دبئی میں اس وقت سات بج رہے تھے۔ مَینا کے گھر ڈنر کا وقت ساڑھے سات بجے تھا۔ اس روز اتوار تھا اور سڑکوں پر رش معمول سے زیادہ تھا۔ میں طوبیٰ اور عمران کے ہمراہ تقریباً آٹھ بجے مَینا کے گھر پہنچا۔ مَینا کے شوہر نے انجینئرنگ میں پی ایچ ڈی کی ہے اور دبئی کی ایک مقامی یونیورسٹی میں پڑھاتا ہے۔ ڈنر میں سمیرا اور شاداب بھی مدعو تھے۔ یوں خوب رونق ہو گئی تھی۔ ڈنر کے بعد چائے کا دور چلا اور پھر طوبیٰ اور عمران نے اجازت لی کیونکہ انہوں نے واپس عجمان جانا تھا۔ اس کے ساتھ سمیرا اور شاداب بھی اُٹھ کھڑے ہوئے‘ انہوں نے بھی دبئی کے دوسرے سرے تک جانا تھا۔ جب سب مہمان چلے گئے تو مَینا اور اس کی بیٹیاں میرے اردگرد بیٹھ گئیں۔ مَینا نے ان کو میرے بارے میں نہ جانے کیا کچھ بتایا تھا‘ وہ مجھ سے بہت سی باتیں کرنا چاہ رہی تھیں۔ مَینا کی سب سے بڑی بیٹی عائشہ ہے جو پاکستان میں میڈیکل کالج کے فرسٹ ایئر میں ہے اور اس سے چھوٹی تین بیٹیاں ہیں حفصہ‘ زینب اور زہرہ۔ میری آنکھیں نیند سے بوجھل ہو رہی تھیں لیکن میں زبردستی جاگنے کی کوشش کر رہا تھا۔ مَینا میری بھانجی ہے‘ اس کے والد آرمی میں تھے اور ان کی پوسٹنگ ملیر کینٹ میں تھی۔ یہ 90ء کی دہائی کی بات ہے‘ انہی دنوں مجھے آغا خان یونیورسٹی میں جاب ملی تھی۔ ہم نے بھی ملیر کینٹ میں کرائے پر گھر لے لیا۔ میرا آفس کریم آباد میں تھا۔ ملیر کینٹ سے وہاں تک تیس چالیس منٹ کا راستہ تھا۔ ان دنوں میرے پاس سفید رنگ کی شیراڈ کار تھی۔ میں یونیورسٹی روڈ سے ہوتا ہوا نیپا چورنگی سے دائیں ہاتھ ہو جاتا اور کچھ آگے جا کر بائیں مڑ جاتا حتیٰ کہ مُکا چوک آ جاتا۔ کہتے ہیں یہ پاکستان کے پہلے وزیراعظم لیاقت علی خان کے معروف مُکے کی یادگار تھا۔ ان دنوں یہ علاقہ ایم کیو ایم کے زیر اثر تھا۔ قریب ہی ایم کیو ایم کا مرکز نائن زیرو (90) واقع تھا۔ یہاں سے گزر کر آگے جائیں تو آغا خان کے جماعت خانے کے سامنے ایک بڑے احاطے میں آغا خان کا انسٹیٹیوٹ فار ایجوکیشنل ڈویلپمنٹ (IED) تھا جہاں میں پڑھاتا تھا۔ انہی دنوں مَینا کا داخلہ یونیورسٹی آف کراچی کے انگلش ڈیپارٹمنٹ کے ایم اے انگلش کے پروگرام میں ہوا۔ میں صبح یونیورسٹی روڈ سے ہوتا ہوا آفس جاتا اس لیے اکثر مَینا میرے ساتھ ہی یونیورسٹی جاتی۔ میں اسے کراچی یونیورسٹی کے گیٹ کے سامنے ڈراپ کرتا جہاں سے اس کا ڈیپارٹمنٹ زیادہ دور نہیں تھا۔ وہ بھی کیا دن تھے۔ ہم پہروں کتابوں‘ نئی فلموں اور نئے گیتوں پر باتیں کرتے۔ کراچی کے تین سال پلک جھپکتے میں گزر گئے۔ مجھے لاہور کی ایک یونیورسٹی میں ملازمت مل گئی اور ہم لاہور آگئے۔ کبھی کبھار مَینا کا خط آتا جس میں وہ بتاتی کہ اس نے کون سی نئی کتاب پڑھی ہے اور گلزار کا کون سا نیا گانا سنا ہے۔ پھر ایک روز خبر ملی کہ اس کی شادی ہو رہی اور ایک دن پتا چلا وہ شادی کے بعد دبئی چلی گئی ہے۔ دبئی کے مصروف شہر میں کتابوں اور گیتوں کیلئے وقت کہاں سے ملتا۔ اس نے ایک سکول میں جاب شروع کر دی تھی ساتھ ہی بچوں کی تعلیم و تربیت کی ذمہ داری بھی اس نے اپنے سر پر لے لی تھی۔ وہ اپنی بیٹیوں کی دوست بھی تھی اور استاد بھی۔ اس مصروف زندگی میں کبھی کبھار اسے کراچی کے دن یاد آتے جب وہ کراچی یونیورسٹی سے ایم اے انگلش کر رہی تھی۔ کیسا بے فکری کا زمانہ تھا۔ یونیورسٹی جانا‘ واپس آنا اور پھر کتابوں اورگیتوں کے ساتھ وقت گزارنا۔ اس زمانے میں ملیر کینٹ ایک خاموش اور سویا سویا سا علاقہ تھا۔ کتابوں کی صرف دو دکانیں تھیں‘ ایک فیصل بُک سٹور اور ایک شاکر بُک سٹور۔ بنیادی طور پر تو وہ سٹیشنری کی دکانیں تھیں لیکن ان سے عام کتابیں اور ڈائجسٹ بھی ملتے تھے۔ ساتھ ہی ایک تنگ سڑک تھی جس کے دونوں اطراف دکانوں کی لمبی قطاریں تھیں۔ ملیر کینٹ میں ان دنوں ایک اوپن ایئر ریستوران ہوا کرتا تھا۔ کراچی کی شاموں میں جب سمندر کی ہوائیں چلتیں تو باہر لان میں بیٹھنے کا اپنا مزہ ہوتا۔ مہینے میں ایک بار دونوں فیملیز ڈنر کے لیے اس ریستوران پر آتیں۔ تب ملیر کینٹ میں ایک چھوٹی سی بیکری 1&4 تھی۔ یہاں ہم اکثر کافی کیک لینے جاتے تھے۔
آج ایک مدت بعد میں مَینا اور اس کے بچوں سے مل رہا تھا۔ مَینا کی بیٹی حفصہ بھی اس کی طرح کتابوں کی رسیا ہے۔ زینب ہر دم کسی نئی شرارت کے لیے بے قرار رہتی ہے۔ سب سے چھوٹی بیٹی زہرہ پریِ سکول میں پڑھتی ہے۔ میں تین چار دن سے دبئی کے مختلف علاقوں میں گھوم رہا تھا۔ اب رات کا وقت تھا اور میں نیند کے غلبے میں تھا۔ ایسے میں زینب کہنے لگی: چلیں آئس کریم کھانے کو چلتے ہیں۔ اس کی بات سن کر میں انکار نہ کر سکا۔ ہم سب فوراً تیار ہو گئے۔ اپارٹمنٹ بلڈنگ کے قریب ہی دبئی کا ایک بڑا شاپنگ سنٹر ابنِ بطوطہ مال ہے۔ یہ رات کا وقت تھا اور ہم پیدل ہی ابنِ بطوطہ مال کی طرف جا رہے تھے۔ یہ مارچ کا مہینہ تھا اور رات کا وقت۔ ہلکی سرد ہوا چل رہی تھی۔ دبئی کی خاص بات یہاں کی سکیورٹی ہے۔ دنیا کے چند ہی ممالک ایسے ہوں گے جو اس حد تک محفوظ سمجھے جاتے ہیں۔ رات گئے آپ دبئی کی کسی ویران سڑک پر سفر کر رہے ہوں تو آپ کو گھبرانے کی ضرورت نہیں۔ یہاں کے سخت قوانین کی وجہ سے کرائم ریٹ بہت کم ہے۔ زینب ہمیشہ کی طرح شرارت کے موڈ میں اچھلتی دوڑتی جا رہی تھی۔ حفصہ مجھے بتا رہی تھی کہ وہ ٹیچر بننا چاہتی ہے‘ وہ مجھے بتا رہی تھی کہ اس کی کلاس ٹیچر کبھی کبھار اسے کلاس پڑھانے کو کہتی ہے اور اس کے ہم جماعت اسے کہتے ہیں‘ تم ٹیچر سے زیادہ اچھا پڑھاتی ہو۔ مَینا نے ہنستے ہوئے مجھے دیکھا اور کہا: یہ آپ پر گئی ہے‘ اسے کتابوں کا شوق ہے اور ٹیچنگ اس کا پسندیدہ پروفیشن ہے۔ میں نے کہا: یہ تو بہت اچھی بات ہے‘ ہمیں اچھے ٹیچرز کی ضرورت ہے۔ باتوں باتوں میں پتا ہی نہیں چلا اور ہم ابنِ بطوطہ مال پہنچ گئے۔ مال کے صدر دروازے پر ہم رک گئے‘ میں عمارت کی پیشانی پر ابنِ بطوطہ مال لکھا دیکھ رہا تھا کہ حفصہ بولی: آپ سوچ رہے ہوں گے کہ اس کا نام ابنِ بطوطہ کیوں ہے؟ میں اس کی طرف دیکھ کر مسکرایا۔ واقعی میں یہی سوچ رہا تھا۔ حفصہ نے بتایا کہ یہ مال معروف سیاح اور سکالر ابنِ بطوطہ کے نام پر بنایا گیا ہے۔
ابنِ بطوطہ دنیا کے مختلف خطوں میں گیا تھا‘ اس مال میں دنیا کے چھ خطوں کی نمائندگی ہے جہاں ابنِ بطوطہ سیاحت کے لیے گیا ہے۔ ان میں اندلس‘ چین‘ مصر‘ ہندوستان‘ تیونس اور فارس کے کورٹس شامل ہیں۔ ہر کورٹ کی تزئین و آرائش میں اس علاقے کی تہذیب اور ثقافت کی جھلک ہے۔ ابنِ بطوطہ مال میں تقریباً پانچ سو دکانیں اور ریستوران ہیں اور یہ دبئی کا تیسرا بڑا مال ہے جہاں دور دور سے سیاح آتے ہیں۔ میں نے مَینا کی طرف دیکھتے ہوئے کہا‘ مَینا تمہاری بیٹی تو واقعی ٹیچر ہے۔ مَینا نے ہنستے ہوئے کہا‘ She is a born teacher۔ ہم سب ہنس دیے۔ مال میں داخل ہو کر ہم تیونس کورٹ گئے جس کی دیواروں اور چھتوں کی نقش نگاری تیونس کی ثقافت کی عکاس تھی۔ یہ رات کا وقت تھا لیکن دکانیں کھلی تھیں اور گاہکوں کی آمدورفت جاری تھی۔ بچوں نے آئس کریم پارلر سے آئس کریم لی۔ اب ہم باتیں کرتے ہوئے دائیں بائیں مختلف دکانوں کو دیکھتے ہوئے آگے جا رہے تھے۔ اچانک مجھے ہوا میں کافی کی تیز مسحور کن مہک محسوس ہوئی۔ میں اس مہک کی انگلی پکڑ کر چلنے لگا۔ تب بائیں ہاتھ مجھے Starbucks کا بورڈ نظر آیا۔ کافی کی مہک یہیں سے آ رہی تھی۔ جانے اس مہک میں کیا جادو تھا کہ میرے قدم خود بخود اس کی طرف اٹھنے لگے۔(جاری)
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved