سابق صدر آصف علی زرداری اور امیر جماعت اسلامی سراج الحق نے سیاسی تناؤ کم کرنے کیلئے مذاکرات کی آواز بلند کی تو ہر جانب سے اس کی تحسین کی جانے لگی۔ عید کے بعد کُل جماعتی کانفرنس کی کوششیں بھی شروع ہو چکیں۔ مذاکراتی کمیٹیوں کی تشکیل مسئلے کے حل کی طرف عملی قدم ہے۔ سابق صدر آصف علی زرداری کے ذریعے معلوم ہوا کہ حکمران اتحاد میں شامل باقی جماعتیں تو عمران خان کے ساتھ مذاکرات پر آمادہ ہیں تاہم مولانا فضل الرحمان مذاکرات کے حق میں نہیں۔ چیئرمین پیپلز پارٹی بلاول بھٹو زرداری مولانا فضل الرحمان کو مذاکرات پر قائل کرنے کیلئے ان کی رہائش گاہ ڈیرہ اسماعیل خان پہنچے۔ اس اہم ملاقات میں آصف علی زرداری سے بھی فون پر بات کرائی گئی۔ توقع یہ تھی کہ مولانا فضل الرحمان کا مؤقف تبدیل ہو جائے گا مگر تمام قیاس آرائیاں اور اندازے اس وقت دم توڑ گئے جب عید سے قبل ہی مولانا فضل الرحمان نے پریس کانفرنس میں اپنے موقف کا اعادہ کیا۔ گوکہ مولانا فضل الرحمان نے مذاکرات میں اعلیٰ عدلیہ کے کردار کے حوالے سے جو سوالات اٹھائے‘ اسے بعض قانونی ماہرین کی جانب سے سراہا جا رہا ہے۔ مولانا فضل الرحمان نے کہا تھا کہ سپریم کورٹ اپنی پوزیشن واضح کرے کہ وہ عدالت ہے یا پنچایت؟ اب مولانا فضل الرحمان نے واشگاف الفاظ میں کہا ہے کہ وہ پریس کانفرنس میں کہے گئے الفاظ پر حرف بہ حرف پر قائم ہیں۔ مولانا فضل الرحمان کے بقول وہ عمران خان سے مذاکرات کے فلسفے اور دلیل سے اتفاق نہیں کرتے۔ مزید یہ کہ ہم کیوں اور کس کے سامنے جھکیں؟ یہ صورتحال اس امر کی عکاسی کرتی ہے کہ مذاکرات کی بیل منڈھے چڑھنے والی نہیں ہے۔ مذاکرات کیلئے جو ماحول درکار ہوتا ہے‘ وہ موجود نہیں۔ سیاسی رہنماؤں کی ملاقاتیں اسی صورت ثمر آور ہو سکتی ہیں جب کسی کی سنی جائے اور اپنی سنائی جائے یہاں تو گلے شکوے برابر جاری ہیں۔
چیئرمین تحریک انصاف عمران خان آئے روزقمر جاوید باجوہ صاحب سے منسوب کوئی ایسا بیان جاری کر دیتے ہیں جس سے سارے پرانے زخم ہرے ہو جاتے ہیں۔ اب خان صاحب کہتے ہیں کہ انہوں نے باجوہ صاحب کے کہنے پر پنجاب اور خیبرپختونخوا کی اسمبلیاں تحلیل کی تھیں۔ اگر خان صاحب کے حالیہ بیان کو درست مان لیا جائے تو واضح ہوتا ہے کہ تحریک انصاف کی حکومت کے قیام سے لے کراختتام تک خان صاحب کا اپنا کوئی ویژن نہیں تھا۔ ان کے بیان سے یہ بھی واضح ہوتا ہے کہ خان صاحب پنجاب اور خیبرپختونخوا کی اسمبلیاں تحلیل کرنے کے بعد پچھتا رہے ہیں۔ یہی بات تو دیگر سیاسی جماعتیں بھی کہہ رہی ہیں کہ ایک شخص کو منتخب اسمبلیاں تحلیل کرنے کا حق کیسے دیا جا سکتا ہے؟ اب خان صاحب نے خود حریف سیاسی جماعتوں کے موقف کی تائید کر دی ہے۔ صدرِ مملکت کی موجودگی میں ہونے والی باجوہ صاحب اور خان صاحب کی ملاقات میں یہ یقین دہانی کرائی گئی تھی کہ اسمبلیاں تحلیل ہونے کے بعد انتخابات کرا دیے جائیں گے۔ بنیادی سوال یہ ہے کہ ایک جمہوری سیٹ اَپ میں خان صاحب کو انتخابات کی یقین دہانی کس حیثیت سے کرائی گئی تھی اور خان صاحب نے اس پیشکش کو کیونکر قبول کیا؟ مطلب یہ کہ اقتدار کے حصول کیلئے خان صاحب جو بھی راستہ اپنائیں گے‘ وہ درست قرار پائے گا؟
چیف جسٹس عمر عطا بندیال کی خوش دامن سے منسوب مبینہ آڈیو سے یہ تاثر پیداہوا ہے کہ اقتدار کے حصول کیلئے خان صاحب ہر سطح پر اپنا اثر و رسوخ اور تعلق داری کو بروئے کار لا رہے ہیں۔ چیف جسٹس کے از خود نوٹس کے اختیار سے متعلق وکلا اور سیاسی جماعتوں کو تحفظات تھے‘ اس مقصد کیلئے قرار داد منظور کی گئی جس میں ازخود نوٹس کا اختیار چیف جسٹس سمیت تین رکنی کمیٹی کو دیا گیا۔ قائمہ کمیٹی‘ پارلیمنٹ اور سینیٹ سے قرار داد کی منظوری کے بعد صدرِ مملکت نے اس پر دستخط کرنے تھے مگر انہوں نے بوجوہ دستخط نہیں کیے۔ صدرِ مملکت سے دوبارہ منظوری کی آئینی مدت گزرنے پر سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر بل از خود قانون کی شکل اختیار کر گیا ہے۔ اس کا نوٹیفکیشن بھی جاری ہو چکا ہے۔ سپریم کورٹ ایک پیشگی اقدام کرتے ہوئے یہ قرار دے چکی ہے کہ سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر بل 2023ء کی صدرِ مملکت کی جانب سے منظوری کے بعد یا دوسری صورت میں اس کے ایکٹ بننے کے بعد یہ مؤثر ہوگا‘ نہ ہی کسی بھی طرح سے اس پر عمل کیا جائے گا۔ ایسے وقت میں جب سپریم کورٹ پارلیمنٹ کو قانون سازی سے روک رہی ہے‘ چیف جسٹس کی خوش دامن سے منسوب ایک مبینہ آڈیو منظر عام پر آ ئی اور سوشل میڈیا پر وائرل ہے۔ یہ واضح ہے کہ نظامِ انصاف پر اثر انداز ہونے کی کوشش ہو رہی ہے۔ ازخود نوٹس کے اختیار پر جج صاحبان کی تقسیم کے تاثر‘ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے سوالات اور سیاسی جماعتوں کے مخصوص بینچ پر تحفظات کے بعد اب مبینہ ٹیلی فونک گفتگو نے بھی ایجنڈے کو آشکار کر دیا ہے۔
تحریک انصاف نے انتخابات کی جانب عملی قدم اٹھاتے ہوئے پنجاب میں امیدواروں کو پارٹی ٹکٹس جاری کر دیے ہیں‘ ٹکٹس کی تقسیم پر پارٹی قیادت کو پارٹی کے اندر ہی سے مزاحمت کا سامنا ہے۔ شاہ محمود قریشی‘ فواد چوہدری‘ حماد اظہر جیسے سرکردہ رہنماؤں کو پنجاب کا ٹکٹ نہیں ملا۔ دوسری جانب عثمان بزدار اور چوہدری پرویز الٰہی کو پنجاب سے ٹکٹس دیے گئے ہیں۔ یوں پی ٹی آئی الیکشن سے پہلے اندرونی مسائل میں بھی الجھتی نظر آتی ہے۔ سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر بل کے قانون بننے سے پہلے چیف جسٹس نے قرار دیا تھا کہ وہ 14مئی کو الیکشن کا فیصلہ واپس نہیں لیں گے۔ واپسی کی ایک ہی صورت تھی کہ سیاسی جماعتیں مذاکرات کے ذریعے آپس میں معاملہ حل کر لیں۔ سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر بل کے قانون بننے کے بعد عدالت کا موقف کیا ہو گا‘ یہ اگلی سماعت پر معلوم ہو سکے گا‘ تاہم مذاکرات شروع ہونے سے پہلے ہی یہ واضح ہو گیا ہے کہ حکومتی جماعتوں میں اتفاقِ رائے کا فقدان ہے۔ایسی صورت میں پی ٹی آئی کے ساتھ مذاکرات کا عمل کیسے آگے بڑھے گا؟ ہماری دانست میں الیکشن کا انعقاد اصل مسئلہ نہیں ہے بلکہ اصل مسئلہ یہ ہے کہ الیکشن کے نتائج کو قابلِ قبول کس طرح بنایا جائے۔ مذاکرات کے سرخیل امیر جماعت اسلامی سراج الحق بھی اس جانب اشارہ کر چکے ہیں۔ سراج الحق صاحب الیکشن کی تاریخ سمیت دیگر سیاسی معاملات کو سیاسی انداز میں حل کرنے کی خواہش کا اظہار کر چکے ہیں۔ اگر خان صاحب واقعی الیکشن کا انعقاد‘ سیاسی کشیدگی کا خاتمہ اور الیکشن کے قابلِ قبول نتائج چاہتے ہیں تو پھر انہیں بھی سیاسی انداز سے معاملات کو حل کرنے کے عمل میں غیر مشروط طور پر شامل ہونا ہو گا۔
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved