تحریر : اسلم اعوان تاریخ اشاعت     27-04-2023

سوڈان میں تیسری سول وار

سوڈان کے بدقسمت شہری رمضان کے مقدس مہینے میں شروع ہونے والی اپنی جدید تاریخ کی تیسری سول وار کوجھیل رہے ہیں جس نے آنِ واحد میں دارالحکومت خرطوم سمیت ملک کے بڑے شہروں کو اپنی لپیٹ میں لے لیا۔ جنرل عبدالفتاح البرہان کی قیادت میں سوڈانی فوج اور محمد حمدان دقلو کی ریپڈ سپورٹ فورس (آر ایس ایف) جسے سویلین لیڈر شپ کی حمایت حاصل ہے‘ کے مابین کانٹے کی لڑائی جاری ہے۔ سوڈان میں اس وقت لاکھوں شہری دوطرفہ فائرنگ میں پھنس کر تیزی سے زندگی کے امکان سے دور ہوتے جا رہے ہیں۔ یہ جھڑپیں نہایت سرعت کے ساتھ ایک مکمل جنگ میں بدلتی نظر آتی ہیں جس کی مہیب لہریں پڑوسی ممالک کو بھی اپنی لپیٹ میں لے سکتی ہیں۔ افریقی، خلیجی اور مغربی ممالک‘ جن میں سے بعض کے جنرل البرہان سے قریبی روابط ہیں‘ فریقین کو جنگ بندی پر راضی کرنے کے بجائے اس انسانی المیے سے فائدہ اٹھانے کیلئے کوشاں ہیں۔
بظاہر اس تنازع کی ابتدا سوڈانی فوج کی طرف سے ''ریپڈ سپورٹ فورس‘‘کو تحلیل کرکے فوج میں ضم کرنے کے مطالبات سے ہوئی۔ البتہ 15اپریل کو خرطوم میں شروع ہونے والی جھڑپوں کے حوالے سے یہ واضح نہیں کہ پہلی گولی کس نے چلائی؛ تاہم یہ ہولناک جنگ جس سرعت سے خرطوم سے شمال، جنوب، مشرق اور مغربی شہروں کی طرف پھیلی، اس سے تو یہی لگتا ہے کہ فریقین جنگ کیلئے پہلے سے ہی تیار تھے۔ جنگ کی رفتار میں کمی بیشی اور فریقین کی طرف سے کلیدی اداروں پر کنٹرول کے متضاد دعووں کے باوجود مرنے والوں کے اعداد و شمار مفقود ہیں۔ ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن کے مطابق اب تک 400 سے زیادہ افراد ہلاک اور لاتعداد شہری شدیدگرمی میں بغیر بجلی اور کہیں کہیں پانی کے بغیرگھروں میں محبوس ہیں۔ ہسپتالوں کو ادویات کی سپلائی منقطع ہونے سے امدادی سرگرمیوں میں تعطل آ گیا ہے جبکہ وسیع پیمانے پر لوٹ مار کے باعث خوراک کی قلت پیدا ہوگئی ہے۔ امر واقع یہ ہے کہ سابق صدر عمرالبشیر نے فوج کے ارتکازِ قوت کو منقسم کرکے آئے دن کی فوجی بغاوتوں کے تداراک کی کوشش کی تھی تاکہ مملکت میں سویلین بالادستی کے ذریعے سیاسی استحکام لایا جا سکے۔ سوڈان کے روایتی طور پر مضبوط ادارے اورعالمی طاقتوں کے مفادات کے مطابق بغاوتوں کی تاریخ رکھنے والی سوڈانی فوج کو عمر البشیرنے قومی مفادات کے تابع لانے کی خاطر یونٹی آف کمانڈ سے نکال کر طاقت کے مسابقتی مراکز میں تقسیم کر دیا۔
نیم فوجی کور ریپڈ سپورٹ فورس کی تشکیل ابتدا میں دارفور میں عالمی قوتوں کی پشت پناہی کی حامل عیسائی ملیشیائوں کی بغاوت کو کچلنے کیلئے کی گئی تھی لیکن 1956ء میں آزادی کے بعد سے ملک پر بلاشرکت غیرے حکمرانی کرنے والی سوڈان کی روایتی فوجی اشرافیہ نے اسے اپنی حکمرانی کی راہ میں بڑی رکاوٹ سمجھ کر ابتدا ہی سے اسے تحلیل کرنے کی کوشش جاری رکھی؛ تاہم اندرونِ ملک اس فورس کو ملنے والی وسیع سیاسی حمایت کے علاوہ سونے کی کان کنی پہ کنٹرول اورعلاقائی ملیشیائوں کو آوٹ سورس کرنے کے بعد یہ فورس ناقابلِ تسخیر ہو گئی۔ 2019ء میں جب سوڈان کی عوامی بغاوت نے صدر عمرالبشیر کو معزول کیا تو فوج کو اقتدار پر قبضہ کرنے کی خاطر سریع الحرکت فورس کے تعاون کی ضرورت پڑی کیونکہ لاکھوں افراد پر مشتمل جس عوامی تحریک نے چند مہینوں میں عمر البشیر کا تختہ الٹا‘ وہ سوڈانی فوج کو دوبارہ اقتدار پر قبضہ کرنے کی اجازت نہیں دیتی تھی۔ اس لیے عوامی نفرت کی لہر کو کند کرنے کی خاطر جنرل محمد الفتاح البرہان نے پہلے حمدان دقلو کو اقتدار میں حصہ دے کر عبوری فوجی کونسل میں اپنا نائب بنایا اور بعد میں خودمختار کونسل کے نائب سربراہ کے طور پرسویلین اپوزیشن کے ساتھ تقسیمِ اقتدار کا معاہدہ کرلیا۔ اب جنرل البرہان نے حمدان دقلو سے شراکت ختم کر لی۔ اکتوبر 2021ء کی بغاوت میں جنرل البرہان کی جانب سے دوبارہ سویلین حکومت کو معزول کرنے کے بعد اقتدار پر فوج کا قبضہ مستحکم بنانے کی کوشش کے دوران حمدان دقلو نے خود کو جنرل البرہان سے دور کرنا شروع کر دیا۔ دریں اثنا معیشت‘ جس کی پریشانیاں 2019ء کی بغاوت کی ایک بڑی وجہ بنیں‘ مزید مشکلات میں الجھنے لگی، جس سے سماجی بے چینی دوچند ہو گئی کیونکہ جب سوڈانی شہری سویلین حکومت کی بحالی کیلئے دباؤ بڑھانے لگے تو آر ایس ایف تیزی سے خود کو عوامی مطالبات سے ہم آہنگ کرنے لگی، یہاں تک کہ دقلو نے عوام میں خود کو غیر متنازع مصلح کے طور پر منوا لیا۔ دسمبر 2022ء میں سویلین حکمرانی کی بحالی کی ضمانت دینے والے فریم ورک معاہدے نے دونوں فورسز کی دشمنی کو مزید بڑھاوا دیا۔
جب جنرل البرہان نے بیرونی حمایت کے عوض اس معاہدے سے انحراف کیا‘ جس میں آر ایس ایف کو مسلح افواج کے ہم پلہ ایک سکیورٹی ادارے کے طور پر تسلیم کرتے ہوئے اسے آرمی چیف کے بجائے سویلین سربراہِ مملکت کی کمان میں رکھنے کا عزم کیا گیا تھا‘ تو اس معاہدے کے تحت آر ایس ایف کو فوج میں ضم کرنے کی ضرورت باقی نہیں رہی تھی اور یہی سبب تھا جس نے جنرل البرہان اور حمدان دقلوکے درمیان عدم اعتماد کو مزید گہرا کر دیا۔ فوج اورآر ایس ایف کے درمیان سوڈان بھر میں نئی بھرتی کے لیے مقابلے کے بعد فروری اور مارچ کے اوائل میں تناؤ واضح ہو گیا اور حمدان دقلو کے گڑھ دارفور میں صورتحال کشیدہ ہو گئی۔ یہ افواہیں اڑنے لگیں کہ فوج اُن سرحدی گارڈز کو دوبارہ منظم کر رہی ہے جو تاریخی طور پر حمدان دقلوکے دیرینہ حریف موسیٰ ہلال کی کمانڈ میں ہیں‘ اس خبر نے فوج اور آر ایس ایف کے درمیان آتشِ غضب کو مزید بڑھا دیا۔ جنرل البرہان کی طرف سے خودمختار کونسل کو تحلیل کرنے اور ایک نئی فوجی کونسل بنانے کی تجویز نے بھی تنازع بڑھایا کیونکہ اس کا مطلب یہ لیا گیا کہ جنرل البرہان‘ حمدان دقلو سے نائب صدر کی رسمی حیثیت چھیننا چاہتے ہیں؛ تاہم دارالحکومت میں دو طرفہ فوجی تشکیل کے باوجود جنرل البرہان اور حمدان دقلو نے 11 مارچ کو کشیدگی کم کرنے کا معاہدہ کیا جس کے مطابق حمدان نے خرطوم سے اپنی فورسز نکالنے اور مشترکہ سکیورٹی کمیٹی بنانے پر اتفاق کیا؛ تاہم نئی سویلین حکومت کی تشکیل کیلئے حتمی مذاکرات نے جلد ہی ملک کو ایک بار پھر بدترین تصادم کی طرف دھکیل دیا۔ خاص طور پرآر ایس ایف کو فوج میں ضم کرنے کے ٹائم ٹیبل اور ایک مربوط فورس کے ڈھانچے پر اختلافات ناقابلِ عبور ہوتے چلے گئے۔ عام شہریوں نے آر ایس ایف کے دس سالہ انضمام کی تجویز کی حمایت میں ریلی نکالی لیکن عالمی دبائو پر فوج نے دو سال کے ٹائم ٹیبل کا مطالبہ کرکے تناؤ بڑھا دیا۔ جنرل البرہان RSF کو ایک دہائی دینے کو تیار نہیں تھے، جس میں وہ خود کو فوج کی نگرانی سے باہر رکھ کے اپنی خودمختاری اور قوت کو بڑھا سکتی تھی۔
یہ واضح ہے کہ جنرل البرہان کو دسمبر کے فریم ورک معاہدے کے خلاف فوج کے اندر سخت مزاحمت کا سامنا کرنا پڑا کیونکہ معاملات کو سلجھانے کے بجائے حمدان دقلوکے ساتھ کشیدگی میں بدستور اضافہ ہو رہا تھا جس کے نتیجے میں فریقین خود کو مسلح تصادم کیلئے تیار کرنے کی خاطر نئی بھرتیاں کرنے لگے اور خاص طور پر خرطوم سمیت سٹریٹجک علاقوں میں بڑی تعداد میں اپنی فوجوں کو متحرک کر دیا۔ 13 اپریل کو RSF کے سپاہیوں کا ایک بڑا دستہ شمالی قصبے میرو کے فضائی اڈے کے قریب دوبارہ تعینات ہوا جہاں مصری فضائیہ بھی مامور تھی۔ فوج نے RSF پر غیر مجاز حرکت کا الزام دھر کے اسے پسپا ہونے کا الٹی میٹم دیا۔ بڑی طاقتوں نے ثالثی کیلئے ہنگامی اقدامات کیے۔ امریکہ، برطانیہ اور سعودی عرب پر مشتمل بلاک اقوام متحدہ اور کواڈ کی کوششوں سے خرطوم میں فریقین کی تین ملاقاتیں بھی ہوئیں مگر دو دن بعد لڑائی شروع کرکے فوج نے آر ایس ایف سے دشمنی نبھانے کی خاطر تیسری بار ملک کو خانہ جنگی کی طرف دھکیل دیا۔ اگرچہ خانہ جنگی سوڈانیوں کیلئے کوئی نئی بات نہیں لیکن خرطوم کی یہ تیسری شہری جنگ لاکھوں انسانوں کو نگل لے گی، سوڈانی فضائیہ کی دارالحکومت پر بمباری کے باعث شہری شدید گرمی میں بجلی کے بغیر گھروں میں بھوکے پیاسے پھنس گئے ہیں۔ سوشل میڈیا سے پتا چلتا ہے کہ جب رہائشی اپنے محلّوں میں جا کر فضائی نقصان پر قابو پانے کی کوشش میں مصروف تھے تو شہر میں لوٹ مار شروع ہو گئی۔ ملک کے دوسرے حصوں میں بھی صورتحال اتنی ہی سنگین ہے مگر وہاں سے معلومات کا آنا مشکل ہے۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved