تحریر : کنور دلشاد تاریخ اشاعت     26-04-2023

سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ

19 اپریل کو چیف جسٹس آف پاکستان عمر عطا بندیال کی سربراہی میں تین رکنی بینچ نے ملک بھر میں ایک ساتھ انتخابات کرانے سے متعلق دائر درخواست پر سماعت کی۔سماعت کے دوران چیف جسٹس آف پاکستان نے ریمارکس دیے کہ سیاسی جماعتیں ایک مؤقف پر آ جائیں تو عدالت گنجائش نکال سکتی ہے۔ اگر سیاسی جماعتیں انتخابات کی تاریخ بدلنا چاہتی ہیں تو عدالت ان کے ساتھ ہے‘ تمام سیاسی جماعتوں کے رہنماؤں کو نوٹس جاری کر رہے ہیں جبکہ عدالت نے سکیورٹی صورتحال کی بنیاد پر پنجاب اسمبلی کے انتخابات8 اکتوبر تک ملتوی کرنے کی وزارتِ دفاع اور الیکشن کمیشن کی متفرق درخواستیں ناقابلِ سماعت قرار دے کر نمٹا دیں۔ وزارتِ دفاع نے یہ درخواست 18اپریل کو سپریم کورٹ میں دائر کی تھی جس میں مؤقف اپنایا گیا تھا کہ ملک میں جاری سکیورٹی صورتحال کے پیش نظر سپریم کورٹ 4 اپریل کا فیصلہ واپس لے اورملک بھر میں ایک ساتھ انتخابات کا حکم دیا جائے اور یہ کہ عدالت سندھ اور بلوچستان اسمبلی کی مدت مکمل ہونے پر انتخابات کا حکم دے۔ اس سے پہلے وزیر دفاع خواجہ آصف کا بھی یہی کہنا تھا کہ بڑی تعداد میں سکیورٹی اہلکار بار بار الیکشن کیلئے موبیلائز نہیں کرسکتے‘ بہتر ہوگا الیکشن ایک ہی دن کروائے جائیں۔ دورانِ سماعت تین رکنی بینچ نے پنجاب اور خیبر پختونخوا میں انتخابات کیلئے فنڈز کے حوالے سے کہا کہ حکومت 21 ارب روپے 27 اپریل تک الیکشن کمیشن کو فراہم کرے۔ حکومتی گرانٹ کے بل مسترد ہونے کا مطلب ہے کہ وزیر اعظم اور کابینہ ایوان میں اکثریت کھو بیٹھے ہیں جبکہ اٹارنی جنرل کا مؤقف ہے کہ ایسا نہیں۔اٹارنی جنرل سے فی الحال اتفاق کرتے ہوئے تحریری حکم نامے میں کہا گیا ہے کہ دوسری صورت بھی حکومت کو سنگین آئینی مسائل کی طرف لے جا سکتی ہے‘ عدالتی حکم کی نافرمانی کے بھی سنگین نتائج برآمد ہوسکتے ہیں‘ لہٰذا ضروری ہے کہ حکومت 27 اپریل تک 21 ارب روپے فراہم کرے۔ میرے نزدیک وزارتِ دفاع کی ملک بھر میں ایک ساتھ انتخابات کی درخواست کا مقصد یہی تھا کہ مرحلہ وار انتخابات سے ملک میں انارکی پھیلے گی‘ لہٰذا قومی مفادات کو مدنظر رکھتے ہوئے سپریم کورٹ آف پاکستان 14 مئی کو پنجاب میں الیکشن کروانے کا حکم واپس لے۔
شنید ہے کہ گزشتہ ہفتے کے دوران اعلیٰ عسکری قیادت اور چیف جسٹس آف پاکستان کی سپریم کورٹ چیمبر میں ملاقات کے دوران بھی سکیورٹی اہلکاروں کی الیکشن کیلئے فراہمی بھی زیر بحث آئی۔ الیکشن کمیشن کی طرف سے سپریم کورٹ میں جمع کروائی گئی اُن دستاویزات اور وزارتِ دفاع کی رپورٹس بھی یقینا معزز جج صاحبان نے ملاحظہ کیں اور ان پر ریمارکس بھی دیے تھے‘ جن میں ملک میں سکیورٹی صورتحال کے پیش نظر سکیورٹی اہلکاروں کی الیکشن کیلئے فراہمی سے معذرت کی گئی تھی۔ ان تمام حقائق کے پیش نظر اب اس تین رکنی بینچ نے ہی حتمی فیصلہ کرنا ہے کہ پنجاب اور خیبر پختونخوا میں 14مئی کو انتخابات کروانے ہیں یا پورے ملک میں ایک ساتھ انتخابات کروانے ہیں۔الیکشن کمیشن نے بھی سپریم کورٹ آف پاکستان میں رپورٹ جمع کرائی ہے جس میں انتخابات کیلئے فنڈز کی عدم فراہمی اور سکیورٹی کی خراب صورتحال سے متعلق آگاہ کیا گیا ہے۔ واضح رہے کہ الیکشن کمیشن کی طرف سے انتخابات کیلئے 8اکتوبر کی تاریخ کا اعلان اداروں کی رپورٹوں کو مدنظر رکھتے ہوئے الیکشن ایکٹ 2017ء کی دفعہ 58 کے تحت ہی کیا گیا تھا۔ ان رپورٹوں میں ملک میں جاری آپریشنز کی معلومات فراہم کی گئی تھیں اور سپریم کورٹ کو بتایا گیا تھا کہ مذکورہ آپریشن چار سے پانچ ماہ میں مکمل ہوں گے۔ دیکھا جائے تو ان آپریشنز کا مقصد ملک میں امن و امان قائم کرنا ہے اور جب ملک میں امن و امان کی صورتحال بہتر ہو گی تو پُر امن انتخابات کا انعقاد مزید آسان ہو جائے گا۔ اس موقع پر الیکشن کمیشن نے 1977ء میں قومی اور صوبائی اسمبلیوں کے انتخابات تین دنوں کے فرق سے کرائے جانے کے منفی اثرات کا بھی ذکر کیا جن میں قومی اسمبلی کے نتائج کے اعلان پر اپوزیشن جماعتوں نے دھاندلی کے الزامات کے تحت صوبائی اسمبلیوں کے انتخابات کا بائیکاٹ کر دیا تھا۔ الیکشن کمیشن آف پاکستان نے تمام پہلوؤں پر غور کرتے ہوئے سپریم کورٹ آف پاکستان سے 8 اکتوبر کے انتخابات کا شیڈول ہی بحال کرنے کی استدعا بھی کی۔ ماضی میں بھی ملکِ عزیز کو ایسی متعدد بحرانی صورتحال کا سامنا رہا لیکن باہمی مشاورت اور ریاستی اداروں کے مثبت کردار سے حالات پر قابو پا لیا گیا۔ سپریم کورٹ کی تمام سیاسی جماعتوں کو انتخابات کے حوالے سے ایک موقف پر آنے کی تجویز انتخابات کے انعقاد کے حوالے سے پیدا ہونے والے مسائل کا حل ثابت ہو سکتی ہے لیکن مولانا فضل الرحمن ایک پریس کانفرنس میں اس حوالے سے اپنے گہرے تحفظات کا اظہار کر چکے ہیں۔
اُدھر اسلام آباد میں آئین پاکستان کی گولڈن جوبلی کی تقریب میں خطاب کرتے ہوئے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کا کہنا تھا کہ دسمبر 1971ء میں پاکستان اچانک نہیں ٹوٹا تھا بلکہ اس کے بیج کافی پہلے بوئے گئے تھے۔ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ پاکستان ٹوٹنے کی بڑی وجہ غلط عدالتی فیصلہ تھا۔ میری رائے میں فیڈرل کورٹ کے جسٹس منیر نے پاکستان توڑنے کا بیج بویا۔ یہ زہریلا بیج پروان چڑھا اور 1971ء میں ملک دو ٹکڑے ہوگیا۔ تاریخ بار بار کہہ رہی ہے کہ ماضی سے سیکھو۔اگر تاریخ سے نہیں سیکھیں گے تو تاریخ خود کو دہرائے گی۔ پاکستان میں ایک بار نہیں کئی بار تاریخ کو دہرایا گیا اور اب بھی دہرایا جا رہا ہے۔ اگر آپ کو تاریخ نہیں دہرانی تو تاریخ سے سیکھیں۔ 1958ء‘ 1977ء‘ 1993ء‘ 1999ء میں بھی تاریخ پکارتی رہی کہ سیکھو۔ تاریخ ہمیں سات سبق دے چکی ہے اور کتنی بار سکھائے گی۔ آئین پاکستان جیسا تحفہ پھر نہیں ملے گا۔جو چیز آئین میں نہیں اسے آمرانہ ہی تصور کیا جائے گا۔ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کا کہنا تھا کہ ہم جو کام آج کرتے ہیں‘ اس کے اثرات صدیوں بعد تک رہتے ہیں۔ ذوالفقار علی بھٹو کو ایک ووٹ سے سزائے موت دی گئی۔میری رائے ہے کہ آرٹیکل(3) 184 کے تحت سوموٹو سپریم کورٹ کا اختیار ہے۔ یہ شق مظلوموں کیلئے رکھی گئی تھی۔ اس میں کہیں نہیں لکھا کہ کوئی سینئرجج ہو‘ میری رائے میں سپریم کورٹ کا کوئی بھی جج ہو سکتا ہے۔ میں یہ نہیں کہتا کہ میرا فیصلہ درست ہے یا غلط‘ یہ آپ یا تاریخ بتائے گی۔ آئین ایسا تحفہ ہے جو دوبارہ کبھی نہیں ملے گا۔ اس پر بہت وار کیے گئے لیکن آئین کا بہت حوصلہ ہے اور پچاس سال بعد بھی کھڑا ہے۔ 2010ء میں جب 18 ویں ترمیم آئی تھی تو آئین کی شکل و صورت بگاڑ دی گئی تھی۔ جب تک سب کو ساتھ لے کر نہیں چلیں گے تو شک وشبہات جنم لیتے ہیں۔گوکہ 18 ویں ترمیم نے وفاق کو مضبوط کیا مگر جس پراسس کے تحت 18 ویں ترمیم بنائی گئی اس میں رائے نہیں لی گئی۔ہم وفاق کو بھول چکے ہیں‘ اسے قائم رکھنا چاہیے۔
اُدھر عدالتی اصلاحات سے متعلق سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر بل 2023ء پارلیمنٹ کے بعد صدر سے دوبارہ منظوری کی آئینی مدت گزرنے پر از خود منظور ہوکر قانون کی شکل اختیار کرگیا ہے۔قومی اسمبلی سیکرٹریٹ سے جاری بیان کے مطابق سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ 2023ء دستورِ پاکستان کی دفعہ 75 کی شق 2 کے تحت صدر سے منظور شدہ سمجھا جائے گا۔اب اس گزٹ نوٹیفیکیشن کے بعد جو سپریم کورٹ آف پاکستان نے ازخود نوٹس لیتے ہوئے اپنے اہم فیصلے کیے تھے‘ وہ میری نظر میں غیر مؤثر ہو گئے ہیں۔علاوہ ازیں 27 اپریل کو سپریم کورٹ آف پاکستان کا بینچ جو اہم فیصلے کرنے والا ہے‘ حکومت اسے متنازع قرار دیتے ہوئے غیر مؤثر قرار دے سکتی ہے۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved