہ تجویز دراصل سر سیّد احمد خان‘ علامہ محمد اقبال‘ قائداعظم محمد علی جناح اور مولانا سیّد ابوالاعلیٰ کی تجدید ہے۔ سر سیّد احمد خان بھی دینی علوم کے ساتھ علومِ جدیدہ کی تحصیل کو مسلمانوں کیلئے ازبسکہ ضروری سمجھتے تھے۔ وہ دورِ جدید کے علوم کی زبان انگریزی کی تعلیم پر بھی بہت زور دیتے تھے۔ اس طرح علامہ اقبالؒ تو یہ فرمایا کرتے تھے کہ مسلمانوں کو چاہیے کہ دنیا کے ہر علم کو حاصل کریں۔ علامہ اقبال اجتہاد کو دینِ اسلام کی روح گردانتے تھے۔ تبھی تو انہوں نے فرمایا تھا کہ آئینِ نو سے ڈرنا طرزِ کہن پر اڑنا منزل یہی کٹھن ہے قوموں کی زندگی میں۔ قائداعظم محمد علی جناح کے دو قومی نظریہ کی بنیاد ہی یہ فلسفہ تھا کہ مسلمانانِ ہند کے مسلمہ اکثریتی علاقوں کی یہ ضرورت ہے کہ اُن کی ایک اپنی ایسی ریاست ہو جہاں وہ نظریۂ اسلام کے تقاضوں کے مطابق زندگی گزار سکیں۔ یہ اسلامی ملک اسلام کے ابدی و سرحدی اصولوں کے مطابق دورِ جدید کی ایک ایسی فلاحی ریاست کی لیبارٹری کی حیثیت سے منظر عام پر آئے جس سے مسلم و غیر مسلم دنیا استفادہ کر سکے اور اس مثالی تجربے کی روشنی میں اپنے معاملاتِ وسائل سنوار سکے۔ بالفاظ دیگر مولانا مودودی نے دورِ حاضر میں ایک ایسی مثالی اسلامی ریاست کے قیام اور اس کے طریقِ کار کی تفصیلات بھی اپنی تصنیفات کی شکل میں پیش کیں۔ اس مقصد کے حصول کیلئے مولانا مودودی نے ایک جماعت بھی بنا لی اور اسلامی‘ جمہوری اور فلاحی ریاست کے شایانِ شان دستور کی تشکیل کیلئے بھرپور کردار ادا کیا۔
آج کی اسلامی دنیا میں پاکستان اس لحاظ سے ایک خوش قسمت ملک ہے کہ اسے ایک ایسے متفقہ دستور کی نعمت حاصل ہے کہ جو دستور اسلامی بھی ہے اور جمہوری و فلاحی بھی۔ قصۂ مختصر یہ کہ قیام پاکستان سے پہلے ہی ہمارے قومی رہنماؤں کو دین و دنیا کی تعلیم کی یکجائی کا شعور و ادراک ہوگیا تھا۔ اس دینی و دنیاوی یکجائی کے کئی ماڈلز گزشتہ چند دہائیوں میں سامنے آئے ہیں۔ تاہم عملاً یہ ہوا ہے کہ تمام تر اخلاص اور غور و فکر کے باوجود دارالعلوم دیوبند میں دینی علوم کا غلبہ رہا جبکہ علی گڑھ مسلم یونیورسٹی میں دنیاوی تعلیم کو دینی علوم پر سبقت حاصل رہی۔ آج بھی یہی صورتحال ہے۔ ہماری اکثر سرکاری و نجی یونیورسٹیوں میں صرف علومِ جدیدہ کی تعلیم دی جاتی ہے۔ اسی طرح اکثر دینی تعلیمی اداروں میں محض دینی علوم پڑھائے جاتے ہیں۔ اکثر دینی اداروں کا نصابِ تعلیم قدیم درسِ نظامی تک ہی محدود ہوتا ہے۔ اگرچہ بعض دینی مدارس کی انتظامیہ نے کمپیوٹر اور آئی ٹی کو اپنے نصاب کا ضروری جزو قرار دیا ہے مگر ابھی تک مثالی انداز میں پاک و ہند میں ایسے دینی ادارے کم ہی دیکھنے میں آئے ہیں جن کے طلبہ کو ایک طرف انگریزی و یورپی زبانوں پر عبور حاصل ہو تو دوسری طرف وہ عربی زبان و ادب میں بھی مہارت حاصل کر چکے ہوں۔ اگرچہ یورپ بالخصوص یو کے اور امریکہ میں مسلمانوں نے ایسے دینی ادارے قائم کیے ہیں جن میں دین و دنیا کی تعلیم کا ایک حسین امتزاج قائم کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔ انیق احمد صاحب نے بی اے‘ ایم اے تعلیم و تربیت کا جو منصوبہ اور نقشہ پیش کیا ہے‘ اس پر اہلِ علم و دانش اور دردمند اہلِ ثروت کو سنجیدگی کے ساتھ توجہ دینی چاہیے۔ انیق صاحب اس منصوبے کی تفصیلات اور اس کے عملی نفاذ کے طریق کار کے تعین کیلئے ایک کمیٹی قائم کریں اور اللہ کا نام لے کر اس کارِخیر کا آغاز کر دیں۔ حیدر علی آتش نے ایسے ہی مواقع کیلئے کہا تھا
سفر ہے شرط مسافر نواز بہتیرے
ہزار ہا شجر سایہ دار راہ میں ہے

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved