خمارِ گندم کے کیا مطلب شاعروں‘ ادیبوں نے نکالے۔ روز مرہ کی زبان بھی اس کے اپنے معنی رکھتی ہے۔ چلو اس کا مطلب نشہ ہی سمجھ لیجیے۔ جنہوں نے گندم کاشت کی تھی‘ اب ان کی بات سنتے ہیں۔ ہمارے آبائی علاقوں میں گندم کی کٹائی ہو چکی۔ فصل بوریوں میں بھر کر فروخت کی جارہی ہے۔ اس موسم میں بڑے بڑے ٹرک نہ جانے کہاں سے نمودار ہونا شروع ہو جاتے ہیں۔ مجھے تو اسلام آباد میں بیٹھے خبریں ملتی رہتی ہیں مگر ہماری انتظامیہ کو ان کی بھنک نہیں پڑتی۔ لاکھوں من گندم لاد کر کھلی سڑکوں پر شمال مغرب کی جانب‘ بلوچستان کے راستے روانہ ہو جاتے ہیں۔ سینکڑوں میل مسافت کے دوران شاید ان میں سے ایک دو نمونے کے طور پر دھر لیے جاتے ہوں۔ بے شک ہمارے ملک میں زراعت نے ترقی کی ہے مگر اسے جدید خطوط پر استوار کرنے کی ضرورت ہے۔ ہمارے علاقوں میں موجودہ آبادی کے چوتھے یا شاید پانچویں حصے کی تعداد نصف صدی قبل گندم کی پیدوار میں خود کفیل نہیں تھی۔ آج لاکھوں ٹن غلہ یہاں سے ملک کے دیگر حصوں اور کچھ ہمسایہ ممالک کو روانہ کیا جاتا ہے۔ اس وقت میرے پاس وہ اعداد و شمار نہیں جو حکومتِ پنجاب کا محکمہ زراعت یا وفاقی ادارۂ شماریات چند ماہ میں جاری کرے گا۔ دوستوں سے جنوبی اضلاع میں رابطہ رہتا ہے۔ آج کل پہلا سوال یہ ہوتا ہے کہ گندم کی فصل کیسی رہی؟ گزشتہ سال سے موازنہ کرتا ہوں تو اندازہ ہوتا ہے کہ تقریباً سات سے دس فیصد بلکہ کہیں کہیں اس سے بھی زیادہ فی ایکڑ پیداوار رہی۔ معاوضہ بھی مناسب مل رہا ہے۔ اگر سرکاری قیمتِ خرید کا تعین بوائی سے پہلے کر لیا ہوتا تو مزید رقبہ زیر کاشت ہوتا اور کسانوں کی کاوشوں میں بھی ہم زیادہ گرم جوشی دیکھتے۔ مجموعی طور پر کاشت کار خوش ہیں۔
ایک بڑی شکایت مجھے ہے‘ سب چھوٹے کاشت کاروں کو بھی کہ وہ گندم کھیتوں میں تو نہیں رکھ سکتے۔ نہ ان کے پاس بار دانہ ہوتا ہے‘ نہ وہ اجرت پر کسی محفوظ جگہ منتقل کرنے کے اخراجات برداشت کر سکتے ہیں۔ سرکارکے گندم خریدنے کے مراکز کئی ہفتے بعد کھلتے ہیں۔ اب اس کا مطلب ہم کیا نکالیں کہ یہ تاخیر کیوں کی جاتی ہے؟ قرضوں کے بوجھ تلے دبے کاشت کار فصل فوراً بیچنا چاہتے ہیں۔ ذخیرہ کرنے کے لیے نہ جگہ ہے نہ سرمایہ اور قرض خواہ بھی وہی ہیں جو گندم کے مقامی بیوپاری ہیں۔ انہیں سرکار کی طرف سے متبادل اتنا تاخیر سے میسر آتا ہے کہ وہ ان کے ہاں نسبتاً سستے داموں فروخت کر ڈالتے ہیں۔ یہی بیوپاری خریدی ہوئی گندم کاشت کار بن کر سرکار کو فروخت کرتے ہیں اور بظاہر پردوں کے پیچھے سمگلروں کے ٹرک بھی بھرتے ہیں لیکن جانتے سب ہیں۔ ظاہر ہے کہ کچھ لیے دیے بغیر ایسے دھندے نہیں چلتے۔ آج تک ہم نے ایسی نگران‘ سیاسی یا غیر سیاسی حکومت نہیں دیکھی جس نے فصل تیار ہونے سے چند ہفتے پہلے گندم کی خرید کے مراکز قائم کیے ہوں۔ بے کار بیٹھے سرکاری اہلکاروں کو اگر ان مراکز پر بروقت تعینات کر دیا جائے تو کون سا سرکاری کام رک جائے گا؟ مگر کیا کریں‘ معاملہ کچھ گڑبڑ ہے۔ جب کاشت کار کی محنت کی کمائی میں قرض خواہ اور محکمہ خوراک کے کارندے شامل ہو جاتے ہیں تو ہماراخون کھول اٹھتا ہے۔ اب ملکی معاملات جس طرح ہیں‘ ہمارا خون کھول بھی اٹھے تو اس سے کیا ہوگا؟ ہم خود ہی اس کی تپش سہتے رہیں گے۔
حکمران طبقات تو عیاش ہیں ہی‘ ہمارے عوام بھی ان سے کم نہیں۔ غربت اور پسماندگی میں بھی سادگی اختیار کرنے کو تیار نہیں۔ پس انداز کرنا‘ بچت کرنا اور آمدنی سے کم خرچ کرنا کبھی بھی عام لوگوں کا طرزِ زندگی نہیں رہا۔ کاشت کار بھی ایک قرض ادا کرنے کے بعد دوسرے قرض میں خود کو جکڑ لیتے ہیں۔ خوراک کا جو بے دریغ ضیاع اس ملک میں ہے‘ کہیں نہیں دیکھا۔ شہروں میں کسی ریستوران یا ہوٹل کے دستر خوان کو دیکھ لیں۔ کھانے کے بعد کا منظر ایسا معلوم ہوتا ہے گویا کوئی حملہ آور فوج یہاں سے گزر کر سب کچھ تباہ و برباد کر گئی ہو۔ روٹیوں کے ٹکڑوں کے انبار دیکھ کر دل بہت دکھتا ہے۔ دیہات میں بھی عام گھروں میں تازہ روٹی کھانے کی عادت ہے۔ شام کو جو بچ جائے‘ صبح کوئی نہیں کھاتا۔ ہرگھر میں سوکھی روٹیوں کے ڈھیر ہوتے ہیں جو وہ اپنے جانوروں کو اگلے روز کھلاتے ہیں یا اونے پونے بیچ دیتے ہیں۔ ہم ضرورت سے زیادہ گندم پیدا کرتے ہیں مگر اپنی سستی گندم سمگلروں کے حوالے کرکے باہر سے مہنگی گندم درآمد کرتے ہیں۔ گزشتہ برس ایک ارب تیس کروڑ ڈالر کی گندم درآمد کی گئی۔ کسی کو کوئی احساس ہے کہ ہم اپنی دولت کے ساتھ کیا کررہے ہیں۔ روٹی بچ جائے یا ضرورت سے زیادہ پکے تو فریج کے اوپر کے خانے میں رکھ دیتا ہوں اور کئی ہفتے بعد بھی اسے گرم کرکے کھائیں تو ذائقے میں کوئی فرق نہیں آتا۔ بچپن میں ہمارے گھروں میں ایسی روٹیاں سکھائی جاتیں اور پھر ان سے ہم گڑ کا حلوہ بناتے۔ کبھی کبھار یہ ترکیب آج بھی آزما لیتا ہوں۔
اگر آپ خود کاشت کار نہیں ہیں‘ آپ نے کاشت کاروں کو تپتی دھوپ اور خون جمانے میں والی سردی میں کھیتوں میں پانی لگاتے نہیں دیکھا تو شاید آپ کو یہ بات سمجھانا مشکل ہو کہ اناج‘ پھلوں اور سبزیوں کا ضیاع کتنا غیر مہذب ہے۔ مغرب میں لوگ کاشت کاروں کے کام کا ہماری طرح مشاہدہ تو نہیں کرتے مگر ان کی تربیت ایسی کی جاتی ہے کہ وہ خوراک ضائع نہیں کرتے۔ اگر ہم شادی ہالوں میں خوراک کے ساتھ ہونے والے سلوک کے قصے مغرب میں سنانا شروع کریں تو ڈر ہے کہ یہ سب ممالک ہمارا سوشل بائیکاٹ نہ کردیں۔ اگر ایسا نہ بھی کریں تو بھی کم از کم آئی ایم ایف کو ضرور تاکید کردیں گے کہ اپنی قرض والی شرط میں ''روٹی ہالوں‘‘ پر پابندی بھی شامل کردیں۔ وہ کریں نہ کریں‘ اگر مجھے کسی ایسے افسر سے بات کرنے کا موقع ملا تو میں ضرور اصرار کروں گا‘ چاہے مجھ پر غداری کی تہمت لگ جائے۔
کھانا کھانے کا سلیقہ ہر تہذیب میں رہا ہے۔ ضروری نہیں کہ ہر نوع کے کھانوں کی فراوانی ہو مگر ایک طریقہ کھانا میز پر یا دستر خوان پر لگانے کا بھی ہے۔ دال‘ گھر کی اُگائی سبزی کا سلاد‘ پوٹھوہار میں ہیں اور آپ کے پاس زیتون کا درخت نہیں تو آپ خوش قسمت نہیں ہو سکتے۔ میرے اپنے تو ابھی پھل نہیں دے رہے مگر میرا ہمسایہ اور دوست‘ ظفر گوندل سال بھر کا زیتون کا اچار دے دیتا ہے اور سال بھر کے لیے میرے آوا کارڈو ذخیرہ کرکے ناشتے میں کھاتا رہتا ہے۔ میں اگر سیاسی قسم کا آدمی ہوتا تو میرا نعرہ ''روٹی کو عزت دو‘‘ ہوتا اور اگر مجھے وزیراعظم بننے کی پیشکش کی جاتی کہ اس بدلے میں اس نعرے سے دست بردار ہو جائوں تو میں ایسی وزارتِ عظمیٰ پر لات مار کر اپنے نعرے پر ڈٹا رہتا۔ میں نے ایسے بزرگوں کو بھی دیکھا ہے کہ روٹی کھانے سے پہلے آنکھوں سے لگاتے‘ دعائیں پڑھتے اور اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرتے اور بہت ہی دھیمے انداز میں‘ ادب کے ساتھ کھانا شروع کرتے۔ ترکوں کے ہاں یہ روایت ابھی تک قائم ہے کہ وہ کھانا لگانے کے بعد دعا کرتے ہیں۔ مغرب میں بھی یہی رواج آج تک قائم ہے۔ ہم نہ جانے کن تاریک راہوں میں کھو گئے؟ اچھی روایات رواداری کی طرح دم توڑ چکی ہیں۔ ہم اپنے طور پر ''روٹی کو عزت دو‘‘ کی جنگ لڑتے رہیں گے کہ اگر ہم اپنے وسائل پر اعتبار‘ سادگی‘ کفایت شعاری‘ بچت‘ محنت اور حلال کی کمائی کی عزت کریں گے تو دنیا کے سامنے کاسۂ گدائی لے کر اس طرح خوار نہیں ہونا پڑے گا۔
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved