مفاد پرستی کا دریا پوری قوت سے بہہ رہا ہے۔ طغیانی ایسی ہے کہ بندہ دیکھے تو دیکھتا رہ جائے۔ قومی سیاست ہو یا قومی معیشت، تمام معاملات ذاتی یا گروہی مفاد سے شروع ہوکر وہیں ختم ہو رہے ہیں۔ قوم فیصلہ نہیں کر پارہی کہ زیادہ حیران ہونا چاہیے یا پریشان! قوم کا نظم و نسق اور انتظام و انصرام اُن کے ہاتھوں میں ہے جنہیں اِس بات کی بظاہر کَکھ بھی پروا نہیں کہ اُن کے کسی اقدام سے قوم کا کیا ہوگا۔ بڑے بڑے فیصلے بظاہر سوچے سمجھے بغیر کیے جارہے ہیں۔ ریاست کی بنیادوں کے لیے خطرناک سمجھے جانے والے معاملات اِس قدر ہیں کہ دیکھ کر دل دہل اٹھتا ہے۔ جنہیں سوچنے کی توفیق عطا ہوئی ہے وہ معاملات پر غور کرکے صرف پریشانی سے دوچار ہوتے ہیں۔ ایک سال سے بھی زائد مدت سے قوم عجیب خلجان میں مبتلا ہے۔ طبیعت کسی صورت قرار نہیں پاتی۔ ملک کا ملک گزارے کی سطح پر آیا چاہتا ہے۔ خوشحالی کا تصور تک ناپید ہوتا جارہا ہے۔ جن کے پاس بہت کچھ ہے وہ بھی الجھنوں کا شکار ہیں اور جن کی جیب خالی ہے وہ اپنے آپ کو زندہ پاکر کبھی کبھی حیران رہ جاتے ہیں! بیانیوں کے نام پر ہذیان بکنے کی جنگ جاری ہے۔ سیاسی رہنما جو اَنٹ شنٹ بولتے ہیں اُسے بیانیے کا درجہ دینے پر بضد ہیں۔ جو منہ میں آئے وہ اگل دینے کو بیانیہ نہیں کہا جاسکتا۔ اس لفظ کی توقیر ملحوظِ خاطر رہنی چاہیے۔ بات بات پر پلٹ جانا بیانیہ نہیں کہلاتا۔ جو کچھ کہا جائے اُس پر قائم بھی رہا جائے۔ اِس نکتے کو محترم ظفرؔ اقبال نے خوب بیان کیا ہے ؎
جھوٹ بولا ہے تو قائم بھی رہو اُس پر ظفرؔ
آدمی کو صاحبِ کردار ہونا چاہیے
یہاں لوگ اب یہ بھی بھول چکے ہیں کہ اپنے کہے ہوئے جھوٹ پر ڈٹے رہنا بھی کردار کی عظمت کی دلیل ہے۔ جھوٹ کے معاملے میں ایک اور بات کا بھی خیال رکھا جانا چاہیے۔ اپنے بولے ہوئے الفاظ پر ڈٹے رہنا اور بیان نہ بدلنا بھی بڑی بات ہے مگر یہ بھی کچھ کم نہیں کہ جھوٹ کو زبان پر لاتے وقت اُسے سچ کا لبادہ نہ پہنایا جائے! خاکسار کا شعر ہے ؎
یہ بھی اِس دور میں کردار کی عظمت ہے خلیلؔ
جھوٹ گر جھوٹ کے پیرائے میں بولا جائے
اب معاملہ یہ ہے کہ لوگ جھوٹ کو سچ بناکر بولتے ہیں اور سچ اِس طور بیان کرتے ہیں گویا صریح جھوٹ بول رہے ہوں! عوام کی سمجھ میں کچھ نہیں آتا کہ کس کی کس بات کو جھوٹ اور کس بات کو سچ سمجھا جائے۔ جھوٹ سمجھ کر جس معاملے کو لتاڑا جاتا ہے اُس کے بطن سے تھوڑا بہت سچ بھی نکل آتا ہے۔ جسے سچ سمجھ کر تھوڑی بہت خوشی اور اچھی خاصی پریشانی لاحق ہوتی ہے وہ جھوٹ نکل آتا ہے اور ساری پریشانی مفت کی مشقّت معلوم ہوتی ہے! جب جھوٹ اور سچ کو بری طرح گڈمڈ کردیا جائے تو انسان کی زبان کا اعتبار جاتا رہتا ہے۔ ہماری سیاست میں یہی ہوا ہے۔ خفیف سا بھی شرمسار ہوئے بغیر اِس تواتر سے جھوٹ بولا جاتا رہا ہے کہ اب لوگ سچ میں بھی جھوٹ کا مزہ پانے لگے ہیں! اب وہ منزل آچکی ہے کہ کوئی قسم کھاکر بھی کہے کہ اُس نے جھوٹ بولا تھا تو لوگ یقین نہیں کرتے! سیاست اب جھوٹ کا بازار ہے۔ اِس بازار کا سکہ رائج الوقت جھوٹ، مکر، فریب، بے حسی اور بے دِلی کا مرکب ہے۔ یہاں جو کچھ ہوتا ہے وہ دکھائی نہیں دیتا اور جو کچھ دکھائی دیتا ہے اُسے کریدیے تو کچھ ہاتھ نہیں آتا۔ کون ہے جو سیاست کے بے رحم مزاج کے ہاتھوں خوار نہیں ہوا۔ جو اِس راہ پر زیادہ دور تک جانا پسند نہیں کرتے بس وہی کسی حد تک عزت بچانے میں کامیاب ہو پاتے ہیں۔ مقامِ افسوس ہے کہ سیاست کی بے رحم موجوں میں بہہ جانے والوں میں عمران خان بھی شامل ہیں۔ انہوں نے کرکٹ کے میدان میں جتنی عزت کمائی تھی وہ سیاسی دکان چمکانے کے چکر میں خود ہی مٹی میں ملادی ۔
عمران خان نے ایک سال کے دوران جو کچھ بھی کہا ہے وہ اپنی جگہ ''سیاسی شاہکار‘‘ کا درجہ رکھتا ہے۔ سُنا تو آپ نے ہوگا کہ ایک جھوٹ کو چھپانے کے لیے سو جھوٹ بولنا پڑتے ہیں۔ اور یہ بھی کہ جھوٹ کے پاؤں نہیں ہوتے یعنی اُسے چلانے کے لیے مزید جھوٹ بیساکھیوں کے درجے میں رکھنا پڑتے ہیں۔ کچھ ایسا ہی معاملہ ہمارے سابق وزیر اعظم کا بھی ہے۔ پہلے اُنہوں نے کہا کہ امریکہ نے مداخلت کرکے اُن کی حکومت ختم کرائی۔ اس حوالے سے اُنہوں نے ''سائفر‘‘ کا خوب ڈھول پیٹا۔ نصف سال سے بھی زائد مدت گزرنے کے بعد اُنہوں نے امریکہ اور سائفر والے ''بیانیے‘‘ سے رجوع کرلیا۔ اب ''اندر‘‘ کی باتیں بیان کی جارہی ہیں۔ ویسے تو خیر اب کچھ بھی کسی سے ڈھکا چھپا نہیں رہا۔ ایک زمانہ تھا کہ اندر کی باتوں کو باہر آنے میں ایک زمانہ لگتا تھا۔ اور جو لوگ اندر کی باتیں جانتے تھے وہ اُنہیں زبان پر لاتے دس بار بلکہ سو بار سوچتے تھے۔ عواقب سے زیادہ اپنی ساکھ کی فکر لاحق رہتی تھی۔ درونِ خانہ بہت کچھ ایسا بھی ہوتا ہے جو غیر قانونی نہیں ہوتا یعنی ریاستی راز کی حیثیت رکھتا ہے۔ جن باتوں سے ریاست اور اُس میں بسنے والوں کے عمومی مفاد پر ضرب لگتی ہو اُنہیں بیان کرنے سے پہلے بہت سوچنا پڑتا ہے۔ خصوصی طور پر یہ دیکھنا پڑتا ہے کہ دل کی دکان کا مال زبان کے ٹھیے پر سجانے سے دشمنوں کے بازار کی رونق تو نہیں بڑھ جائے گی! اندر کی باتیں چونکہ ''سینہ گزٹ‘‘ کا درجہ رکھتی ہیں اس لیے اُن کے ٹھوس شواہد مشکل سے مل پاتے ہیں۔ یہ بالکل کرپشن جیسا معاملہ ہے۔ ہم دھڑلے سے کہتے ہیں کہ فلاں سیاست دان کرپٹ ہے اور اُس کے میلے کی رونق دیکھ کر کوئی بھی ایسا کہہ ہی سکتا ہے مگر ثابت کرنا لوہے کے چنے چبانے جیسا ہوتا ہے۔ اندر کی باتوں کا بھی ایسا ہی معاملہ ہے۔ وقت گزر جانے کے بعد اندر کی باتیں بیان کرنے کا کچھ خاص فائدہ ویسے بھی نہیں ہوتا۔ ریکارڈ کی درستی کے لیے کچھ بیان کر دیا جائے تو سند کہاں سے آئے گی؟ محض کہہ دینے سے تو کوئی بات سچ ثابت نہیں ہو جاتی۔ اب سارا زور بظاہر اِس بات پر ہے کہ جو کچھ بھی ہوا وہ صرف اور صرف قمر جاوید باجوہ کی ''مہربانیوں‘‘ کا نتیجہ تھا۔ تمام معاملات کو گھما پھراکر باجوہ صاحب کی چوکھٹ تک لایا جارہا ہے۔
ایک زمانہ تھا کہ کوئی بھی سیاستدان مقتدرہ سے روابط کو چھپانے کی کوشش کرتا تھا کیونکہ یہ روابط ثابت ہونے سے عوام کی نظر میں بلند رہنا مشکل ہو جاتا تھا۔ اقتدار کے ایوانوں تک پہنچنے کے لیے مقتدرہ کا سہارا لینے کی ہر کوشش ڈھکی چھپی ہوتی تھی۔ اب ایسا کچھ نہیں ہے۔ اب تو بے نقاب ہونے میں توقیر کا سامان محسوس ہونے لگا ہے۔ اہلِ سیاست اپنے آپ کو کہاں تک لے آئے ہیں اِس کا اندازہ صرف اِس بات سے لگائیے کہ حکومت کی تبدیلی میں مقتدرہ سے روابط اور اُس کے کردار کو بے باکی سے بیان کرنے کا ٹرینڈ چل پڑا ہے۔ سابق وزیر اعظم کہتے ہیں کہ اُنہوں نے صدرِ مملکت ڈاکٹر عارف علوی کے ساتھ جنرل باجوہ سے ملاقات کی تو اُنہوں نے مشورہ دیا کہ فوری انتخابات کرانے ہیں تو اپنی (پنجاب و کے پی) حکومتیں ختم کردیں! اِسے کہتے ہیں ''دی ہائٹ آف ڈیلائٹ!‘‘ ہم یہ نہیں کہہ سکتے کہ عمران خان کو اُس وقت کے آرمی چیف سے مشورہ کرنے کی کیا ضرورت تھی۔ سوال یہ ہے کہ یہ بات زبان پر لانے کی ضرورت کیا تھی! کیا برائے نام نزاکت و مصلحت بھی باقی نہیں رہی؟
ووٹر سوچ تو سکتے ہیں کہ فیصلے اِس طرح کرنے ہیں تو پھر ہم سے مینڈیٹ لینے کی کیا ضرورت ہے۔ عام آدمی بھی اچھی طرح جانتا ہے کہ تمام معاملات کی پُشت پر کون ہے اور وہ اِس پر خدا کا شکر بھی ادا کرتا ہے۔ اہلِ سیاست کی مجموعی روش دیکھتے ہوئے عوام ملک چلانے کے معاملے میں اُن پر بھروسا کرنے کو تیار نہیں۔
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved