تحریر : ظفر اقبال تاریخ اشاعت     25-04-2023

فکاہات اور پشاور سے محمد اسحاق وردگ

اضافہ
ایک سکھ نوجوان کی منگنی کی رسم ادا ہو رہی تھی۔ دونوں کے والدین نے مشورہ کرتے ہوئے کہا کہ لڑکے اور لڑکی کو کچھ دیر کے لیے تنہا چھوڑ دیا جائے تاکہ وہ ایک دوسرے کو سمجھنے کی کوشش کریں جب لڑکا اور لڑکی تنہا ہوئے تو سوچ سوچ کر لڑکابولا:
باجی آپ کتنی بہنیں ہیں؟
پہلے چار تھیں‘ اب پانچ ہو گئی ہیں۔ لڑکی نے جواب دیا۔
عوض معاوضہ گلہ ندراد!
ایک خاتون اپنی گاڑی میں سوار ایک تنگ سڑک پر جا رہی تھی کہ اچانک اس کی گاڑی بند ہو گئی۔ اس کے پیچھے آنے والا شخص ہارن پر ہارن دیے جا رہا تھا۔ وہ خاتون گاڑی سے اتریں، بونٹ کھولا، انجن کو ادھر اُدھر سے دیکھا لیکن ان کی سمجھ میں کچھ نہ آیا، ادھر وہ صاحب مسلسل ہارن دیتے چلے جا رہے تھے۔ آخر وہ اس کے پاس جا کر بولیں:
''پلیز آپ میری گاڑی سٹارٹ کر دیں‘ آپ کا ہارن میں بجاتی ہوں۔
ڈگی میں لاش
ایک صاحب اوورسپیڈنگ کرتے ہوئے کہیں جا رہے کہ ایک جگہ ٹریفک سارجنٹ نے انہیں روک لیا اور گاڑی کے کاغذات مانگے، جس پر وہ بولے: مجھے نہ روکو‘ مجھے بہت جلدی ہے، میری ڈگی میں ایک لاش ہے۔ ''لاش ہے‘‘ سارجنٹ چیخ کر بولا اور اپنے سینئر افسر کو فون کر کے بتایا، جس پر اُس افسر نے کہا کہ میں پانچ منٹ میں آ رہا ہوں۔
وہ جب آیا تو ان صاحب سے آ کر بولا: گاڑی کی ڈگی کھولیے! جب ڈگی کھولی گئی تو اس میں کچھ بھی نہ تھا۔
''وہ لاش کہاں ہے‘‘ افسر بولا۔
کون سی لاش؟ گاڑی والے نے پوچھا۔
''جو میرے ساجنٹ نے بتائی تھی‘‘۔ افسر بولا
اس احمق نے آپ کو یہ بھی بتایا ہو گا کہ میں اوور سپیڈنگ کر رہا تھا، وہ بولے!
جاہل گھوڑا
ایک صاحب کار پر کہیں جا رہے تھے کہ ایک سنسان سڑک پر ان کی گاڑی بند ہو گئی، وہ نیچے اترے بونٹ کھولا اور دیکھنے لگے کہ اچانک آواز آئی کہ اس کا کاربوریٹر خراب ہے انہوں نے حیران ہو کر دیکھا‘ وہاں کوئی بھی نہیں تھا، سڑک کے کنارے ایک گھوڑا گھاس چر رہا تھا۔ وہ صاحب دوبارہ انجن دیکھنے لگے کہ پھر آواز آئی: تمہیں کہا نا کہ اس کا کاربوریٹر خراب ہے۔ ان صاحب نے جلدی سے اس طرف منہ پھیرا جدھر سے آواز آئی تھی، دیکھا کہ گھوڑے کے ہونٹ ہل رہے تھے۔ وہ اس قدر سراسیمہ ہوئے کہ گاڑی کو وہیں چھوڑ کر شہر کی طرف بھاگے‘ جو قریب ہی تھا۔ وہاں ایک کولڈ کارنر میں بیٹھ کر انہوں نے کولڈ ڈرنک کا آرڈر دیا، سامنے والی میز پر بیٹھے دو آدمیوں نے ان کے چہرے سے بھانپتے ہوئے پریشانی کی وجہ پوچھی تو انہوں نے پوری بات بتانا شروع کی۔ وہ بات بتاتے جاتے اور وہ آدمی مسکراتے جاتے۔ جب موصوف نے اپنا بیان ختم کیا تو وہ دونوں کھلکھلا کر ہنس پڑے اور بولے:
''ہم اس گھوڑے کو اچھی طرح سے جانتے ہیں، وہ بکواس کرتا ہے، اسے گاڑی کے پرزوں کے بارے کچھ پتا نہیں ہے۔
بولتا کتا
ایک بدو گھوڑے پر سوار ایک صحرا میں سے گزر رہا تھا، دھوپ بہت تیز تھی کہ ایک دم کتا بولا:
کس قدر گرم ریت ہے، میرے پائوں چل رہے ہیں!
اس پر بدو بولا:
میں تو یہ سمجھتا تھا کہ کتے باتیں نہیں کر سکتے۔
جس پر گھوڑا بولا: میں بھی یہی سمجھتا تھا!
جھیل میں تربوز
غل غپاڑا کرتے ہوئے تین افراد کو پکڑ کر پولیس نے عدالت میں پیش کیا تو مجسٹریٹ نے ایک سے پوچھا: تم کیا کر رہے تھے؟
جناب! میں جھیل میں تربوز پھینک رہا تھا۔
اور تم کیا کر رہے تھے؟ دوسرے سے پوچھا
وہ بولا: جناب میں بھی جھیل میں تربوز پھینک رہا تھا۔
جب جج نے تیسرے سے پوچھا تو وہ بولا:
جناب میں ہی تو وہ تربوز ہوں جیسے یہ دونوں جھیل میں پھینک رہے تھے۔
اور‘ اب آخر میں پشاور سے ڈاکٹر محمد اسحاق وردگ کی غزل:
کہہ رہا ہے خدا رسیدہ شخص
دل تو مسجد ہے اور عقیدہ شخص
شہر کے شور سے ہوا بیزار
گائوں کا آج اک ندیدہ شخص
حجرۂ ذات سے نہیں نکلا
عمر بھر اک جہان دیدہ شخص
عشق بازار میں مدام یہاں
بس حسیں شخص نے خریدا شخص
یہ زمیں سیر ہی نہیں ہوتی
اس نے ہر روز ہے کشیدہ شخص
لوگ حیرت سے تک رہے ہیں اسے
ہنس پڑا آج آب دیدہ شخص
غور سے دیکھنے پہ لگنے لگا
آئنہ بھی مجھے چنیدہ شخص
جب دعا دے تو بارشیں ہوں گی
شہر کا اک خدا رسیدہ شخص
مطمئن جا رہا ہے رستے پر
خود سے بیزار‘ دل گزیدہ شخص
گرتے تارے کا استعارہ لگا
رات کے وقت بے امیدہ شخص
آج کا مقطع
کچھ بھی ہو بے سود ہے مجھ سے سفر کرنا ظفرؔ
جو کہیں جاتی نہیں وہ رہگزر باقی ہوں میں

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved