سال 2023ء کی عیدالفطر گزر چکی ہے؛ تاہم مہنگائی اور بلند ترین افراطِ زر کی وجہ سے یہ عید ہمیشہ یاد رکھی جائے گی۔ عام شہری کا یہ شکوہ بجا ہے کہ وہ اس سال مہنگائی کی وجہ سے عید کا یہ تہوار نہیں منا سکا۔ گو کہ مہنگائی کا یہ طوفان گزشتہ ایک سال سے جاری ہے تاہم اس عید پر تو مہنگائی نے اگلے پچھلے تمام ریکارڈ توڑ دیے ہیں۔ یہاں تک کہ تنور والوں نے من مانی کرتے ہوئے نان اور روٹی کی قیمتیں بڑھا دیں۔ لاہور میں روٹی تیس روپے اور نان پینتیس روپے تک بکتے رہے۔ کوئی چیک کرنے والا نہیں تھا۔ دکاندار اور بزنس کمیونٹی کے بقول اس مرتبہ عید پر بہت کم خریداری ہوئی ہے۔ ممکن ہے انہوں نے اس مرتبہ عددی لحاظ سے کم سیل کی ہو مگر نقد رقم کے اعتبار سے دیکھا جائے تو انہوں نے گزشتہ عید سے کم نہیں کمایا ہوگا کیونکہ اس سال مصنوعات کی قیمتیں پچھلے سال کے مقابلے میں دوگنا ہو چکی ہیں۔ اگر سیل کم ہوئی ہے تو اس کی ذمہ دار بھی ہماری بزنس کمیونٹی خود ہے کیونکہ وہ خاص طور پر کپڑوں‘ جوتوں اور اشیائے خورونوش پر پرائس ٹیگ لگاتے وقت اپنا منافع کم کرنے کے لیے تیار ہی نہیں تھی۔ چنانچہ لوگوں نے بھی اشیائے ضروریہ کی محدود خریداری کی شکل میں اپنا ردِ عمل ظاہر کیا۔
شکوے شکایات کا یہ سلسلہ محض عام شہری اور بزنس کمیونٹی تک ہی محدود نہیں تھا۔ سیاست دان بھی اپنے سیاسی مخالفین کے منفی رویے کی شکایت کرتے پائے گئے۔ اب تو یہ پاکستانی سیاست کا چلن بن گیا ہے کہ ہر سیاسی رہنما اور سیاسی جماعت خود کو بے گناہ اور ظلم و ناانصافی کا شکار بتاتی ہے جب کہ اپنے سیاسی حریف کو جارح‘ ہٹ دھرم اور سیاسی مسائل کی جڑ قرار دیا جاتا ہے۔ یہ عادت اس قدر پختہ ہو چکی ہے کہ سیاسی رہنما اب اپنے حریفوں کو اپنا ذاتی دشمن قرار دیتے ہیں اور ایک دوسرے کے خلاف انتہائی غیر شائستہ اور اخلاق باختہ زبان استعمال کرتے ہیں۔ (ن) لیگ‘ پیپلز پارٹی‘ تحریک انصاف اور جے یو آئی (ایف) کے قائدین ایک دوسرے کے خلاف توہین آمیز الفاظ اور القابات کے استعمال میں آخری حدیں بھی پار کر چکے ہیں۔
پاکستانی سیاست میں اوپر آنے کا ایک وتیرہ اپنی پارٹی کی اعلیٰ قیادت کی خوشامد اور چاپلوسی اور اپنے سیاسی حریفوں کو بھونڈے انداز میں طعن و تشنیع کا نشانہ بنانا ہے۔ ان جڑواں سیاسی ہتھکنڈوں کو بروئے کار لانے کے لیے سوشل میڈیا اور نجی ٹی وی چینلز کے ٹاک شو کو استعمال کیا جاتا ہے۔ کوئی بھی سیاسی گروہ اس اپروچ کے ذریعے اپنے کسی فوری سیاسی ایجنڈے کی تکمیل تو کر سکتا ہے لیکن اگر طویل مدتی تناظر میں دیکھا جائے تو اس سے سیاسی جماعت کمزور ہوتی ہے کیونکہ پارٹی کے اندر خوشامد پرست اور چاپلوس عناصر کی تعداد میں جتنا اضافہ ہوتا جائے گا‘ اس جماعت کی کسی بحرانی کیفیت سے نمٹنے اور نکلنے کی استعداد کمزور پڑتی جائے گی۔ کسی دبائو کی صورت میں اس جماعت کے لیے مربوط انداز میں کام کرنا مشکل ہو جاتا ہے۔ جب کبھی پارٹی پر مشکل وقت آتا ہے تو خوشامدی عناصرسب سے پہلے ساتھ چھوڑ جاتے ہیں۔
پاکستانی ریاست اور سوسائٹی کے معاشی مسائل کی اصل جڑ پاکستان کی تلخ اور کشیدہ سیاست ہے جو کبھی ہماری معیشت کے حوالے سے دانشمندانہ فیصلہ سازی میں ممد و معاون ثابت نہیں ہوتی۔ ہماری موجودہ سیاست آئین پسندی اور جمہوری اصولوں کی پاس داری سے عاری نظر آتی ہے۔ کوئی بھی باہمی مکالمے کے ذریعے سیاسی مسائل اور تنازعات کو حل کرنے پر آمادہ نہیں ہے۔ پاکستان کی جاری سیاست میں تمام سیاسی لیڈر اور سیاسی جماعتیں تنگ نظری اور جھوٹی اَنا پرستی پر مبنی مفادات کی اسیر نظر آتی ہیں۔ ہر پارٹی نے اپنے اپنے سچ گھڑ رکھے ہیں اور اپنا مقدمہ لڑنے کے لیے تاریخ کا جانبدارانہ استعمال کرتی ہے۔ چنانچہ ہمیں ہر پارٹی‘ خاص طور پر (ن)لیگ / پی ڈی ایم اور پی ٹی آئی کے اپنے اپنے مسابقتی سچ دیکھنے کو ملتے ہیں۔ کوئی لیڈر بھی اپنے ان خود ساختہ نظریاتی قلعوں سے باہر نکل کر دیکھنے پر آمادہ نہیں ہے جو شاید کسی آزادانہ تنقیدی جائزے کی سکت بھی نہ رکھتے ہوں۔ کیونکہ ہر پارٹی کا نقطۂ نظر اس کی محدود اور خود غرضی پر مبنی سوچ سے جنم لیتا ہے اس لیے وہ سیاسی تنازعات کے کسی قابلِ قبول حل کے لیے اپنے متحارب فریق کے ساتھ بات چیت پر آمادہ ہی نہیں ہوتا۔ ہر سیاسی جماعت مسائل کے حل کے لیے کوئی مشترکہ اور متفقہ اپروچ اپنانے کے بجائے دوسروں پر اپنا سیاسی ایجنڈا مسلط کرنے پر بضد ہے۔
پاکستان کا آئین اس حوالے سے بالکل واضح ہے کہ پنجاب اور خیبر پختونخوا کی اسمبلیاں تحلیل ہونے کے بعد بہر صورت نوے روز میں الیکشن ہونا لازمی ہیں؛ تاہم وفاقی حکومت‘ الیکشن کمیشن آف پاکستان اور مقتدرہ مشترکہ طور پر آئین کی اس شق پر عمل کرانے سے گریزاں ہیں۔ تینوں فریق سیاسی‘ مالیاتی اور سکیورٹی وجوہات کا سہارا لے کر یہ آئینی تقاضا پورا کرنے سے انکاری ہیں۔ آئین کی خلاف ورزی کرنے کے لیے ''نظریۂ ضرورت‘‘ کو ایک نئے انداز میں نافذ کرنے کی کوشش کی جارہی ہے۔
اگر آپ مختلف سیاسی جماعتوں کے رہنمائوں سے بات کرنے کی کوشش کریں تو ہر کوئی متحارب سیاسی گروپس کے درمیان بات چیت کی ضرورت کو تسلیم کرتا ہے؛ تاہم جب ان مذاکرات کے لیے درست سمت میں قدم اٹھانے کی بات کی جاتی ہے تو کوئی بھی سیاسی جماعت اپنے موقف میں لچک کا مظاہرہ کرنے کے لیے تیار نظر نہیں آتی۔ حکمران پی ڈی ایم اتحاد اور اپوزیشن پی ٹی آئی کے مابین محاذ آرائی اس قدر شدید ہو چکی ہے کہ پی ٹی آئی کے تمام اہم رہنما فوجداری تحقیقات یا عدالتی مقدمات کا سامنا کررہے ہیں۔ پی ڈی ایم کی حکومت پی ٹی آئی رہنمائوں کے خلاف تحقیقات کا سلسلہ معطل کرنے پر آمادہ نہیں ہے بلکہ اس کے بعض رہنما تو عمران خان اور پاکستان تحریک انصاف کے سیاست کرنے پر پابندی لگانے کا مطالبہ بھی کر رہے ہیں۔ الیکشن کے انعقاد جیسے اہم مسئلے پر مذاکرات کے حوالے سے ہٹ دھرمی کا مظاہرہ کیا جارہا تھا اور طرفین کے رہنما ایک دوسرے کے خلاف سخت بیانات جاری کررہے تھے مگرپی ڈی ایم اور پی ٹی آئی کے درمیان محاذآرائی کی ایسی فضا میں کسی قسم کے نتیجہ خیز مذاکرات کا کوئی امکان نظر نہیں آتا تھا۔
اپنے بعض سیاسی دلائل کی بنا پر پی ڈی ایم کی اتحادی حکومت پنجاب او رکے پی اسمبلیوں کے انتخابات کے انعقاد کے مسئلے پر کسی قسم کا تعاون فراہم کرنے سے انکار کررہی جیسا کہ سپریم کورٹ نے بھی مقررہ آئینی مدت کے دوران صوبائی اسمبلیوں کے الیکشن کرانے پر اپنا فیصلہ سنا دیا ہے تو وفاقی حکومت اور اس کے اتحادیوں نے سپریم کورٹ کے اس بینچ کے خلاف ایک مذموم مہم شروع کر دی جس میں مقررہ مدت میں الیکشن کرانے کی ذمہ داری پوری کرنے کے بجائے سوموٹو کے معاملے کو اٹھایا جارہاتھا۔ حال ہی میں جاری ہونے والی آڈیو لیکس کا مقصد بھی چیف جسٹس کو سیاسی انتقام کا نشانہ بنانا ہے۔
اس با ت سے قطع نظر کہ الیکشن منعقد کرانے پر جاری سیاسی محاذ آرائی کا اونٹ کس کرو ٹ بیٹھتا ہے ‘گزشتہ ایک سال میں خصوصاً پنجاب اور کے پی اسمبلیوں کی تحلیل کے بعد جو منفی سیاسی رجحانات منظر عام پر آئے ہیں‘ توقع ہے کہ وہ پاکستان کی مستقبل کی سیاست کو بار بار زک پہنچاتے رہیں گے۔ اس وقت پاکستان اقتدار کے حصول کے لیے ایک اصول پسندی اورعقل و خرد سے عاری تجربے سے گزر رہاہے اور تمام فریق اپنے اپنے ایجنڈے کی تکمیل کے لیے ہرجائز ناجائز حربہ استعمال کرنے پر تلے نظر آتے ہیں۔ وفاقی سطح پر پی ڈی ایم کی حکومت نے اپوزیشن کے خلاف ریاستی مشینری سمیت تمام ہتھیار استعمال کرلیے ہیں۔پاکستان میں انتخابی عمل کی تکمیل کے بعد جمہوریت کو ان حربوں کے منفی مضمرات کا سامنا کرنا پڑے گا۔
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved