تحریر : کنور دلشاد تاریخ اشاعت     29-04-2023

تین رکنی بنچ کا فیصلہ غیر مؤثر ہو جائے گا؟

بین الاقوامی سفارتی حلقوں کے مطابق سابق وزیراعظم عمران خان کے انتخابات کے مطالبے سے پاکستان کو سنگین بحران کا سامنا ہے جبکہ امریکی جریدے بلوم برگ میں شائع ایک رپورٹ میں یہ انکشاف کیا گیا ہے کہ سابق وزیراعظم عمران خان کی قبل از وقت انتخابات کی خواہش نے پاکستان کو آئینی بحران میں دھکیل دیا ہے۔ عدلیہ اور وفاقی حکومت انتخابات کی تاریخ کے حوالے سے آمنے سامنے ہیں جبکہ وفاقی حکومت انتخابات میں مداخلت کو قبول کرنے پر تیار نہیں ہے۔ امریکی جریدے کے مطابق ان سخت اقدامات کی وجہ سے وزیراعظم کی جماعت غیرمقبول ہوتی جارہی ہے جبکہ عمران خان مقتدرہ اور امریکہ سے دوبارہ تعلقات استوار کرنے کے لیے کوشاں ہیں۔ بلوم برگ نے لکھا ہے کہ خان صاحب الیکشن کمیشن پر عدالتی حکم ماننے کیلئے دباؤ ڈال رہے ہیں اوروفاقی حکومت کے خلاف عدالت میں بھی جا سکتے ہیں۔ رپورٹ کے مطابق چیف جسٹس نے ملک کے مرکزی بینک کو الیکشن کیلئے فنڈز جاری کرنے کا بھی حکم دیا جبکہ وفاقی حکومت ایک صوبہ میں الیکشن کیلئے فنڈز مہیا کرنے سے انکار کرچکی ہے۔ رپورٹ کے مطابق حکومت نے ازخود نوٹس لینے کے معاملے پر چیف جسٹس کے اختیارات کو محدود کرنے کیلئے قانون سازی کی جبکہ چیف جسٹس صاحب نے 8 رکنی بینچ تشکیل دے کر اس قانون سازی کو مکمل ہونے سے قبل ہی روکنے کا حکم جاری کردیا؛ تاہم عدالتِ عظمیٰ کے اس فیصلے کے باوجود سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر بل باقاعدہ قانون بن چکا ہے اور پارلیمنٹ نے پریکٹس اینڈ پروسیجر بل کو ایکٹ کی شکل دیتے ہوئے لاء آف دی لینڈ کے تحت سپریم کورٹ کے اختیارات کو اجتماعی وژن کے تابع کر دیا ہے۔
جون 1997ء میں جب سابق چیف جسٹس سید سجاد علی شاہ اور پارلیمنٹ کے درمیان کشیدگی پیدا ہو ئی اس وقت چیف جسٹس کو صدرِ مملکت فاروق لغاری اور مقتدرہ کی حمایت حاصل تھی۔ بعد ازاں جب مقتدر حلقوں نے وسیع تر قومی مفادات کے تحت ان معاملات سے لاتعلقی اختیار کر لی تو چیف جسٹس اور اُس وقت کے صدرِ مملکت اپنے اپنے منصب سے مستعفی ہو گئے۔ اب بھی ویسی ہی صورت حال کا سامنا ہے۔ حالیہ دنوں میں عالی مرتبت چیف جسٹس آف پاکستان عمر عطا بندیال صاحب کی خوش دامن اور خواجہ طارق رحیم کی اہلیہ کی جو مبینہ ٹیلی فونک گفتگو ریکارڈ کر کے سوشل میڈیا کے ذریعے لیک کی گئی ہے‘ اس سے عدالتی معاملات میں مداخلت کا تاثر اُبھرتا ہے۔ شنید ہے کہ عزت مآب چیف جسٹس کی خوش دامن تحریک انصاف سے وابستگی رکھتی ہیں۔واضح رہے کہ موجودہ چیف جسٹس اعلیٰ خاندانی پس منظر رکھتے ہیں۔ ان کے والدِ محترم فتح محمد بندیال پنجاب کے چیف سیکرٹری رہے ہیں۔ میرے زمانۂ طالب علمی میں جب وہ لاہور کے کمشنر تھے تو طالب علموں کے مسائل کے حوالے سے ان سے ملاقات رہتی تھی‘ وہ چند منٹوں میں ہی مسائل حل کرنے کے احکامات جاری کر دیتے تھے۔ میری رائے میں محترم چیف جسٹس کی خوش دامن اور خواجہ طارق رحیم کی اہلیہ کی مبینہ ٹیلی فونک گفتگو لیک کیے جانے کے بعد موجودہ سیاسی ماحول میں ان سے ایسی بلا جواز باتیں منسوب ہو گئی ہیں جو حکمران جماعت کے لیے فائدہ مند ثابت ہو رہی ہیں۔
دیکھا جائے تو وطنِ عزیز اس وقت جس سنگین معاشی اور سیاسی بحران کا شکار ہے‘ پہلے کبھی ایسی صورتحال کا سامنا نہیں کرنا پڑا۔ موجودہ سیاسی عدم استحکام کی وجہ سے اداروں میں تقسیم کا تاثر بھی پیدا ہو رہا ہے۔ جب کسی ملک‘ معاشرے یا ادارے میں تقسیم و تفریق کا تاثر گہرا ہو جائے تو انارکی پھیلنے کا خدشہ پیدا ہو جاتا ہے اور پھر 5جولائی 1977ء جیسے سانحات وقوع پذیر ہونے کا اندیشہ پیدا ہو جاتا ہے۔ ملک میں جاری آئینی بحران سپریم کورٹ کے مضبوط ترین نظام کو بھی متاثر کر رہا ہے۔ حکومت انتخابات سے متعلق سپریم کورٹ کے تین رکنی بینچ پر تحفظات کا اظہار کر چکی ہے اور پارلیمنٹ میں اس حوالے سے موقف واضح طور پر سامنے آیا ہے۔ اُدھر اس سیاسی کشیدگی اور آئینی بحران کے ماحول میں سابق چیف جسٹس ثاقب نثار کی جو ٹیلی فونک گفتگو لیک ہوئی ہے اُنہیں اس پرجنرل قمر جاوید باجوہ کی طرح صحافیوں کو بلا کر اپنی پوزیشن واضح کرنی چاہیے۔ ملک کے ممتاز قانون دان اور سابق گورنر پنجاب خواجہ طارق رحیم بھی وسیع حلقۂ احباب رکھتے ہیں‘ انہیں بھی اپنی اہلیہ کی مبینہ ٹیلی فونک گفتگو لیک کیے جانے سے متعلق موقف پیش کرنا چاہیے۔ سیاسی جماعتوں کے لیے بھی ضروری ہے کہ اپنے سسٹم پر نظرِثانی کریں اور سوشل میڈیا والوں سے لاتعلق رہنے کا فیصلہ کریں کیونکہ یہ محض اپنے یوٹیوب چینلز کی ریٹنگ بڑھانے کے لیے افواہوں کا بازار گرم رکھتے ہیں جس کی قیمت بعد ازاں سیاسی جماعتوں کو ادا کرنا پڑسکتی ہے۔
گزشتہ برس مئی میں سپریم کورٹ نے آئین کے آرٹیکل 63 اے کی تشریح کے لیے دائر صدارتی ریفرنس پر فیصلہ سناتے ہوئے کہا تھا کہ منحرف رکن کا ووٹ شمار نہیں ہوگا۔اس کیس کی آخری سماعت چیف جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں پانچ رکنی لارجر بینچ نے کی تھی۔اس صدارتی ریفرنس پر سپریم کورٹ نے تین‘ دو کی اکثریت سے فیصلہ سنایا تھا۔چیف جسٹس عمر عطا بندیال‘ جسٹس اعجاز الاحسن اور جسٹس منیب اختر نے فیصلے کے حق میں ووٹ دیا جبکہ جسٹس جمال مندوخیل اور جسٹس مظہر عالم نے فیصلے سے اختلاف کیا۔قانونی حلقوں کا خیال ہے کہ اس فیصلے میں 63 اے کی تشریح کرتے ہوئے آئین کی روح کو مد نظر نہیں رکھا گیا۔دو فاضل ججز نے اس فیصلے سے اختلاف کرتے ہوئے اسے آئین میں ترمیم کے مترادف قرار ددے دیا تھا جبکہ پارلیمنٹ نے بھی اس فیصلے کے بارے تاحال کوئی قانون سازی نہیں کی اور اس فیصلے کے خلاف سپریم کورٹ میں اپیل دائر کیے ہوئے بھی چھ ماہ سے زائد کا عرصہ گزر چکا ہے۔ اسی طرح قاسم سوری کی قومی اسمبلی کی ممبرشپ بھی چار سال سے سپریم کورٹ کے حکمِ امتناعی کے تحت برقرار ہے اور چار سال سے زائد کا عرصہ گزرنے کے بعد بھی کیس کی سماعت شروع نہیں کی گئی۔ جہاں تک سپریم کورٹ کے حکم پر پنجاب میں انتخابات کے لیے 21 ارب روپے فراہم نہ کیے جانے پر وزیراعظم کے خلاف توہین عدالت عائد کیے جانے کے مفروضے کی بات ہے تو غالب امکان ہے کہ ایسا نہیں ہو گاکیونکہ وفاقی کابینہ نے 21 ارب روپے کے فنڈز کی فراہمی پارلیمنٹ کی منظوری سے مشروط کر دی تھی اور پارلیمنٹ نے فنڈز ادائیگی کا بل مسترد کر دیا تھا‘ لہٰذا وزیراعظم کے خلاف توہینِ عدالت کا معاملہ پارلیمنٹ کی قرارداد کے بعد ممکن نہیں۔اس طرح پنجاب میں 14 مئی کو الیکشن کرانا بھی انتظامی طور پر ناممکن ہو چکا ہے کیونکہ 297 حلقوں کے لیے بیلٹ پیپرز کی چھپائی کا وقت بھی گزر چکا ہے اور سکیورٹی ادارے الیکشن کمیشن کو انتخابات کے لیے مطلوبہ سکیورٹی اہلکار بھی فراہم کرنے سے قاصر ہیں۔
موجودہ عدالتی‘ سیاسی‘ آئینی اور قانونی کشمکش کو اگر مدنظر رکھیں تو الیکشن کمیشن آف پاکستان کا 22 مارچ کا فیصلہ ہی درست تسلیم کیا جائے گا کہ پنجاب اور خیبر پختونخوامیں 8 اکتوبر کو انتخابات ہوں گے۔ اب اگر 12 اگست کو قومی اسمبلی اور دو صوبائی اسمبلیاں (سندھ اور بلوچستان )اپنی مدت پوری کرنے کے بعد تحلیل ہو جاتی ہیں تو60 روز میں انتخابات کرانا لازمی ہوں گے اور ممکن ہے کہ 15 اکتوبر تک ملک میں ایک ساتھ انتخابات ہوں۔ اس دوران صدرِ مملکت 9 ستمبر کو اور چیف جسٹس آف پاکستان 15 ستمبر کو اپنے عہدے کی آئینی مدت پوری کر چکے ہوں گے۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved