صاف گوئی اور راست گوئی کب پیدا ہونے والے اوصاف ہیں؟ انسان حقیقت پسند کب ہوتا ہے؟ کسی بھی انسان میں دوسروں کو ایک خاص حد تک ہی اہمیت دینے کا رجحان کب پنپتا ہے؟ کچھ لوگ اپنی سوچ اور عمل کے اعتبار سے باقی معاشرے سے یکسر مختلف کیوں محسوس ہوتے ہیں؟ کچھ لوگ دوسروں کے معاملات سے دور دور کیوں دکھائی دیتے ہیں؟ کیا لازم ہے کہ انسان بھرپور کامیابی کے لیے دوسروں سے الگ تھلگ رہے، کھنچی کھنچی سی زندگی بسر کرے؟
یہ اور ایسے ہی دوسرے بہت سے سوال ذہن کے پردے پر اُس وقت ابھرتے ہیں جب ہم کسی کامیاب انسان کو دیکھتے ہیں۔ کامیاب سے مراد محض دولت مند انسان نہیں بلکہ ایسا انسان جو اپنی محنت کے ذریعے کسی مقام تک پہنچے۔ دولت کے آنے کو کامیابی اس لیے قرار نہیں دیا جاسکتا کہ لاٹری میں انعام لگنے پر کوئی راتوں رات لکھ پتی یا کروڑ پتی تو ہوسکتا ہے مگر اِس طور بہت سی دولت کا حامل ہو جانے والے کو ہم کامیاب قرار نہیں دے سکتے۔ حقیقی کامیابی وہ ہے جو ذہانت، مشق و مشقّت اور صبر و تحمل کا نتیجہ ہو۔ کسی بھی ایسے انسان کو آپ منفرد مزاج کا حامل پائیں گے جس نے اپنے بل بُوتے پر کامیابی پائی ہو۔ کامیابی میں کئی عوامل اہم کردار ادا کرتے ہیں؛ تاہم اہم ترین کردار ہوتا ہے اپنے وجود کا۔ اپنی صلاحیت و سکت کو بروئے کار لانے کی صورت میں کامیابی کا حصول انسان کو دوسروں سے بہت مختلف بنادیتا ہے۔ یہ کسی بھی درجے میں حیرت انگیز امر نہیں۔ کسی کو بیٹھے بٹھائے بہت سی دولت مل جائے تو اُس میں کوئی بھی تبدیلی رونما نہیں ہوتی کیونکہ جس دولت کو اُس نے محنت سے حاصل نہ کیا ہو وہ کوئی بھی بنیادی تبدیلی یقینی نہیں بناتی۔ ایسی دولت انسان کو کسی بھی درجے میں کسی بڑے کام کے لیے سنجیدہ بھی نہیں کرتی۔
ہم زندگی بھر طرح طرح کے لوگوں سے ملتے ہیں، رابطے میں رہتے ہیں، تعلقات استوار کرتے ہیں، دوستی کرتے ہیں، کاروبار میں پارٹنرز بناتے ہیں۔ غور کرنے پر اندازہ ہوگا کہ اِن میں سے ہر وہ شخص الگ دکھائی دیتا ہے جو اپنے بل بُوتے پر زندگی بسر کرتا ہو۔ اپنی صلاحیت و سکت کی بنیاد پر جینے والوں کو آپ دور سے پہچان سکتے ہیں۔ اُن میں ایک طرف غیر معمولی اعتماد پایا جاتا ہے اور دوسری طرف حقیقت پسندی بھی انتہائی نوعیت کی ہوتی ہے۔ یہ دونوں اوصاف مل کر ایک ایسا ماحول تیار کرتے ہیں جسے بہت سے لوگ سمجھ نہیں پاتے۔ جس نے اپنے زورِ بازو کے ذریعے بہت کچھ حاصل کیا ہو وہ کسی کی بے جا بات نہیں سنتا۔ تنقید بھی وہ زیادہ برداشت نہیں کرتا۔ ایسے لوگ بالعموم زیادہ بات بھی نہیں کرتے کیونکہ کام سے کام رکھتے ہیں۔ دوسروں کے معاملات میں دلچسپی لینے کا اِنہیں کچھ خاص شوق نہیں ہوتا۔ ایسے لوگ اپنی دنیا میں مگن رہتے ہیں۔ اِن کی پوری توجہ اپنے کام اور ہدف پر ہوتی ہے۔
انسان کے مزاج کی بہت سی پرتیں ہوتی ہیں، بہت سے رنگ ہوتے ہیں۔ اگر چار افراد بہادر ہوں تو اُن کی بہادری میں فرق ضرور پایا جائے گا۔ اگر کوئی دو افراد جان کی پروا نہ کرنے کے عادی ہوں تب بھی جان کی پروا نہ کرنے کے انداز اور شدت میں فرق ضرور ہوگا۔ مزاج اور عادات کے اِسی فرق سے زندگی کے میلے کی ساری رونق ہے۔ کبھی آپ نے سوچا ہے کہ بہادری کیا ہے؟ کیا نہتا ہونے پر کسی درندے سے بھڑ جانا ہی بہادری ہے؟ اپنے سے طاقتور کو للکارنا بہادری ہے؟ حقیقی بہادر کون ہے؟ نبی کریمﷺ کے فرمان کا مفہوم ہے کہ حقیقی پہلوان (یعنی طاقتور اور بہادر) وہ ہے جو شدید غصے کی حالت میں اپنے نفس پر قابو پائے اور منطقی حد سے گزر کر کسی پر ظلم نہ ڈھائے۔ علاوہ ازیں بہادر وہ بھی ہیں جو حالات کا خود سامنا کریں، کسی سے زیادہ اُمید وابستہ نہ کریں۔ جو لوگ اپنے بل بُوتے پر زندگی بسر کرتے ہیں وہ حقیقی معنوں میں بہادر ہیں۔ حقیقی بہادری یہی تو ہے کہ انسان کوئی بھی آسرا تلاش کیے بغیر اپنی صلاحیت و سکت کو بروئے کار لاتے ہوئے زندگی بسر کرے۔
بات بات پر دوسروں کی طرف دیکھنے اور اُن سے مدد چاہنے کی طرزِ فکر و عمل کو بزدلی نہ سمجھیے تو اور کیا سمجھیے۔ آپ کو بیشتر اِس حال میں ملیں گے کہ جیسے ہی کوئی مشکل درپیش آتی ہے، کسی نہ کسی کی طرف دیکھنے لگتے ہیں۔ سہارے تلاش کرنے کی عادت رفتہ رفتہ اُن کے مزاج کا حصہ بن جاتی ہے۔ یہ مزاج پنپ جائے تو انسان کہیں کا نہیں رہتا کیونکہ پھر وہ محنت سے جی چُرانے لگتا ہے۔ اگر سہارا دینے والے موجود ہوں تو انسان سوچتا ہے محنت کرنے کی ضرورت ہی کیا ہے۔ اگر ہاتھ پیر ہلائے بغیر بہت کچھ مل جائے اور گزارا ہوتا رہے تو کوئی احمق ہی ہوگا جو محنت کرنے کے بارے میں سوچے گا! کسی کی مدد کرنی چاہیے؟ یقینا کرنی چاہیے۔ مگر کب؟ جب وہ شدید ضرورت محسوس کر رہا ہو۔ انسان کو مدد کی شدید ضرورت کب ہوتی ہے؟ جب صورتِ حال کوئی آپشن نہ چھوڑے اور بقا کا مسئلہ اٹھ کھڑا ہو۔ کبھی کبھی حالات اچانک ایسا پلٹا کھاتے ہیں کہ انسان کی سمجھ میں کچھ نہیں آتا۔ کبھی کبھی اچانک کوئی بیماری یوں گھیر لیتی ہے کہ سب کچھ داؤ پر لگ جاتا ہے۔
کسی نے خوب کہا ہے ''بھرپور حوصلے کا اظہار کرنے والے بڑے کام دو ہیں: اپنا بوجھ کسی پر نہ ڈالنا اور تذبذب سے کام لیے بغیر ضرورت مندوں کی مدد کرتے رہنا‘‘۔ بات پتے کی ہے۔ حقیقی بہادر وہ ہے جو کسی بھی ناموافق صورتِ حال کا سامنا ہونے پر سینہ تان کر کھڑا ہو جائے اور خندہ پیشانی سے اُس کا سامنا کرے۔ کسی بھی کامیاب انسان کے حالاتِ زندگی کا جائزہ لیجیے تو آپ پائیں گے کہ اُس نے جو کچھ بھی کیا اپنے بل بُوتے پر کیا۔ کسی سے مدد بھی لی تو ایک خاص حد تک، یعنی صرف اُتنی جتنی منطقی تھی۔ انسان سب کچھ تنِ تنہا نہیں کرسکتا۔ اُسے کسی سے مدد لینا پڑتی ہے اور کسی کی مدد کرنا پڑتی ہے۔ یہ فطری معاملہ ہے مگر اِس کی بھی حدود ہیں۔ اپنے بوجھ کا بڑا حصہ انسان کو خود ہی اٹھانا پڑتا ہے۔ اور یہی بہترین طریقہ ہے۔
ہم جس معاشرے کا حصہ ہیں اُس میں اپنے بل پر جینے والوں کو عجیب نظروں سے دیکھا جاتا ہے۔ سیدھی سی بات ہے، جو لوگ بات بات پر سہارے تلاش کرتے ہیں، دوسروں کے بل پر جینے کے عادی ہیں اُن کی نظر میں ہر وہ انسان ناپسندیدہ ہوتا ہے جو اپنے بل پر جیتا ہے کیونکہ ایسا انسان کسی کو بے جا طور پر کچھ دینے کے حق میں بھی نہیں ہوتا۔ انسان کسی سے اُمید وابستہ کرے اور وہ مدد نہ کرے تو اُس سے بُرا کون ہوسکتا ہے! ہمارا معاشرہ ہر اُس انسان کو اجنبی سمجھتا ہے جو حقیقت پسندی کے دائرے میں رہتے ہوئے زندگی بسر کرنے کا قائل ہو۔ حقیقت پسندی انسان کو بے جا طور پر آگے بڑھنے اور کسی کی غیر ضروری مدد کرنے سے بھی روکتی ہے۔ جس نے محنت سے کچھ کمایا ہو وہ محض ہاتھ پھیلانے پر کسی کو کچھ کیوں دینے لگا؟ ہاں‘ کوئی حقیقی ضرورت مند ہو تو اُس کی مدد لازم ہے مگر یہ مدد بھی صرف اِس حد تک ہونی چاہیے کہ وہ اپنے پیروں پر کھڑا ہوکر دوبارہ اپنے بل پر زندگی بسر کرنے کے قابل ہوسکے۔ ہمارے ماحول کا ایک بنیادی مسئلہ یہ ہے کہ مشکل گھڑی میں کسی کی مدد کیجیے تو وہ مدد لینے کو اپنا حق سمجھنے لگتا ہے۔ یہ ذہنیت اس قدر پنپ چکی ہے کہ جو مدد کرنے کی پوزیشن میں ہوں وہ بھی محتاط رہنے لگے ہیں۔
اپنے بل پر جینا اور کسی دوسرے کی مدد کرنا ایسے اوصاف ہیں جو انسان کو بلند بھی کرتے ہیں اور بہادر بھی بناتے ہیں۔ حقیقت پسندی کے دائرے میں رہتے ہوئے زندگی بسر کرنے والے بلندی اور بہادری‘ دونوں اوصاف کو سمجھتے ہیں اِس لیے اُن کی طرزِ فکر و عمل دنیا کو عجیب لگتی ہے۔ اس حقیقت کو سمجھنے کی ضرورت ہے کہ جو لوگ اپنے بل بوتے پر جیتے ہیں وہ آسانی سے کسی کی مدد کرنے پر بھی آمادہ نہیں ہوتے۔ محنت کی کمائی کو کبھی کوئی آسانی سے خرچ نہیں کرتا۔ اگر کسی کی مدد بھی کرنی ہو تو بہت چھان پھٹک کی جاتی ہے۔ یہ کوئی عجیب بات نہیں۔ جنہیں مفت خوری کی عادت ہو وہ یہی چاہتے ہیں کہ لوگ آنکھیں بند کرکے ان کی مدد کر دیا کریں۔
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved