تحریر : اسد طاہر جپہ تاریخ اشاعت     28-04-2023

گوروں کے دیس میں پھیکی عید

ہمیشہ کی طرح رمضان المبارک کے آخری عشرے میں عید الفطر سے متعلق مختلف قیاس آرائیاں زور پکڑنے لگیں اور وہی پرانا مسئلہ ایک بار پھر پوری شد و مد کے ساتھ اٹھایا گیا کہ عید 29 روزوں کے بعد ہو گی یا تیس روزے مکمل کیے جائیں گے۔ گزشتہ کئی سالوں کے برعکس پاکستان کی رویتِ ہلال کمیٹی نے انتیس رمضان کو جلد ہی اعلان کر دیا کہ چاند نظر آنے کی کوئی مصدقہ شہادت موصول نہ ہونے کے باعث رمضان المبارک کے تیس روزے مکمل کیے جائیں گے اور عید سعید بروز ہفتہ 22 اپریل کو منائی جائے گی۔ اس واضح اور بروقت فیصلے سے پاکستان بھر میں پھیلائی گئی مختلف قیاس آرائیاں خود بخود دم توڑ گئیں اور لوگوں نے سکھ کا سانس لیا۔ یہاں تک کہ حیرت انگیز طور پر مسجد قاسم‘ پشاور کے مفتی پوپلزئی نے بھی رویتِ ہلال کمیٹی کے فیصلے کی تائید کرتے ہوئے تیس روزے مکمل کرنے کے بعد عید کے انعقاد کا اعلان کیا تو ان کے چاہنے والوں کو یقینا ''صدمے‘‘ سے دوچار ہونا پڑا۔ مگر یہاں برطانیہ میں میری توقعات کے برعکس بہت زیادہ غیر یقینی کی صورتِ حال پیدا ہو گئی اور رمضان کریم کے آخری چند دنوں میں عید سے متعلق متضاد بیانات سامنے آنا شروع ہو گئے۔ سرکاری سطح پر سائنسی معلومات پر مبنی ایک بیان جاری کیا گیا جس میں 29 رمضان المبارک کو شوال کا چاند نظر آنے کے امکانات کو کلی طور پر خارج از امکان قرار دیا گیا۔ پھر 29 رمضان کی شام‘ جب پاکستان میں کوئی ٹھوس شہادت موصول نہ ہوئی‘ تو سعودی عرب میں چاند نظر آنے کا اعلان ہوا۔ سعودی عرب نے جمعۃ المبارک والے دن عید منانے کا اعلان کیا جبکہ پاکستان میں عید ہفتہ کے روزکرنے کا فیصلہ ہوا تو یہاں برطانیہ میں جمعرات کی شام عید سے متعلق تین قسم کے واضح طبقات نظر آئے۔
ایک طبقے نے سعودی عرب کے اعلان کی تائید میں جمعہ کو عید منانے کا فیصلہ کیا تو دوسرے نے مراکش اور پاکستان کی طرح بروز ہفتہ عید کا پروگرام بنا لیا۔ تیسرا طبقہ ٹھوس سائنسی بنیاد پر چاند نظر نہ آنے کی بنیاد پر تیس روزے مکمل کرنے کے حق میں ڈٹ گیا اور ان کے خیال میں عید کا انعقاد 22 اپریل بروز ہفتہ ہی ممکن تھا۔ لہٰذا میرے لیے فیصلہ کرنا انتہائی دشوار ہو گیا کہ میں عید کی نماز کس دن پڑھوں۔ میرے لیے اس پریشانی اور غیر یقینی صورتِ حال سے نمٹنے کا واحد راستہ یہ تھا کہ میں برطانیہ میں موجود اپنے پرانے اور قابلِ اعتماد دوستوں کو فون کر کے اس سلسلہ میں رہنمائی حاصل کروں۔ مانچسٹر، لندن اور برمنگھم میں عرصۂ دراز سے مقیم احباب سے رابطہ کیا تو وہ سب بھی میری طرح پریشان نظر آئے اور کسی کے پاس بھی ٹھوس معلومات نہ تھیں۔ کوئی جمعہ کے روز عید کے حق میں تھا تو کوئی ہفتے والے دن عید منانے کو تیار نظر آیا۔ بالآخر میں نے اپنی مقامی مسجد کی ویب سائٹ پر موجود رابطہ نمبر پر فون کیا اور انتظامیہ سے اپنی پریشانی کا اظہار کیا تو انہوں نے ہفتہ کے روز عید منانے کے فیصلے سے آگاہ کیا۔ مجھے اطمینان ہو گیا کہ ایک تو نمازِ عید مجھے جس مسجد میں ادا کرنا تھی‘ وہاں ہفتہ کے روز عید منانے کا اہتمام ہو چکا تھا، دوسرا رمضان کریم کے تیس روزے مکمل ہو رہے تھے، جو سائنسی لحاظ سے بھی درست تھا، لہٰذا کسی بھی قسم کے ابہام کی گنجائش ختم ہو چکی تھی۔
خیر‘ اگلے روز جمعۃ الوداع کی ادائیگی کے لیے مسجد میں پہنچا تو امام صاحب نے اپنے خطبے سے قبل عید کی نماز کے اوقات کا اعلان فرماتے ہوئے اگلی صبح ساڑھے سات اور ساڑھے نو بجے دو اوقات طے کرنے کے معاملے پر روشنی ڈالی۔ نمازیوں کی ممکنہ زیادہ تعداد اور مسجد کی محدود گنجائش کے سبب دو مختلف اوقات میں نمازِ عید کی ادائیگی کا فیصلہ کیا گیا تھا۔ یہ محض حسنِ اتفاق تھا کہ عید ویک اینڈ پر آئی‘ ورنہ برطانیہ جیسے ملک میں کسی ورکنگ ڈے پر آنے والی عید کی نماز کی ادائیگی زیادہ دشوار بن گئی ہوتی۔ جمعہ کے روز برمنگھم میں زیرِ تعلیم برادرِ خورد اپنے بچوں کے ہمراہ ہمارے پاس لیئسٹر عید منانے پہنچ گئے۔ میں نے انہیں اگلے روز عید کی نماز کی ادائیگی کے لئے دو اوقات سے آگاہ کیا تو وہ مسکراتے ہوئے بتانے لگے کہ وہ نمازِ عید برمنگھم میں ہی ادا کر آئے ہیں کیونکہ اُن کے مقامی امام مسجد اور انتظامیہ نے سعودی عرب کی تائید میں جمعہ کے روز عید منانے کا فیصلہ کیا تھا، لہٰذا اس دلچسپ صورتِ حال میں مہمانوں کے لیے عید کے کھانے کا اہتمام کرنا پڑا جبکہ میں اور میری فیملی آخری افطاری کے انتظام میں مصروف ہو گئے۔ اگلی صبح میں اکیلا ہی مسجد کے لیے روانہ ہوا اور پارکنگ کی قلت اور زیادہ نمازیوں کی موجودگی کو دیکھتے ہوئے نمازِ عید سے آدھ گھنٹہ قبل ہی پہنچ گیا۔ لوگ جوق در جوق نمازِ عید کی ادائیگی کی لیے مسجد کی طرف رواں دواں نظر آئے۔ پارکنگ ٹکٹ کی ادائیگی کے بعد مسجد کے مرکزی دروازے پر ایک لمبی قطار موجود تھی۔ اگلے پانچ منٹ میں دیگر نمازیوں کے ساتھ میں بھی امام صاحب کے سامنے بیٹھا تھا۔ امام صاحب نے اپنی تقریر میں فضائلِ رمضان پر روشنی ڈالی، فطرانہ کی ادائیگی سے متعلق ضروری معلومات اور مسائل پر جامع گفتگو کی۔ مسجد کی توسیع کے لیے ایک بڑے منصوبے کی تفصیلات بیان کیں اور رمضان کے ماہِ مقدس میں جمع کی جانے والی رقم کے بارے میں اپنے اطمینان کا اظہار فرمایا۔
نمازِ عید ادا ہو گئی تو تمام نمازی فوراً مسجد کے تینوں دروازوں کی طرف تیزی سے لپکے اور اپنے اپنے جوتے تلاش کرنے میں مصروف ہو گئے۔ ہر کوئی اپنے جوتے اٹھائے دروازے سے نکل کر پارکنگ کی طرف دوڑ رہا تھا کہ کہیں رش کی وجہ سے گاڑیوں کی قطاریں لمبی ہو گئیں تو ٹریفک میں پھنس جانے سے واپسی میں تاخیر ہو جائے گی۔ لہٰذا چند بزرگ باریش نمازیوں کے علاوہ‘ جو مسجد انتظامیہ پر مشتمل درجن بھر افراد سے گلے مل کر عید مبارک کہہ رہے تھے‘ باقی سب اپنی گاڑیوں میں بیٹھ کر گھروں کو روانہ ہو گئے۔ وہاں پر مجھے عید مبارک کہنے اور گلے لگانے والا کوئی نہیں تھا اور نہ ہی پوری مسجد میں میری کسی سے ذاتی شناسائی تھی۔ یہ بھی محض ایک حسین اتفاق ہے کہ ہماری کائونٹی میں مئی کے پہلے ہفتے میں لوکل باڈیز کے انتخابات ہیں۔ لہٰذا مسجد کے مرکزی دروازے کے باہر دو ہینڈ سم نوجوان اپنے انتخابی منشور تقسیم کرتے ہوئے پائے گئے جو ہر نمازی کو مسکرا کر مخاطب کر رہے تھے اور اپنا تعارف کراتے ہوئے عید مبارک کے رسمی جملے ادا کر رہے تھے۔
یہاں کے قانون کے مطابق ہر شخص پر اپنا ووٹ کاسٹ کرنا لازم ہے بصورتِ دیگر 80 پائونڈ جرمانہ ادا کرنا پڑ سکتا ہے۔ میرا ووٹ بھی رجسٹرڈ ہو چکا ہے اور کونسل کی طرف سے بذریعہ ڈاک بیلٹ پیپر بھی موصول ہو چکا ہے لہٰذا میں نے فوراً یہ فیصلہ کیا کہ ان دو سیاسی شخصیات کو گلے لگا کر عید ملنے کا اس سے بہتر موقع نہیں ہو سکتا تھا۔ میں ان دونوں امیدواروں کی طرف گرم جوشی سے آگے بڑھا اور انہوں نے یہی سمجھا کہ میں ان کا پکا ووٹر ہوں۔ جواب میں انہوں نے بھی بڑی گرمجوشی دکھائی، تپاک سے مجھے گلے لگا کر عید مبارک کے الفاظ ادا کیے۔ انہیں کیا معلوم کہ گوروں کے دیس میں مجھ ایسے پردیسی کے اندر اپنے آبائی گائوں کے پیارے لوگوں میں منائی جانے والی گزشتہ کئی برسوں کی عیدوں اور ان سے جڑی خوبصورت یادوں نے ایک ہنگامہ برپا کر رکھا تھا۔ میں نے ان دونوں سیاسی شخصیات سے ان کے تعارفی بروشر وصول کیے اور گاڑی میں بیٹھ کر گھر کی راہ لی۔
واپسی پر میں سوچ رہا تھا کہ محض سویّاں یا کھیر کھانے سے عید میٹھی نہیں ہو جاتی بلکہ جب تک اس میں اپنے دیس، اپنی مٹی اور اپنے پیاروں کی بے لوث محبت کی مٹھاس شامل نہ ہو‘ تب تک یہ پھیکی ہی رہتی ہے۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved