تحریر : ظفر اقبال تاریخ اشاعت     18-09-2013

سرخیاں اُن کی‘ متن ہمارے

بھارت کے ساتھ مذاکرات کے لیے عوام نے مینڈیٹ دیا… نوازشریف وزیراعظم میاں محمد نوازشریف نے کہا ہے کہ ’’بھارت کے ساتھ مذاکرات کے لیے عوام نے مینڈیٹ دیا‘‘ اور اس کے ساتھ ساتھ یہ مینڈیٹ بھی دیا تھا کہ سابق حکومت کی کرپشن کے معاملات کو نہیں چھیڑنا اور شہباز صاحب جو ہر تقریر میں یہ کہا کرتے تھے کہ عوام کا لوٹا ہوا پیسہ واپس لائیں گے‘ انتخابات کے بعد پتہ چلا کہ عوام نے اس کا ہمیں مینڈیٹ ہی نہیں دیا۔ اس لیے خاموشی اختیار کر لی گئی ہے کیونکہ ہم عوام کے مینڈیٹ سے ایک انچ بھی اِدھر اُدھر نہیں ہو سکتے اور نہ ہی سابق حکومت کو عوام نے یہ مینڈیٹ دیا تھا کہ وہ ہمارے خلاف کوئی کارروائی کرے جس پر اس نے بھی پورا پورا عمل کیا اور وہی کچھ کرتی رہی جس کا اسے مینڈیٹ ملا تھا جبکہ کچھ حضرات کو مینڈیٹ کچھ ضرورت سے زیادہ ہی مل گیا تھا جس کی ہم قدر کرتے ہیں کیونکہ عوام کبھی غلط فیصلہ نہیں کرتے‘ ہیں جی؟ انہوں نے کہا کہ ’’ترک کمپنیاں پاکستان میں سرمایہ کاری کریں‘‘ جبکہ پاکستان سے خاکسار کی مراد پنجاب ہی ہے۔ آپ اگلے روز انقرہ میں میڈیا سے گفتگو کر رہے تھے۔ حکومت مذاکرات پر مشورہ لے ڈکٹیشن قبول نہ کرے… فضل الرحمن جمعیت علمائے اسلام کے سربراہ مولانا فضل الرحمن نے کہا ہے کہ ’’حکومت مذاکرات پر مشورے لے‘ ڈکٹیشن قبول نہ کرے‘‘ البتہ طالبان نے مذاکرات کے لیے جو شرائط پیش کی ہیں‘ اگر مشورے کے طور پر پیش کی ہیں تو انہیں قبول کرنے میں کوئی ہرج نہیں ہے کیونکہ ہم حکومت سے جو مطالبات کرتے رہتے ہیں‘ وہ بھی مشورے کے طور پر ہی ہوتے ہیں کہ اگر فلاں فلاں وزارت یا مراعات حکومت کی طرف سے دے دی جائیں تو حکومت اس مشورے کو قبول کر کے شکر گزار ہونے کا موقع دے۔ علاوہ ازیں‘ ہم نے خیبر پختونخوا حکومت کو بھی یہی مخلصانہ مشورہ دیا تھا کہ وہ مستعفی ہو کر کسی دیگر مفید کام پر توجہ دے لیکن اس کی بدقسمتی کہ اس نے یہ مشورہ قبول نہیں کیا حالانکہ اچھا اور نیک مشورہ ضرور قبول کر لینا چاہیے۔ انہوں نے کہا کہ ’’مذاکرات کو ناکام بنانے کے لیے خفیہ قوتیں متحرک ہو گئی ہیں‘‘ بالکل ایسے ہی‘ جیسے حکومت کے ساتھ ہمارے مذاکرات کو ناکام بنانے کے لیے بعض قوتیں متحرک ہو گئی تھیں‘ لیکن انہیں مایوسی کا منہ دیکھنا پڑا۔ آپ اگلے روز اسلام آباد میں وفود اور پارٹی رہنمائوں سے گفتگو کر رہے تھے۔ کسی ملک کی ایجنسی کو پاکستان میں کام کرنے کی اجازت نہیں… چودھری نثار وفاقی وزیر داخلہ چودھری نثار علی خان نے کہا ہے کہ ’’امریکہ سمیت کسی بھی ملک کی ایجنسی کو پاکستان میں کام کرنے کی اجازت نہیں ہے‘‘ البتہ جو ایجنسیاں بغیر اجازت کے کام کر رہی ہیں‘ انہیں اپنے رویے پر غور کرنا چاہیے کیونکہ کسی ملک کی اجازت کے بغیر وہاں کام کرنا بہت بُری بات ہے اور بُرے کاموں سے پرہیز کرنا چاہیے جبکہ حکومت کو تو ان حضرات کی حرکتوں پر نظر رکھنے کی فرصت ہی نہیں ہے کیونکہ وہ پنجاب کو پیرس بنانے میں بُری طرح مصروف ہے تاکہ اس کی دیکھا دیکھی دوسرے صوبوں میں بھی ترقی کرنے کی خواہش پیدا ہو‘ اور اسی لیے وزیراعظم جس ملک کے دورے پر جاتے ہیں وزیراعلیٰ شہباز شریف اور ان کی ٹیم ان کے ہمراہ ہوتی ہے تاکہ وہ اپنے صوبے کے لیے اس ملک کا ہر ممکن تعاون حاصل کر سکیں۔ انہوں نے کہا کہ ’’غیر ملکی سکیورٹی ایجنسیوں کو ویزا دینے والوں کے خلاف کارروائی ہوگی‘‘ اگرچہ اس کا ہمیں مینڈیٹ حاصل نہیں ہے۔ آپ اگلے روز قومی اسمبلی میں خطاب کر رہے تھے۔ پیپلز پارٹی مسلم لیگ ن کی حکومت کو گرنے نہیں دے گی… منظور وٹو پاکستان پیپلز پارٹی کے مرکزی رہنما میاں منظور احمد خان وٹو نے کہا ہے کہ ’’پیپلز پارٹی مسلم لیگ نواز کی حکومت کو گرنے نہیں دے گی‘‘ اور ہماری طرف سے اس طرح کے بیانات سے ہمارے خلاف گڑے مُردے اکھاڑنے سے اجتناب کرے گی اور اس سلسلے میں ہونے والے معاہدے کی پاسداری کرے گی جیسا کہ اُس نے ہمارے دور میں ہماری حکومت کو گرنے نہیں دیا اور اس طرح ہمیں ملک کی بھرپور خدمت کا موقع ملا جو کہ ملک ہمیشہ کے لیے یاد رکھے گا اور آہستہ آہستہ حکومت بھی ہمارے مذکورہ تعاون سے خدمت کا وہی سلسلہ پورے زور و شور سے شروع کر دے گی جو اپنی جگہ یادگار رہے گا۔ انہوں نے کہا کہ ’’پیپلز پارٹی صدر زرداری کے مسلم لیگ نواز سے کیے گئے وعدوں کا پاس کرے گی‘‘ کیونکہ یہ وعدے کرنے کی سب سے زیادہ ضرورت ماشاء اللہ زرداری صاحب کو اپنے لیے ہی تھی کہ وہ ان کے خلاف کوئی غیر دانشمندانہ اقدام نہ کر ڈالے اور اس سلسلے میں عاقبت اندیشی اور دانشمندی کا ثبوت فراہم کرتی رہے تاکہ اگلی بار یعنی اپنی باری لینے کے بعد پیپلز پارٹی بھی ان کے ساتھ ایسے ہی دانشمندانہ سلوک کی توقع رکھے۔ آپ اگلے روز لاہور ہائیکورٹ میں میڈیا سے گفتگو کر رہے تھے۔ طالبان نے فوج پر حملہ کر کے زیادتی کی… عمران خان پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان نے کہا ہے کہ ’’طالبان نے فوج پر حملہ کر کے زیادتی کی‘‘ اور میرا بھی یہ بیان محض اظہارِ افسوس کے لیے ہے جیسا کہ اگلے روز فوجی افسروں کی شہادت پر قومی اسمبلی میں صرف فاتحہ خوانی کی گئی اور کسی نے بھی اس واقعہ کی مذمت نہیں کی جو کہ ہائوس کی اجتماعی عقلمندی اور دوراندیشی کا مظہر تھی تاکہ مذاکرات کا یہ بچا کھچا تار بالکل ہی ٹوٹ نہ جائے۔ انہوں نے کہا کہ ’’اس سے اے پی سی کے نتائج متاثر ہوں گے‘‘ جن کی ویسے بھی کوئی خاص اہمیت نہیں ہے کیونکہ حکومت کے کمزور رویے کی وجہ سے طالبان حضرات اور بھی شیر ہو گئے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ’’دشمن چاہتے ہیں کہ فوج قبائلی علاقوں میں پھنسی رہے‘‘ لیکن ہمارے طاقتور وزیراعلیٰ نے ہرچہ بادا باد کہتے ہوئے فوج کو واپس بلانا شروع کر دیا ہے اور نہایت مہربانی کرتے ہوئے پارٹی عہدہ بھی چھوڑنے پر تیار ہو گئے ہیں‘ ورنہ ان کا ڈیل ڈول دیکھ کر ہمیں تو اس سلسلے میں ان سے بات کرنے کی جسارت ہی نہیں تھی کہ کہیں اُلٹا لینے کے دینے نہ پڑ جائیں۔ آپ اگلے روز پارلیمنٹ ہائوس کے باہر میڈیا سے گفتگو کر رہے تھے۔ آج کا مطلع ٹھنڈی جو پڑی گرمئی بازار اناگت ہونے لگے خود سے بھی اوازار اناگت (اناگت‘ بلوچی زبان کا لفظ ہے جس کا معنی ہے اچانک)

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved