پاکستان اس وقت بدترین معاشی بحران کا شکار ہے لیکن عید سے قبل لاہور کے شاپنگ مالز، بازاروں اور مارکیٹوں میں عوام کا رش دیکھ کر بالکل یہ احساس نہیں ہوا کہ ملک پر دیوالیہ پن کے اثرات منڈلا رہے ہیں۔ کپڑوں اور جوتوں کا شاید ہی کوئی برانڈ ایسا ہو جس کے آئوٹ لیٹ پر رش نہ ہو۔ قیمتیں آسمان سے باتیں کر رہی تھیں لیکن ایسا محسوس ہو رہا تھا کہ عوام کو اس کی فکر ہی نہیں ہے۔ عوام کی اکثریت قیمت کے بجائے پراڈکٹ کے معیاری ہونے کو ترجیح دیتی دکھائی دی۔ شاید اسی لیے تقریباً ہر برانڈ پر معیاری پراڈکٹس کا سٹاک ختم ہونے کی خبریں عام تھیں۔ پٹرول کی آسمان سے باتیں کرتی قیمتوں کا بھی عوام پر اثر دکھائی نہیں دیا۔ پارکنگ میں گنجائش سے زیادہ گاڑیاں کھڑی تھیں۔ محض پارکنگ کی جگہ ڈھونڈنے کے لیے کم از کم پندرہ سے بیس منٹ کی خواری لازمی تھی۔یہ صورتحال لاہور کے بڑے بازاروں اور بڑے شاپنگ مالز کی ہے۔ پاکستان کے دیگر شہروں میں کیا صورتحال رہی‘ میں چونکہ ذاتی طور پر اس کا مشاہدہ نہیں کر سکا‘ اس لیے کوئی رائے دینے سے گریز کروں گا۔
عید کے موقع پر حکومت کی جانب سے پانچ سرکاری چھٹیاں دینا سمجھ سے بالاتر ہے۔ ہماری افسر شاہی اور سرکاری ملازمین چھٹیوں کے شوقین ہیں۔ ایسا لگتا ہے کہ یہ فیصلہ انہوں نے اپنی سہولت کے پیشِ نظر کیا۔جن حالات سے ملکی معیشت دو چار ہے ایسے میں پانچ سرکاری چھٹیاں دینا قطعاً مناسب نہیں تھا۔ حکومتی فیصلے ذاتی پسند یا نا پسند کے بجائے معاشی صورتحال کو مدنظر رکھ کر کیے جانے چاہئیں۔کہا جاتا ہے کہ انسان چونکہ جنت میں رہتا تھا اس لیے اس کے مزاج میں آرام پسند ہونا، کام نہ کرنا اور خواہشات میں اضافہ کرتے رہنا شامل ہے۔ اکثریت کا تو علم نہیں لیکن سرکاری بابوؤں کا مزاج تقریباً ایسا ہی ہے۔ ہمارے ایک عزیز اکثر یہ مثال دیتے ہیں کہ جب بہادر شاہ ظفر کو گرفتار کر کے قید خانے لے جایا جانے لگا تو انہوں نے کہا کہ جب تک انہیں آرام دہ جوتے مہیا نہیں کیے جائیں گے تب تک وہ اپنی جگہ سے نہیں اٹھیں گے۔ وہ اس حقیقت کو قبول ہی نہیں کر پائے تھے کہ اب وہ شہنشاہِ ہندوستان نہیں رہے اور جنگ ہار چکے ہیں۔ پاکستان کی صورتحال بھی کم وبیش ایسی ہی ہے۔ کم از کم تکنیکی طور پر دیوالیہ ملک کے سیاستدانوں اور بیوروکریسی کے فیصلوں اور طرزِ زندگی میں ان مسائل کی جھلک دکھائی دینی چاہیے۔ پھر ہی شایدہم ان مسائل کے حل کی طرف جا سکیں۔ سرکاری بابو اور سیاستدان کام کریں یا چھٹی‘ انہیں عوام کے ٹیکس کے پیسوں سے تنخواہ اور فنڈز مل جاتے ہیں لیکن جو طبقہ روزانہ مزدوری کر کے بیوی‘ بچوں کا پیٹ پالتا ہے اس کے لیے یہ چھٹیاں کتنی بھاری رہی ہوں گی‘ اس کا اندازہ بھی نہیں کیا جا سکتا۔ اس کے علاوہ عید کے حوالے سے سرکاری تقریبات کے انعقاد کے نام پر کروڑوں روپے خرچ کرنا بھی غیر ضروری عمل ہے۔ یہ وقت پیسے بچانے کا ہے نہ کہ لٹانے کا۔ ریاست کو ماں جیسا کردار ادا کرنا چاہیے لیکن یہ احساسِ ذمہ داری کب پیدا گا‘ اس بارے کچھ نہیں کہا جا سکتا۔
محکمہ شماریات کے مطابق ملک میں مہنگائی اپنی بلند ترین شرح یعنی 40 فیصد تک پہنچ چکی ہے۔ اسی صورتحال کے باعث حالیہ دنوں میں جہاں ملک میں فلاحی اداروں سے مدد لینے والوں کی تعداد میں بے تحاشا اضافہ دیکھا گیا ہے وہیں دوسری جانب فلاحی اداروں کے منتظمین کا دعویٰ ہے کہ ان کو ملنے والے عطیات میں نمایاں کمی ہوئی ہے اور یہ ادارے مالی دباؤ کا شکار ہیں۔ پاکستان کے موجودہ معاشی حالات نے بڑے بڑے خیراتی اداروں کو مشکل میں ڈال دیا ہے۔ سیلانی ویلفیئر کے سربراہ مولانابشیر فاروقی حالیہ برسوں کو فلاحی کاموں کے ضمن میں نہایت کڑا وقت قرار دیتے ہیں۔ ان کے مطابق ''ہم نے کبھی ایسا نہیں کہا تھا،لیکن پچھلے دنوں ہم نے یہ کہہ دیا کہ ہمارے پاس اب صرف چند دنوں کے پیسے بچے ہیں۔ ظاہر ہے کہ جب آمدن کم ہو جائے اور اخراجات بڑھ جائیں تو کام پر دباؤ آتا ہے‘‘۔ ان کا کہنا تھا کہ پاکستان سے عطیات میں کمی ہوئی ہے مگر شکر ہے کہ بیرونِ ممالک سے اس سال ہم نے ریکارڈ عطیات حاصل کیے ہیں جس کی وجہ سے کام درمیانے درجے تک آ گیا ہے۔ خوراک حاصل کرنے کے خواہاں مستحقین کی تعدادتیزی سے بڑھ رہی ہے۔چند سال پہلے تک وہ پچاس‘ ساٹھ ہزار لوگوں کو یومیہ خوراک فراہم کرتے تھے لیکن اس سال رمضان میں یہ تعداددو لاکھ سے زائد ہوچکی تھی۔
اس کے علاوہ عوامی سطح پر بھی یہ رائے پائی جاتی ہے۔ خیراتی و فلاحی اداروں کے علاوہ کئی مخیر حضرات بھی مستحق لوگوں کو کھانا فراہم کرتے ہیں لیکن مہنگائی کی وجہ سے وہ بھی دباؤ کا شکار دکھائی دیتے ہیں۔ مڈل کلاس طبقہ توہمیشہ دینے والوں میں تھا‘ مدد کرنے والوں میں تھا، مگر اس ایک‘ ڈیڑھ سال میں جو مہنگائی کا طوفان آیا ہے، اس میں یہ طبقہ بھی پس کر رہ گیا ہے۔ خیراتی اداروں کے دستر خوانوں پر دیہاڑی دار مزدور اور کم آمدن والے لوگ آتے تھے، لیکن اطلاعات ہیں کہ گزشتہ ایک سال سے پوری پوری فیملیز آ رہی ہیں۔ایک جانب پاکستان میں مہنگائی کی وجہ سے لوگوں کی فلاحی اداروں سے توقعات بڑھ رہی ہیں تو وہیں فلاحی اداروں کو درپیش مسائل کے باعث ان کی بقا کا سوال اٹھ رہا ہے۔ ان حالات کے پیش نظر کچھ بڑے اداروں نے اپنی بچت سے ایک ایمرجنسی فنڈ بنایا ہے لیکن ہر فلاحی ادارے کے پاس یہ فنڈنہیں ہوتا۔ چھوٹی سطح پر کام کرنے والے فلاحی ادارے بڑے فلاحی اداروں کے ساتھ رابطے میں ہوتے ہیں جس کے باعث بڑے فلاحی اداروں میں اب اتنی بچت نہیں ہوتی۔ خدشہ ہے کہ چھوٹے ادارے اس صورتحال میں مشکل ہی سے بچ پائیں گے۔پاکستان بھر میں 800 مراکز چلانے والی فلاحی تنظیم کے سربراہ کے مطابق انہوں نے اپنے ریجنل مراکز کو کہہ دیا ہے کہ اب ان کو اپنی سطح پر کام کرنا ہو گا۔ اس سے پہلے کراچی میں موجود ہیڈ کوارٹر دیگر شہروں میں موجود مراکز کو چلا رہا تھا لیکن اب ہیڈکوارٹر کے پاس اتنے وسائل نہیں ہیں۔ اب کراچی سے خیبر تک سب ٹرسٹی بورڈ ممبران کو کہہ دیا گیا ہے کہ آپ کو اپنے مراکز خود چلانے ہوں گے۔ پاکستان فلاحی اداروں کے حوالے سے بین الاقوامی سطح پر اچھی شہرت رکھتا ہے لیکن اگر حالات یونہی چلتے رہے تو شاید یہ ادارے بھی بند ہو جائیں۔
آئیے! اب ایک نظر پاکستان کی قرض لینے کی صلاحیت پر ڈالتے ہیں۔ چین پاکستان کا دیرینہ دوست ہے اور ہر مشکل وقت میں پاکستان کے ساتھ کھڑا ہوتا ہے لیکن موجودہ صورتحال میں چین بھی پاکستان کو بیرونی کمرشل قرض براہِ راست نہیں دے پارہا۔ انڈسٹریل اینڈ کمرشل بینک آف چائنا نے پاکستان کو ایک ارب تیس کروڑ ڈالر قرض براہِ راست نہیں دیا بلکہ بینک کی کراچی برانچ کے ذریعے ادائیگی کی ہے۔ کاغذات میں یہ فارن قرض کے بجائے ڈومیسٹک قرض لکھا گیا ہے کیونکہ آئی ایم ایف نے حکومتِ پاکستان کو بیرونی کمرشل قرض لینے سے منع کر رکھا ہے۔ پاکستان کی کریڈٹ ریٹنگ خطرناک حد تک گر چکی ہے۔ڈیفالٹ کا خطرہ بہت زیادہ بڑھ چکا ہے۔ آئی ایم ایف کی پابندی نہ ہو تو بھی ان حالات میں قرض لینا انتہائی مشکل ہے۔ موجودہ مالی سال میں اب تک صرف سات ارب ساٹھ کروڑ ڈالرز کا قرض حاصل کیا جا سکا ہے جبکہ سالانہ ہدف بائیس ارب اسی کروڑ ڈالرز تھا۔ بانڈز کے اجرا سے تقریباً دو ارب ڈالرز حاصل کرنے کا پلان تھا لیکن تین بڑے اداروں کی جانب سے کریڈٹ ریٹنگ منفی آنے کے بعد یہ بھی ممکن نہیں رہا۔ آئی ایم ایف سے تقریباً تین ارب ڈالرز موصول ہونا تھے جبکہ صرف ایک ارب دس کروڑ ڈالرز ہی مل سکے ہیں۔ نیا پاکستان سرٹیفکیٹس کے ذریعے ایک ارب ساٹھ کروڑ ڈالرز حاصل کرنے کامنصوبہ تھا جبکہ صرف 54 کروڑ ڈالرز ہی وصول ہو سکے۔ قرض نہ ملنے کی وجہ آئی ایم ایف کا نواں جائزہ وقت پر مکمل نہ ہوناہے۔ اس وقت ملین ڈالر سوال یہ ہے کہ آئی ایم ایف کے ساتھ سٹاف لیول معاہدہ کب تک ہو گا۔سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات سے تین ارب ڈالرز کی یقین دہانی کے بعد اب مزید تین ارب ڈالرز حاصل کرنے کیلئے کہا گیا ہے جو بظاہر بہت مشکل دکھائی دے رہا ہے۔ اگر کوئی خصوصی وعدے اور معاہدے ہو گئے تو پھر ممکن ہے کہ اگلے ایک ماہ سے قبل کوئی مثبت صورتحال پیداہو جائے۔
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved