امریکی اخبار ''واشنگٹن پوسٹ‘‘ میں پینٹاگان کی ایک جائزہ رپورٹ میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ امریکی اور نیٹو افواج کے انخلا کے بعد افغانستان پھر سے ایسی دہشت گرد تنظیموں کا اڈا بن چکا ہے جو نہ صرف افغانستان کی سرحدوں سے باہر جنوبی اور وسطی ایشیا میں اس کے ہمسایہ ممالک بلکہ امریکہ اور مغربی یورپ میں امریکہ کے اتحادی ممالک کو بھی نشانہ بنانے کی تیاریوں میں مصروف ہیں۔ یاد رہے کہ ستمبر 2001ء میں امریکہ میں دہشت گردی کے بڑے واقعہ نائن الیون کے بارے میں بھی امریکہ کا دعویٰ ہے کہ اس کی منصوبہ بندی افغانستان میں کی گئی تھی۔اگرچہ جو بائیڈن انتظامیہ نے واشنگٹن پوسٹ میں چھپنے والی اس خبر کی تصدیق نہیں کی تاہم امریکی حکومت ایک عرصہ سے الزام عائد کر رہی ہے کہ اگست 2021ء سے افغانستان میں اقتدار پر قابض طالبان اپریل 2020ء میں طے پانیوالے معاہدے کے مطابق ان دہشت گرد تنظیموں کو دیگر ممالک اور امریکہ کے خلاف دہشت گرد کارروائیاں کرنے سے نہیں روک سکے جو گزشتہ تقریباً ڈیڑھ سال کی مدت میں نہ صرف افغانستان میں اپنی پوزیشن مضبوط بنانے میں کامیاب ہو چکی ہیں بلکہ علاقائی اور عالمی سطح پر امریکہ اور اسکے دوست ملکوں کے مفادات کو نشانہ بنانے کیلئے ایک نیٹ ورک قائم کرنے میں بھی کامیاب ہو چکی ہیں۔ اس سلسلے میں داعش کا خاص طور پر ذکر کیا جاتا ہے جس نے افغانستان سے امریکیوں کے نکلنے کے بعد جنوبی اور وسطی ایشیا سے نوجوانوں کو بھرتی کرکے اپنے جنگجوئوں کی تعداد میں تین گنا اضافہ کر لیا۔ (امریکی نیشنل سکیورٹی کونسل کے مطابق افغانستان میں اسوقت داعش کے باقاعدہ تربیت یافتہ اور ایکٹو جنگجوئوں کی تعداد 3 ہزار کے لگ بھگ ہے)۔ واشنگٹن پوسٹ میں چھپنے والی اس خبر سے پہلے مارچ میں امریکی سینٹرل کمانڈ کے کمانڈر جنرل مائیکل کوریلا نے سینیٹ کی آرمڈ فورسز کمیٹی کے روبرو ایک بیان میں خبردار کیا تھا کہ افغانستان اور پاکستان میں داعش کے حملوں میں تیزی آ چکی ہے اور وہ اب ان حملوں کا دائرہ افغان سرحدوں سے باہر ایسے ٹارگٹس تک پھیلانا چاہتی ہے جن میں امریکی ہوم لینڈ اور چینی مفادات بھی شامل ہیں۔ امریکہ کی طرف سے افغانستان میں موجود ان دہشت گرد تنظیموں سے ممکنہ طور پر لاحق سکیورٹی خطرات کا اظہار کہاں تک درست ہے؟ اور اگر ان میں کچھ سچائی ہے تو ان خطرات کے افغانستان اور اس کے ارد گرد کے علاقوں پر کیا اثرات مرتب ہوں گے؟ کیا اس خطے کو ایک دفعہ پھر دہشت گردی کیخلاف اقدامات کی آڑ میں عدم استحکام کا شکار بنانے کی تیاریاں ہو رہی ہیں اور سب سے اہم یہ کہ پاکستان کو نہ صرف اپنی بارڈر سکیورٹی بلکہ اندرونی سیاسی حالات میں کون سے نئے چیلنجوں کا سامنا کرنا پڑے گا؟ یہ اہم سوالات ہیں۔
افغانستان میں غیر ملکی جنگجو تنظیموں کی موجودگی کا اعتراف خود طالبان نے کابل پر قبضہ کے بعد ایک سرکاری بیان میں کیا تھا۔ اس بیان میں طالبان کی طرف سے یہ بھی اعتراف کیا گیا تھا کہ ان تنظیموں‘جنہیں ان کے ملک کالعدم قرار دے چکے ہیں‘ کے جنگجو افغانستان میں امریکہ اور نیٹو کے خلاف جنگ میں طالبان کی صفوں میں شامل ہو کر ان کے شانہ بشانہ حصہ لے چکے ہیں‘ اور طالبان کی طرف سے یہ بھی کہا گیا تھا کہ افغانستان سے امریکیوں کے نکلنے اور جنگ بند ہونے کے بعد ان جنگجوئوں کے مستقبل کے بارے میں فیصلہ کرنا سب سے بڑا چیلنج ہے۔ انہیں ان کے ممالک کی طرف نہیں دھکیل سکتے کیونکہ ان کی تنظیمیں وہاں خلافِ قانون قرار دی جا چکی ہیں‘ البتہ انہیں اپنے ممالک میں دہشت گردی کی کارروائیوں کیلئے افغانستان کی سرزمین استعمال کرنے کی اجازت نہیں دی جائے گی کیونکہ طالبان نے دوحہ معاہدے کے تحت امریکیوں سے ایسا کرنے کا وعدہ کیا تھا مگر وہ یہ وعدہ نبھانے میں ناکام رہے۔ یہ شکایت امریکہ ہی نہیں کر رہا بلکہ پاکستان کی طرف سے بھی گلہ کیا جا رہا ہے کہ کابل میں طالبان کی انتظامیہ کالعدم تحریک طالبان کے جنگجوئوں کو پاکستان میں دہشت گردی کی کارروائیوں کیلئے افغان سرزمین استعمال کرنے سے روکنے میں ناکام رہی ہے۔
وزیر دفاع خواجہ آصف اس ضمن میں متعدد بار کہہ چکے ہیں کہ ٹی ٹی پی کے دہشت گردو ں نے افغانستان میں اپنے اڈے قائم کر رکھے ہیں جہاں سے وہ پاکستان میں دہشت گردی کی کارروائیاں کر رہے ہیں لیکن سب سے زیادہ تشویش حال ہی میں (13 اپریل) کو ازبکستان کے شہر سمرقند میں افغانستان کے ہمسایہ ممالک پاکستان‘ ایران‘ ازبکستان‘ تاجکستان‘ ترکی‘ لبنان‘ روس اور چین کی چوتھی وزارتی کمیٹی کے اجلاس کے مشترکہ اعلامیہ میں ظاہر کی گئی ہے۔ اس اعلامیہ کے مطابق تمام دہشت گرد گروپ‘ جن میں داعش‘ القاعدہ‘ ایسٹ ترکستان اسلامک موومنٹ (ETIM)‘ ٹی ٹی پی‘ بی ایل اے‘ جند اللہ‘ جیش العدل‘ جماعت انصاراللہ‘ اسلامک موومنٹ آف ازبکستان (IMU) اپنی سرگرمیاں جاری رکھے ہوئے ہیں اور اس کی وجہ سے افغانستان میں سکیورٹی کی صورتحال انتہائی ابتر ہو چکی ہے اور یہ صورت حال علاقائی اور عالمی سطح پر سکیورٹی کیلئے ایک سنگین خطرہ ہے۔ امریکہ نے تو دبے لفظوں میں کہہ دیا ہے کہ وہ فوجی مداخلت کے بغیر ان دہشتگرد تنظیموں کو جدید ٹیکنالوجی اور ہتھیاروں سے ختم کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے مگر اس کے باوجود مقامی ممالک کیساتھ دفاع اور سکیورٹی کے شعبوں میں تعاون کو خارج از امکان نہیں کیا بلکہ پاکستان کیساتھ ان شعبوں میں بڑھتے ہوئے تعاون سے ظاہر ہوتا ہے کہ آنیوالے دنوں یا ہفتوں میں نہ سہی تو مہینوں میں پاکستان اور امریکہ کے درمیان انسداد دہشت گردی کے شعبے میں عملی تعاون میں نمایاں اضافہ ہو گا۔اس امکان کے پیشِ نظر پاکستان کو زیادہ احتیاط اور سوچ سمجھ کر قدم اٹھانے کی ضرورت ہے کیونکہ پاکستان اس سے قبل دو دہائیوں تک امریکہ کیساتھ دہشت گردی کے خلاف جنگ میں تعاون کے تجربے سے گزر چکا ہے اور اس کے نتائج بھی بھگت چکا ہے۔ سب جانتے ہیں کہ اس تعاون سے دہشت گردی ختم ہونے کے بجائے اس میں اضافہ ہوا ہے۔ پاکستان کے شمالی علاقوں اور صوبہ خیبر پختونخوا کی موجودہ صورتحال اس کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ اگر پاکستان کی کسی حکومت نے بھی علاقے میں بڑھتی ہوئی دہشت گردی کے خلاف امریکہ کے ساتھ پہلے کی طرح اتحاد کیا تو اس سے دہشت گردی ختم ہونے کے بجائے اس میں اضافہ ہی ہو گا کیونکہ چین اور روس کے ساتھ محاذ آرائی کے تناظر میں جنوبی ایشیائی خطوں میں امریکی اقدامات پر بھروسہ نہیں کیا جا سکتا‘ مگر یہ بھی حقیقت ہے کہ افغانستان میں طالبان حکومت کی بے بسی کی وجہ سے افغانستان میں ایسے دہشت گرد گروپوں کی سرگرمیوں میں اضافہ ہو رہا ہے جن کے نشانے پر صرف افغانستان ہی نہیں بلکہ افغانستان کی سرحدوں سے باہر ممالک بھی ہیں۔ ان میں پاکستان بھی شامل ہے۔سمرقند کی میٹنگ میں افغان طالبان انتظامیہ کے قائم مقام وزیر خارجہ امیر خان متقی بھی شریک ہوئے تھے۔ ان کی موجودگی میں یہ مشترکہ اعلامیہ جاری کیا گیا جس میں بالواسطہ طور پر اعتراف کیا گیا ہے کہ امریکیوں کے خلاف جنگ کے دوران کی صورتحال سے فائدہ اٹھا کر جن دہشت گرد تنظیموں نے طالبان کی صفوں میں شریک ہوکر جگہ بنالی تھی‘ جنگ کے خاتمہ کے بعد انہوں نے افغانستان میں اپنے ٹھکانوں سے ہمسایہ ممالک میں دہشت گردی کی کارروائیاں تیز کر دی ہیں۔ اسلئے میٹنگ میں شرکت کرنیوالے تمام ممالک نے اس بات پراتفاق کیا ہے کہ صورتحال کا مقابلہ کرنے کیلئے سب‘ جن میں افغانستان کی طالبان انتظامیہ بھی شامل ہے‘ تعاون کریں۔ مشترکہ اعلامیہ میں جن اقدامات کی سفارش کی گئی ہے ان پر عمل کرنے سے دہشتگردی کے موجودہ چیلنج سے نمٹا جا سکتا ہے اور یہی بہتر راستہ ہے۔ باہر سے کسی بڑی طاقت کو مداخلت کا موقع فراہم کرنے سے یہ خطہ ایک دفعہ پھر عالمی سطح پر جاری طاقت کے حصول کیلئے رسہ کشی کا میدان بن جائے گا۔
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved