تمام معاملات میں یکساں طرزِ فکر و عمل کیسی رہتی ہے؟ سراسر نقصان دہ۔ یہ تاسّف کا مقام تو یقینا ہوسکتا ہے، حیرت کا ہرگز نہیں۔ ہر معاملہ ہم سے الگ نوعیت کی توجہ چاہتا ہے۔ ہم ڈھنگ سے متوجہ ہوں تو بات بنتی ہے۔ کوئی بھی کام ادھورے من سے نہیں کیا جاسکتا۔ جس معاملے کو جتنی دلچسپی درکار ہو اُتنی دلچسپی کا مظاہرہ تو کرنا ہی پڑتا ہے۔ اگر زیادہ توجہ دیجیے تو کیا کہنے۔ کیا ہم زندگی بھر تمام معاملات کو ایک لاٹھی سے ہانک سکتے ہیں؟ ایسا کرنا کسی بھی اعتبار سے منطقی نہیں‘ معقول نہیں۔ اگر کوئی ایسا کرنے پر بضد ہو تو پھر اُسے ناموافق نتائج بھگتنے کے لیے بھی تیار رہنا چاہیے۔ اور ایسا ہوتا ہی ہے۔ ہم زندگی بھر ایسے لوگوں کو دیکھتے ہیں جو تمام معاملات کو ایک لاٹھی سے ہانکتے ہیں اور پھر زندگی اُنہیں ہانک دیتی ہے ع
اِس طرح تو ہوتا ہے اِس طرح کے کاموں میں
عمومی ذہنیت یہ ہے کہ تمام چیزوں کو ایک ترازو میں تولیے۔ ایک ترازو؟ کون سا ترازو؟ دولت کا، اور کاہے کا! عمومی سطح پر لوگ ہر معاملے کو دولت کے ترازو میں تول رہے ہوتے ہیں اور خالص کاروباری انداز کے نفع و ضرر کے آئینے میں دیکھ اور پرکھ رہے ہوتے ہیں۔ کیوں؟ ماحول کا مجموعی مزاج ہی کچھ ایسا ہے کہ انسان ہر چیز، ہر معاملے کو صرف اور صرف مالی منفعت و ضرر کے آئینے میں دیکھ رہا ہوتا ہے، ''کیا ملے گا، کیا نہیں ملے گا‘‘ کی کسوٹی پر پرکھ رہا ہوتا ہے۔ عام آدمی زندگی بھر اِس مایا جال سے نکل نہیں پاتا۔ سبب اس کا یہ ہے کہ وہ اس حوالے سے سوچتا ہی نہیں اور تربیت کے ذریعے نفسی ساخت کی خامیوں اور کمزوریوں کو دور کرنے کا خواہش مند بھی نہیں ہوتا۔ کیا زندگی جیسی نعمت صرف اس لیے ہے کہ اِس کے ہر معاملے کو مال و زر کی کسوٹی پر پرکھا جائے؟ کیا ہمارا پورا وجود محض مال و زر کے پیمانے پر پرکھے جانے کے لیے ہے؟ کیا لازم ہے کہ جب بھی ہم کسی سے ملیں تو یہ دیکھیں کہ اُس کے پاس کیا ہے، کیسی زندگی بسر کر رہا ہے؟ کیا لازم ہے کہ صرف اُسی کی توقیر کی جائے جو غیر معمولی مالی حیثیت کا حامل ہو؟ یہ پیمانہ ہم نے کیوں اپنالیا ہے کہ جس کی جیب بھری ہوئی ہو صرف اُسی کو احترام کی نظر سے دیکھا جائے؟ معاشرے کا عمومی چلن یہ ہے کہ ہر مالدار کو رشک کی نظر سے دیکھا جائے جبکہ اُس سے کسی بھی طرح کی منفعت نہیں پہنچ رہی ہوتی! کبھی آپ نے غور کیا ہے کہ کسی بھی محفل میں ہر اُس شخص کو خصوصی توجہ ملتی ہے جو اپنے شعبے میں کامیاب ہو؟ آپ سوچیں گے یہ فطری بات ہے۔ بے شک، آپ کی سوچ درست ہے۔ کسی کی کامیابی سے خوش ہونا چاہیے، اُسے سراہنا چاہیے۔ ہر کامیابی انسان کو نچوڑ لیتی ہے۔ ایسے میں اُس کے لیے تھوڑی بہت داد تو بنتی ہی ہے۔ اور اگر داد تھوڑی سی زیادہ بھی دے دی جائے تو کیا ہے۔ خرابی اِس بات میں ہے کہ ہم کسی کی کامیابی اور بلند مالی حیثیت کو سراہنے کے معاملے میں جذباتی ہوکر اُنہیں بھول جاتے ہیں جو زندگی بھر محنت کرتے ہیں، دیانت کا دامن بھی چھوڑتے، کسی کے حق پر ڈاکا بھی نہیں ڈالتے۔ ہر اُس انسان کو احترام کی نظر سے دیکھا جانا چاہیے جو بلند کردار کے ساتھ زندگی بسر کر رہا ہو، کسی کے لیے تکلیف کا باعث بننے والی کوئی حرکت نہ کر رہا ہو۔
کسی کو معاشی اور معاشرتی حیثیت کی بنیاد پر اہمیت دینے کی ذہنیت انسان کو تنگ نظر بنادیتی ہے۔ پاکستانی معاشرے کا عمومی چلن یہ ہے کہ ہر کامیاب انسان کو رشک و حسد کی نظر سے دیکھا جائے اور ہر اُس انسان کو یکسر نظر انداز کیا جائے جو محض دیانت اور جاں فِشانی کے بل پر جی رہا ہو؛ تاہم غیر معمولی معاشی و معاشرتی حیثیت کا حامل نہ ہو۔ عمومی ذہنیت کے ہاتھوں مجبور ہوکر لوگ اپنے مالدار رشتہ داروں کو زیادہ اہمیت دیتے ہیں جبکہ اُن سے کچھ مل نہیں رہا ہوتا۔ دوسری طرف کمزور مالی حیثیت کے حامل رشتہ داروں کو منہ لگانا پسند نہیں کیا جاتا۔ یہ خوف اپنی جگہ کہ وہ کہیں کچھ مانگ نہ بیٹھیں تاہم حقیقت یہ ہے کہ جو غریب رشتہ دار خود دار ہوں اور ہاتھ پھیلانے کے قائل نہ ہوں اُن سے بھی دور رہنے کی کوشش کی جاتی ہے! ہم کس بند گلی میں پھنسے ہوئے ہیں؟ اِس بند گلی میں ہمیں کسی نے نہیں دھکیلا، ہم خود برضا و رغبت یہاں تک پہنچے ہیں۔ فکری ساخت کی یہ کجی ہمیں کہاں لے جارہی ہے؟ تمام معاملات کو صرف نفع و ضرر کی عینک لگاکر دیکھنا کہاں کی دانش مندی ہے؟ یہ کس دنیا کا چلن ہے؟ ہم سوچتے کیوں نہیں کہ مال و زر کو زندگی کے محض ایک پہلو کی حیثیت حاصل ہے؟ یہ زندگی کے تمام معاملات پر محیط پہلو نہیں؟
نفع و ضرر سے ہٹ کر بھی بہت کچھ ہے جو زندگی کے لیے بہت اہم ہے اور جس سے زندگی کا چہرہ نکھرتا ہے۔ زندگی بہت بڑا معاملہ ہے۔ اِس کے بیسیوں پہلو ہیں۔ ہر پہلو ہم سے ایک الگ زاویۂ نگاہ کا طالب رہتا ہے۔ مال و زر کو زندگی کے ایک اہم پہلو کا درجہ حاصل ہے مگر ہم یہ بنیادی حقیقت بھول کر اِسے زندگی کے ہر معاملے پر ترجیح دیتے رہتے ہیں۔ ہر معاملے کو خالص کاروباری لین دین کے نقطۂ نظر سے دیکھنا کسی بھی اعتبار سے دانش کی علامت نہیں۔ بہت کچھ ایسا ہے جو نفع و ضرر کے عمومی اور مروّج پیمانے سے بہت بلند ہے۔ اس حوالے سے سوچنے کی ضرورت ہے۔ ہر معاملہ خالص کاروباری انداز کا لین دین نہیں ہوتا۔ ہم جو زندگی بسر کر رہے ہیں اُس میں اخلاص، سادگی اور دیانت کے لیے بھی جگہ ہونی چاہیے۔ یہ جگہ ہمیں خود پیدا کرنی ہے۔ رشتوں اور تعلقات کے معاملے میں نفع و ضرر والی سوچ کارفرما نہیں رہنی چاہیے۔ ہر رشتے اور تعلق کو منفعت یا خسارے کے نقطۂ نظر سے دیکھا اور پرکھا نہیں جاسکتا۔ کسی کی مدد اِس خیال سے نہیں کی جانی چاہیے کہ اُس کے بدلے میں وہ ہمیں کچھ دے گا۔ ہماری طرف سے کی جانے والی مدد اگر کسی کی زندگی میں کچھ آسانی پیدا کردے تو دل کو عجیب سے خوشی ملتی ہے۔ یہ خوشی ہی خلوص کا انعام ہے۔ اِس سے آگے نہیں سوچنا چاہیے۔
ہمارا معاشرہ چونکہ اپنی اصل میں پس ماندہ ہے اس لیے فکر و نظر کی خامیاں زیادہ ہیں۔ فکری ساخت کی کجی بھی عام ہے۔ لوگ حقیقت پسندی جیسے انتہائی بنیادی وصف سے بہت دور ہیں۔ معاملات کو اُن کی اصلیت کے آئینے میں دیکھنے اور پرکھنے والے خال خال ہیں اور ایسے لوگوں کو پسند بھی نہیں کیا جاتا۔ غیر معمولی کامیابی سے ہم کنار ہونے والوں کو رشک کی نظر سے دیکھا جاتا ہے، احترام بھی کیا جاتا ہے مگر اُن کی طرزِ فکر و عمل سے کچھ سیکھنے کی کوشش نہیں کی جاتی۔ ناکام انسانوں سے دامن کش رہنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ ناکام انسانوں سے بھی بہت کچھ سیکھا جاسکتا ہے۔ اُن کی غلطیاں ہمیں سبق سکھا سکتی ہیں۔ المیہ یہ ہے کہ جس کی مالی حیثیت کمزور ہو اُسے ہر معاملے میں کمزور قرار دے کر مسترد کردیا جاتا ہے۔ یہ طرزِ فکر و عمل کسی بھی اعتبار سے درست نہیں۔ اگر کوئی اخلاقی عیوب سے بچتے ہوئے، بھرپور جاں فِشانی اور دیانت کے ساتھ کام کرتا ہے اور اپنے گھر کا چولہا جلتا رکھنے کے لیے کسی کے آگے ہاتھ نہیں پھیلاتا تو وہ معاشرے کا ایک اہم حصہ ہے۔ ایسا ہر انسان کم از کم اپنی حد تک تو ایک خراب یا ناکارہ انسان سے معاشرے کی جان چھڑا رہا ہوتا ہے۔ انسانوں کو پرکھنے سے متعلق طرزِ فکر و عمل کے بدلنے کی ضرورت ہے۔ تمام معاملات کو ایک لاٹھی سے ہانکنے کی روش ترک کرنے ہی میں دانش مندی ہے۔ مال و زر کو ہماری زندگی میں خاصی اہمیت حاصل ہے اور ہونی ہی چاہیے تاہم ہر معاملے کو مال و زر کی چوکھٹ پر سجدہ ریز نہیں ہونا چاہیے۔
زندگی کو وسیع تر تناظر میں سمجھنے کے لیے بلند فکر لازم ہے اور بلند فکر مطالعے و مشاہدے سے پیدا ہوتی ہے۔ اپنے ماحول کا پوری دیانت سے تجزیہ کرنے کی صورت ہی میں ہم ہر معاملے کو اُس سے مطابقت رکھنے والے ترازو میں تولنے کے قابل ہو پاتے ہیں۔
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved